بجٹ کی کاپی پر پارٹی اشتہار


تحقیق کرنے والے جب کسی مسئلے پر کچھ لکھنا یا بولنا چاہتے ہیں اور وہ مسئلہ کسی خاص واقعے سے پہلے یا بعد کا ہو اور اس واقعے کے بعد بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہو تو پہلے اس واقعے کا حوالہ دینا اپنی بات یا موضوع میں وزن ڈالنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ جیسے کہ پہلی یا دوسری جنگ عظیم سے پہلے یا بعد ، تقسیم ہند سے قبل یا بعد از تقسیم ہند، نائن الیون سے پہلے یا نائن الیون کے بعد بالکل اسی طرح ہماری سیاست میں ہم پی ٹی آئی کی سیاست میں آنے سے پہلے یا ان کے آنے کے بعد کی بات کئی حوالوں، کئی تبدیلیوں یا نئے اختراعات کے بل بولتے پر برملا کر سکتے ہیں۔ ویسے سیاسی تاریخ سے بلد لوگ یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ہماری سیاست میں جو موجودہ بھونچال ہے اس کا مرکز بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی سے ہیں جس کو چھ یا سات کی شدت تک پہنچانے کا سہرا عمران خان کی پی ٹی آئی کے سر جاتا ہے جس نے حالیہ سیاست میں سب کچھ کو اتھل پتھل کر دیا ہے۔

سیاسی اقدار کی بلند و بالا عمارات کا زمین بوس ملبہ چارسو بکھرا پڑا ہوا ہے۔ سیاسی شخصیات کی ابرو ریزی اور طعن و تشنیع سے سڑاند اور اکڑی ہوئی چلتی پھرتی لاشیں ان سیاسی اقدار کے بلند و بالا عمارات کے زمین بوس ملبے کے نیچے دھبی ہوئی ہیں اور ہر طرف گندی سیاسی تعفن کی بدبو پھیلا رہی ہیں۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس سے خود پی۔ ٹی آئی کی قیادت خصوصاً عمران خان کی ذات اور اسے متعلقات بھی جواب الجواب میں بچے ہوئے نہیں ان کو بھی اس گندے تالاب میں اپنے پھینکے ہوئے پتھروں کی چھینٹیں اپنے زیب تن کیے ہوئے شیروانیوں پر جگہ جگہ داغ بناتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

اس کے علاوہ سیاسی تقرری میں باہر سے درآمد شدہ غیر سیاسی اور غیر منتخب شدہ شخصیات کے مشیر بنانے کی بہتات اور فراوانی، ٹائیگر فورس کا اجراء، جلسوں میں مخلوط گانے بجانے اور رقص و سرود کا انضمام و انتظام۔ دھرنا اور کنٹینر تقریری کلچر، سیاست میں ہیلی کاپٹر کی جدید آمدورفت، سونامی، بلین ٹریز، مفت گھر، مخلوط نصاب تعلیم، برٹش طرز حکمرانی میں اٹھارہ بیس سال کی عمر میں جاگزیں ہونے اور ریاست مدینہ کی تکرار در تکرار ورد، اوئے، سنو اہم بات کرنے جا رہا ہوں، گھبرانا نہیں، میرے پاکسانیو سنو، ۔

میں، میں اور پھر میں کی گردان، سوشل میڈیا ایکٹوازم، یہ اور اس طرز کے کئی چیزیں گو کہ کچھ پہلے بھی موجود تھیں لیکن عروج کو پہنچی اس دور حکمرانی میں۔ سرکاری کاموں میں اپنی اپنی پارٹیوں کا تشہیری کام پہلے بھی تھا، ایکسکیویٹر مشینوں، بولڈوزروں اور ٹریکٹروں پر کام کے وقت پارٹیوں کے جھنڈے پہلے بھی لگتے تھے۔ لیکن یہ بات کبھی نہ دیکھی اور نہ سنی کہ بات یہاں تک آئے گی کہ بجٹ کاپی پر بھی اپنے جھنڈے کا کلر پرنٹ کیا جائے گا۔ یہ تو اللہ بھلا کرے اے۔ این۔ پی کی خاتون ایم۔ پی۔ اے شگفتہ ملک صاحبہ کا جنھوں نے بجٹ تقریر کے دوران اس بات کی طرف سپیکر اور موجود ممبران کے ساتھ ساتھ ملک کے بائیس کروڑ پبلک اور کرہ ارض پر سات ارب انسانوں کی توجہ اس جانب مبذول کرائی۔

شگفتہ ملک صاحبہ نے اپنے تقریر کے دوران بجٹ کاپی کو دکھا دکھا کر یہ بات دہراتی رہیں کہ یہ سیاست کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ کسی بجٹ کاپی پر کسی پارٹی نے اپنی اشتہار بازی کی ہو اور مزید یہ کہ صوبائی بجٹ میں وزیر اعلیٰ کے بجائے وزیر اعظم کا نام درج کر لیا گیا ہو۔ اور اسی دوران اسمبلی کے فلور پر سپیکر صاحب سے مطالبہ کیا کہ اس اشتہار بازی پر جو ملک کے خزانے کا خرچ آیا ہے وہ ان سے لے لیا جائے اور سرکاری خزانے میں جمع کیا جائے۔

اب سوال اٹھتا ہے کہ پی ٹی آئی کو آخر کیوں اس نہج کی اشتہار بازی کی ضرورت پڑی؟

کہا جاتا ہے کہ جب مارکیٹ میں کوئی آئٹم نہیں بکتا یا اپنی وقعت کہو دیتا ہے تو اس کی اشتہار بازی کی جاتی ہے اس کی مارکٹنگ کی جاتی ہے۔ ایسا تو نہیں کہ حالیہ اسلام آباد میں دھرنوں کی کال کی ناکامی نے پی ٹی آئی کو شہرت کے نفسیاتی رجحان میں دھکیل دیا ہو اور آنے والے الیکشن میں ان کو اپنا چھرا پانی میں نظر آ رہا ہو۔ لیکن جب کسی کا ستارہ عروج پر ہو تو وہ جب مٹی کو بھی ہاتھ لگاتا ہے تو وہ سونا بن جاتا ہے۔

ساڑھے تین سالوں کی مسلسل مہنگائی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پی ٹی آئی جتنی غیر معروف ہوتی جا رہی تھی عدم اعتماد کی تحریک کے بعد مسلم لیگ نون کی حکومت کی مسلسل مہنگائی نے ایک بار پھر عمران خان اور ان کی پارٹی کو نئی زندگی دی اور ایک بار پھر پبلک میں سر اٹھا کر چلنے کی قابل بنائی اور آنے والے الیکشن میں ان کو تازہ ترین سیاسی نعروں اور سیاسی پروپیگنڈے کا خاطر خواہ سامان مہیا کر دیا ہے جس کا پی ٹی آئی بھر پور فائدہ اٹھا سکتی ہے، کیونکہ جو کچھ یہ پبلک سننا چاہتی ہے اور جو کچھ ان کے بیچوں بیچ بیچا جا سکتا ہے وہ مواد یا با الفاظ دیگر چورن عمران خان اور پی ٹی آئی کے پٹارے میں وافر مقدار میں موجود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments