دعا زہرہ ہم شرمندہ ہیں


رمضان میں شروع ہونے والا دعا زہرا کا قصہ تا حال خبروں کا حصہ ہے۔ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی کیس زیر سماعت رہا ہے اور اس طرح ریاست پاکستان کے عوام سے لے کر مقتدر اداروں نے دعا زہرا اور ظہیر کے اس قصے میں بھرپور دل چسپی لیتے ہوئے معاملے کی حساس نوعیت اور اس عظیم معاشرتی مسئلہ کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگرچہ تقریباً پچھلے دو ماہ سے میڈیا میں تواتر کے ساتھ دعا زہرا کے معاملے کو کوریج دی جا رہی ہے۔

اور جہاں ایک طرف دانشوران فیس بک و ٹویٹر دعا زہرا کی پراسرار گمشدگی و نکاح پر فتوی جات صادر فرمانے میں مصروف رہے ہیں۔ تو دوسری طرف فرقہ واریت سے لے کر متشدد کمپیوٹر گیمز کے بچوں کے رویوں پر اثرات اور والدین کے کردار کے بارے میں معاشرتی تضادات جیسے موضوعات بھی سوشل میڈیا پر زیر بحث تھے جن کو پڑھ کے ایسا لگتا ہے کہ ارسطو اور افلاطون جیسے لوگوں کا سوشل میڈیائی دور سے پہلے دنیا سے چلا جانا ان کے حق میں کتنا بہتر ہو گیا۔ سوشل میڈیا پر لاگ ان ہونے پر کچھ ایسا محسوس ہوتا کہ دعا زہرا کیس عہد حاضر کا سب سے اہم حل طلب مسئلہ ہے بلکہ مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ حتی کہ جب پولیس نے انتہائی پروفیشنل انداز میں کیس کی تفتیش کرتے ہوئے حقائق وضع کیے تو مذکورہ دانشوران کے نزدیک یہ بھی ایک سازش کی کڑی تھی۔

بہرحال مذکورہ کیس سے متعلقہ حقائق سامنے آنے کے بعد بھی دعا اور ظہیر کیس مسلسل زیر بحث ہے۔ اب تو بہت سے ٹک ٹاکرز اور سوشل میڈیا انفلوئینسرز بھی اس جوڑے سے شرف ملاقات حاصل کرنے کے بعد ویڈیوز کے ذریعے بھرپور ویوز حاصل کر رہے ہیں۔ اگرچہ گاہے بگاہے اخبارات، سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے دعا زہرا کیس سے متعلق معلومات ملتی رہتی ہیں۔ تاہم اس کے باوجود یہ کوتاہی ہم سے سرزد ہو چکی ہے کہ ہم نے اس حساس معاملے کی حساسیت کو نظر انداز کرتے ہوئے کبھی بھی اس پر لب کشائی بلکہ قلم کشائی نہیں کی۔

اپنی اس کوتاہی کے لئے ہم دعا زہرا اور ظہیر سمیت ان تمام لوگوں سے شرمسار ہیں جو روز اول سے دور حاضر کے ان عاشقان کا ملین کے حق میں ہر فورم پر آواز اٹھا رہے ہیں اور ہم جیسوں کو احساس دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ملک پاکستان کے اصل مسائل یہ ہیں۔ باقی مسائل تو حل ہوتے رہیں گے۔ عدالتوں میں کیسز زیر التوا پڑے ہیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ شاری بلوچ جیسی پڑھی لکھی خواتین خود کش حملے کر رہی ہیں۔ مائیں بچوں سمیت دریا برد ہو رہی ہیں یا عدالتوں کے باہر تیسری نسل انصاف کی امید میں انتظار کی سولی پر لٹکی ہے۔

کتنے طلبا ہیں جو فیس نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہیں۔ ملک میں جبری مشقت کے حوالے سے کوئی قانون نہیں ہے۔ بچوں کا کوئی تحفظ نہیں ہے۔ عورتوں کے لئے ملک کتنا غیر محفوظ ہے۔ ملک پراپرٹی ڈیلرز کے رحم و کرم پر ہے۔ زرعی زمینوں کو ناقابل بیان رفتار کے ساتھ رہائشی کالونیز میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ پاکستان جو ایک زرعی ملک ہونے کا دعوے دار ہے گندم دوسرے ممالک سے درآمد کر رہا ہے۔ دریا خشک ہونے کی وجہ سے قحط سالی کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے۔ یہ سب غیر اہم ہے۔ اس پر بات کرنا غیراہم اور وقت کا ضیاع ہے۔ حکومت وقت کے لئے نیب کو ختم کرنے کے لئے قانون سازی اہم ہے تو اپوزیشن کے لئے حکومت میں واپسی۔ باقی عوام کے لئے اہم ترین ایشوز میں دعا زہرا اور ظہیر ہی رہے گئے ہیں۔

اب یہ میری کم علمی سمجھ لیں یا کو تا ہی کہ اس عظیم عوامی مسئلہ کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا۔ حالانکہ ایک پڑھے لکھے اور خود ساختہ میڈیا سکالر ہونے کے ناتے میرا یہ فرض بنتا تھا کہ میں دعا زہرہ کی گمشدگی اور بازیابی سے لے کر بعد از بازیابی ہونے والے اہم واقعات کو دیکھ کر اس گریٹ ڈیبیٹ کا حصہ ضرور بنتا جس میں اس معاشرے کو درپیش چند اہم ترین مسائل زیر بحث لائے گئے جن کا تعلق براہ راست اس کیس کے ساتھ ہے۔ بہرحال دیر آید درست آید کے مصداق اپنی اس کوتاہی کی تلافی کرنے کے لئے فوری طور پر پانچ سات فیس بک پوسٹس شیئر کر دی گئی ہیں اور چار عدد ٹویٹس بھی داغ دیے گئے ہیں اور اس طرح ایک مستند سوشل ایکٹویسٹ اور ایک ذمہ دار پاکستانی ہونے کا فریضہ احسن طریقے سے ادا کر دیا ہے۔

امید ہے اب دعا اور ظہیر کے قصے میں کوئی نیا موڑ نہیں آئے گا اور وہ باقی زندگی ہنسی خوشی گزار لیں گے۔ اور اگر ایسا ہو گیا تو امید رکھتے ہیں کہ دانشوروں کا ایک بڑا طبقہ اس فکر سے آزاد ہو کر کچھ قدرے غیراہم معاملات پر بھی بات کریں گے۔ بہرحال مسائل و حالات جو بھی ہوں، دعا زہرہ ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ یہ قوم تمھارے ساتھ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments