عروسائی پنجروں کی قیدی بچیاں


صبح کافی بارش ہوئی تھی اور شب گئے آندھی بھی خوب چلی۔ یہ سب اسی روز ہوا جب صحت کیمپ لگنا تھا۔ خدشہ تھا کہ کیمپ کے لئے کیے گئے انتظامات درہم برہم ہو چکے ہوں گے۔ خدشات درست ثابت ہوئے۔ پھر کیا تھا، ایک خاتون کے مزار کے ساتھ علاقے کی جنازہ گاہ میں جگہ مل گئی۔ خدا خدا کر کے کیمپ شروع ہوا۔ کیمپ عورتوں اور بچوں کے معائنے کے لئے تھا۔ وہاں آنے والی اکثر عورتیں امید سے تھیں۔ کچھ ایسی تھیں کہ انہوں نے کبھی مطب کی راہ بھی نہ لی تھی۔

ایک عورت جو حمل کے ساتویں ماہ میں تھی کو معلوم ہی نہ تھا کہ عورتوں کی کوئی طبیبہ ہوتی ہے۔ وہ اپنا چہرہ عورتوں کی ڈاکٹر کے سامنے بھی کھولنے کو تیار نہ تھی۔ کیمپ میں ایک چھوٹی سی بچی آئی۔ اس کا چہرہ اس قدر صاف تھا کہ بچپن کی معصومیت خوب چھلانگیں مار کر سامنے آ رہی تھی۔ گول مٹول سی مسکراتی بچی نے ایک اور چھوٹی سی بچی گود میں اٹھا رکھی تھی۔

”دونوں بہنیں کتنی پیاری اور معصوم ہیں۔“ میں نے دل میں سوچا۔

چند ماہ کی نومولود اپنی بڑی بہن سے کافی مانوس تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ اسی تمام تر پرورش اور نگہداشت اس کی بارہ سالہ بڑی بہن ہی کرتی ہوگی۔ آگے بڑھ کر میں نے اس نومولود کو پیار کیا۔

”یہ اتنی پیاری بیٹی کس کی ہے“ ۔
اس کی دکھائی دینے والی بہن بے حد خوش ہوئی۔
”یہ میری بیٹی ہے۔ میں اس کی ماما ہوں۔“

وہ واقعی میں اس کی بیٹی تھی۔ اس کم سن بچی نے اس نومولود کو چھ ماہ پہلے اپنے گیارہ سالہ بدن سے جنم دیا تھا۔ جس کا معائنہ کرانے ہیلتھ کیمپ لائی تھی۔ اس نومولود کی چھاتی بند رہتی تھی اور کھانسی تھی۔ میں بہت بڑھا چڑھا کے بھی بتاؤں گی تو وہ بارہ سال سے زیادہ کی نہیں تھی۔ اس کی عمر پرچی پر بھی لکھی گئی تھی۔ وہ گول مٹول کم سن معصوم بچی تھی جس کا پیٹ دوسرے حمل کی وجہ سے ابھرا ہوا تھا۔ وہ پھر بھی اپنا معائنہ کرانے نہیں آئی تھی۔

وہ اپنی نومولود کی بند چھاتی سے چھٹکارا چاہتی تھی۔ میں نے اس سے جیسے ہی مزید بات کرنا چاہی، اس کے ہمراہ آئی عمر میں بڑی خاتون جو اس کی ساس یا ماں تھی نے اس کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ ایک کم سن معصوم نے اپنے اسی کم سن بدن سے نجانے کیسی تکلیف جھیل کر ایک بچہ پیدا کیا اور وہ پھر سے اس مرحلے سے گزرنے کو تیار کی جا رہی تھی۔

عورت کبھی کم سن نہیں رہتی۔ وہ پیدا ہوتی ہے، شیر خوار ہوتی ہے اور پیدائش کے چند سالوں بعد جوان ہو کر گوشت کا تازہ لوتھڑا بن جاتی ہے۔ وہ شادی کے لئے تیار ہو جاتی ہے۔ چاہے وہ عمر میں دس برس کی ہو چودہ برس کی۔ پدرشاہی نظام، روایت، تاریخ، اقدار اور طرز زندگی کی نظر میں پکا پکایا سالن ہوتی ہے۔ جس کے شوربے کا گرم گرم جام ہر کوئی بھرنا چاہتا ہے۔ وہ جام بھرے یا نوالہ بنائے، وہ بس اپنی ہوس اور بھوک کے مطابق پیٹ بھرتا ہے، جتنا گرم سالن ہو گا، اتنا ہی سیر ہو کر کھایا جائے گا۔

عورت کی کم سنی کو جھٹلا کر جسم کی خیالی گرمی کی تھال میں پیش کرنے والوں کی کبھی کمی نہیں رہتی۔ اس میں ماضی میں تھال میں پیش کی جانے والی ان عورتوں کی بھی کمی نہیں رہتی نہ ہی عقیدوں اور خام پرستشوں کے جوہڑ میں دروغ کی ریاضت کرنے والوں کی بدی کم ہوتی ہے۔ یہ لوگ ہر حیلے اور بہانے سے تھال میں بکرے کی طرح کم سن بیٹی کو دلہن بنا کر پیش کرتے ہیں۔ سب والدین اور غیرت مند بھائیوں کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی چھوٹی سی بیٹی کو ایک بڑی عمر کا آدمی کس غرض سے اپنے گھر لے کر جا رہا ہے۔ ان کو ذرا برابر اس کے جسمانی توقیر کی بے توقیری کا خیال نہیں آتا۔ وہ ہمیشہ سے انسانی گوشت کا چلتا پھرتا دوڑتا بھاگتا کھاتا پیتا ٹکرا ہی ہوتی ہے، جس کی دوڑ بھاگ پر پابندی عائد ہوتی ہے تو کبھی اس ٹکرے پر اسلاف کی روایات کے نام پر پردے لادے جاتے ہیں۔

ان کے قریب، کم سن لڑکیاں منٹو کے مسعود کی نظروں میں بکرے کی وہ رانیں ہیں جن سے دھواں اٹھتا رہتا ہے۔ یہ دھواں کبھی ان کی نظروں سے اوجھل ہو ہی نہیں پاتا، جہاں عورت کا جسم دکھے وہیں دھواں اٹھنا شروع ہو جاتا ہے۔ جس کو چھپانے کے لئے اس کی انسانیت کو تلف کرنے کے نت نئے غیر فطرتی طریقے ایجاد کیے جاتے ہیں۔ مگر ہوس کی بھوک سات پردوں، چار دیواریوں اور خونی رشتوں کی توقیر میں بھی چھپ نہیں پاتی۔

مختصراً، معاشرے کی بینائی ہی عورت کے جسم تک آ ٹھہری ہے۔ سارا نظام اس کی چمڑی کا طواف کرتا ہے، اس کی ساخت کی پیمائش اقدار کرتی آئی ہیں کہ کم سنی اور بلوغت میں تفریق نہیں کی جا سکی۔ آج بھی کم سن بچیوں سے ہمبستری کو عروسائی لباس پہنایا جاتا ہے۔ کم سن بچیوں سے خلوت کو قانونی شکل دینے میں عمر اٹھارہ سال سے کم کرتے کرتے سولہ تک آ گئی ہے۔ جتنی کم ہوگی اس سے زیادہ کم عمر بچیوں کو بیاہا جائے گا۔ چودہ کی ہوگی تو کہا جائے گا اٹھارہ کی ہے دس بارہ کی ہوگی تو کہا جائے گا سولہ کی ہے۔

کم عمری میں بیاہی جانے والی لڑکیوں کو خاص ترکیبیں رٹائی جاتی رہیں کہ وہ اپنی عمر زیادہ بتایا کریں۔ ایسے لباس زیب تن کریں کہ شوہر کے مقابلے میں کم سن معلوم نہ ہوں۔ ایسی خوراک کھائیں کہ وزن کی زیادتی باعث بڑی بڑی لگیں۔ یہ کل بھی ہوتا رہا، آج بھی ہو رہا ہے اور جب تک پدر شاہی کو اپنا خون پلانے والوں کی سوچ رہے گی ایسا ہوتا رہے گا۔

دعا ہو یا کوئی اور کم سن زہرہ، اس کو اس سماج کی بھاری بھرکم اکثریت صرف ایک عورت ہی تصور کرے گی کہ شاید بچیوں کی رانوں کے وسط سے خون بہنا شروع ہوجاتا ہے تو وہ طشتری میں سجنے کو تیار ہو جاتی ہیں۔ وہ ایک معصوم بچی نہیں بس عورت ہے کہ فطرتی عمل کا آغاز ہو چلا ہو گا۔ جہاں تمام انسانوں کے حقوق کی تکرار ایک ممنوعہ عمل کہلاتا ہو، وہاں بچوں کے حقوق کی بحث ہی بے سود ہے۔ عورتوں کے حقوق کا تو سوچ کر ہی توبہ تائب کے دروازے کھول دینے چاہیئیں۔ ویسے بھی بچوں کے حقوق بچوں کے ہوتے ہیں، بچیوں کے نہیں۔

جن معاشروں میں بیٹی کا وجود ملعون ہو، جہاں پدرشاہی کے پنجے دیو ملائی بلاؤں کی طرح تیز اور اقدار میں گڑھے ہوں، وہاں بیٹی کا وجود مکروہ ہی سمجھا جائے گا، وہاں بیٹی کا کم سن وجود گوشت کا دھڑکتا لوتھڑا ہی نظر آئے گا۔ جہیز نہ دینے کی غرض میں کم سن بیٹیوں کو ایسے جانوروں کے عروسائی پنجروں میں پھینکا جاتا ہے۔ جہاں ہر برس وہ حمل سے ہوتی ہیں۔ کچھ مار دی جاتی ہے، کچھ صدقہ خیرات کی طرح وار دی جاتی ہیں۔ کتابوں کہانیوں میں بیٹی کو رحمت کہنے والے بہت ہیں اور یہ بس کانوں کو طمانیت بخشتی کہانیوں کی کتابوں میں رہتے ہیں۔

غربت کے باعث دس برس کی بیٹی کی شادی کرنے والوں کے فعل کی دلیل مفلسی پیش کی جاتی ہے مگر اپنی تیرہ اور چودہ سالہ بیٹی کو معززین شہر کس دلیل سے کسی اپنے جیسے کے عروسائی پنجرے میں پھینکتے ہیں؟

اکثر بیٹیوں کی پہلے ہی رشتے پر شادی کر دی جاتی ہے۔ چند ہفتوں کے اندر ہی بیٹی کے بوجھ کو ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے۔ مگر نہیں بیٹیاں رحمت ہوتی ہیں اور رحمت کا بوجھ اتنا ہے کہ اٹھایا نہیں جاتا جو پیدائش کے چند سالوں بعد ہی رخصت کرنے کی جلدی میں قربان کی جاتی ہیں۔ بڑی کو دیکھنے والے چھوٹی کو پسند کر کے چلے جاتے ہیں، کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ چھوٹی کو دیکھنے والے بڑی کو پسند کیے ہوں۔ بس دھڑکتا ہوا تر و تازہ گوشت چاہیے اور کم سن بچی کی بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے، جس کے جسم کے ریشوں کو بچپن سے لعن طعن سہنی پڑتی ہے۔ جتنی کم عمر اتنی ہی تروتازہ۔

ہیلتھ کیمپ کی وہ کم سن بستہ کے بوجھ کی بجائے زچگی کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھی۔ پیٹ میں دوسرے حمل کا بوجھ تھا اور کولہے پر ایک نومولود کا جس کو وہ اٹھائے تھکتی تو دوسرے بازو سے لگا لیتی اور وہاں سے تھکتی تو پہلے بازو سے چپکاتی۔ اگر اس ہیلتھ کیمپ میں ہم کوئی بھی چوں چرا کرتے تو بلدیات والوں نے ان بے یارو مددگار عورتوں اور بچوں کے لئے دوبارہ کسی ہیلتھ کیمپ کی اجازت نہیں دینا تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments