HAPPY FATHER’S DAY


’کامیابی‘ کی ولدیت کے خانے میں نام لکھوانے والوں کی قطاریں طویل ہوتی ہیں، اور ’ناکامی ‘ کا باپ ’نامعلوم‘ بتایا جاتا ہے۔ امریکی صدر جان کینیڈی نے بے آف پگز کے ناکام آپریشن کے بعد یہ جملہ بولا تھا جو ہر طرف خوب معروف ہوا اور ہماری سیاسی تاریخ تو بالخصوص اس جملے کی حقانیت پر دال ہے، ہم اپنی کسی ناکامی کے ’ابو جی‘کا اسمِ گرامی نہیں جان سکے، درجنوں مثالیں ہیں، کس کس کا تذکرہ کیا جائے، کارگل، براڈ شیٹ اور ریکوڈک جیسی ناکامیوں کی طویل فہرست تو چھوڑیے، ہم تو جدید اسلامی تاریخ کے غالباً سب سے بڑے سانحے، سقوطِ ڈھاکہ کے ’باپ‘ کے نام بارے بھی مختلف آرا رکھتے ہیں۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ پاکستان اندرا گاندھی نے توڑا تھا، اور اس وقت پاکستان کے مقبول ترین رہنما شیخ مجیب الرحمن نے توڑا تھا، اور اس وقت مغربی پاکستان کے سب سے بڑے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو نے توڑا تھا، یعنی سیاست دانوں نے مل کر پاکستان توڑا تھا۔ جب کہ محققین اور تاریخ دان سمجھاتے ہیں کہ مغربی پاکستان میں سال ہا سال سے جو سیاہ و سفید کے مالک تھے وہ مشرقی پاکستان کو اپنی کالونی سمجھتے تھے، سو پاکستان ٹوٹ گیا کہ ایسی ریاستیں بالآخر ٹوٹ ہی جایا کرتی ہیں۔ فیض صاحب نے کہا تھا ’میری خاموشیوں میں لرزاں ہے، میرے نالوں کی گمشدہ آواز‘۔ تو اس سے کیا سمجھ آیا؟ہماری قومی تاریخ کی سب سے بڑی ناکامی کا ’باپ‘ کون ہے ؟ نا معلوم؟

اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ’باپ‘ کے موضوع پر کالم لکھنے کا خیال حال ہی میں گزرے فادرز ڈے کے بطن سے پیدا ہوا ہے تو یہ درست نہیں ہے، اس طرف توجہ دلانے میں ان باپوں کا کردار ہے جو FATF کی سلیٹی فہرست سے پاکستان کے تقریباً نکلنے کی خبر کے فوراً بعد پیدا ہوئے۔ عمران خان فرماتے ہیں کہ چار سال مسلسل کوشش و اقدامات کے نتیجے میں ہم نے ملک کو اس مشکل سے نکالا ہے، موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ جب تک عمران خان پاکستان کے وزیراعظم رہے دنیا ہم سے ناراض رہی، حتیٰ کہ فیٹف میں ہمارے دیرینہ حلیف ہمارے خلاف ووٹ ڈالتے رہے۔ ابھی دیکھنے والے طے کرنے کی کوشش میں تھے کہ دونوں میں سچا کون ہے ، ڈی جی آئی ایس پی آر آگے بڑھے اوراس سارے سفر میں اپنی تھوڑی بہت، ٹوٹی پھوٹی، مخلصانہ کوششوں کا بھی تذکرہ کیا (ان کے لہجے میں پدرانہ شفقت نمایاں تھی)۔ یہ کہنا مبالغہ نہیں ہو گا کہ اسٹیبلشمنٹ اس معاملے کو حل کرنے کی کوششوں میں پیش پیش رہی ہے، عمران خان تو اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ ملانا بھی پسند نہیں کرتے تھے (یاد رہے کہ یہ کورونا سے پہلے کی بات ہے) وہ تو قومی سلامتی کے اجلاسوں میں بھی اپوزیشن کے ساتھ ایک چھت تلے بیٹھنے پر تیار نہیں تھے، پھر وہ انہیں عجلت زدہ مشترکہ قانون سازی پر کیسے مائل کر سکتے تھے؟ بہرحال بات یہ ہو رہی تھی کہ ’کامیابی‘ کا ایک والد نہیں ہوتا،اس منصبِ جلیلہ کے کئی دعوی دار ہوتے ہیں۔

افراد اور اداروں میں کریڈٹ بانٹنے کے بعد، کیا خیال ہے، ایک لمحے کو یہ بھی سوچ لیں کہ پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ میں گیا کیوں تھا؟یہ ’ناکامی‘ تو آج بھی یتیم خانے میں پل رہی ہے، دور دور تک اس کے باپ کی کچھ خبر نہیں، دہشت گردی کی فنڈنگ کون کر رہا تھا، دہشت گردوں کو اپنا اثاثہ کون کہہ رہا تھا۔ (بلھے شاہ فرماتے ہیں، آپے پائیاں کنڈیاں تے آپے کھچنا ایں ڈور)

اس خوشی کے موقع پر منہ کا ذائقہ خراب کرنا مقصد نہیں ہے، مدعا فقط یہ ہے کہ ہم دوبارہ اس جنجال میں کبھی نہ پڑیں۔ یاد رہے کہ ہم اب تک تین مرتبہ اس فہرست میں شامل ہونے کا ’اعزاز‘ حاصل کر چکے ہیں، شب کو مے خوب سی پی صبح کو توبہ کر لی، اور یہ توبہ شیخِ حرم بہ خوشی قبول بھی کر لیتا تھا کہ اس کو بھی ہم جیسے مغبچے درکار تھے جو حریفوں کے عمامے اتارنے کا فریضہ انجام دینے پرمامور تھے۔ اب یہ ممکن نہیں رہا، حرم بدل گیا ہے، ہم کو بھی بدلنا ہو گا۔ اب اگر ہمیں کوئی یہ سمجھائے کہ گٹکے والے پان کا نشہ بری چیز ہے تو ہمیں اس کے خلاف ’پان لیکس‘ نما کوئی پروپیگنڈا نہیں آغاز کر دینا چاہیے، اسے اپنا ہمدرد اور محسن سمجھنا چاہیے۔

اس تحریر میں بار بار باپ کا تذکرہ کرنے پر بابائے قوم یاد آ گئے جنہوں نے ہمیں ایک ایسی نصیحت کی تھی کہ اگر ہم اسے پلے باندھ لیتے تو آج ہماری ناکامیوں کی فہرست اتنی طویل نہ ہوتی۔ قوم کے باپ نے کہا تھا’ پاکستان ایک آئین کے تحت پارلیمانی جمہوریت ہو گا‘۔ ہم نے ان کی نصیحت سنی ان سنی کر دی، بلکہ یکسر مخالف سمت میں چل پڑے، ہم نے آئین توڑنے والوں کو پھولوں کے ہار پہنائے اور آئین کی حرمت کا تحفظ  کرنے والوں کو پاگل قرار دے دیا (اللہ تعالیٰ وقار سیٹھ کی قبر کو نور سے بھر دے)۔ اور پارلیمان کی حالت زار بھی آپ کے سامنے ہے، پاکستان کے اکثر بڑے فیصلے پارلیمان سے باہر کیے جاتے ہیں، پارلیمان پالیسی بناتی نہیں، بلکہ بنی بنائی پالیسی پر بریفنگ لیتی ہے۔( تحریکِ طالبان پاکستان سے مذاکرات کا معاملہ انتہائی شفاف ہونا چاہئے) ہم تھک گئے ہیں، اب نہ تو ناکامی کا یارا ہے نہ گمشدہ والد کی تلاش کی ہمت۔ جمال احسانی یاد آ گئے ’میں ابھی پہلے خسارے سے نہیں نکلا ہوں، پھر بھی تیار ہے دل دوسری نادانی پر‘۔

(بشکریہ روزنامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments