بے لوث محبت


گزشتہ دنوں طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے نزدیکی اسپتال میں جانا پڑا۔ شب کے لگ بھگ دس بجے کا وقت تھا۔ تشخیص کے بعد ڈاکٹر نے دوا اور انجیکشن تجویز کیا۔ وہیں موجود فارمیسی سے تجویز کردہ ادویات لی اور انجکشن لگوانے کے لیے کسی نرس کی تلاش میں نگاہیں دوڑائیں لیکن کوئی رسائی حاصل نہ ہو سکی۔ کاؤنٹر پر موجود ملازم سے استفسار پر معلوم ہوا کہ نائٹ شفٹ میں محض ایک ہی سٹاف موجود ہے جو کہ اس وقت آپریشن تھیٹر میں لیڈی ڈاکٹر کے ہمراہ اپنی ڈیوٹی نبھا رہی ہے۔ لہذا اس کے فری ہونے تک انتظار گاہ میں تشریف رکھیں۔ چارو ناچار مجھے وہاں موجود بنچز پر بیٹھنا پڑا۔

”فرصت اور مصروفیت“ دونوں حالات کے بہترین ساتھی ”موبائل“ کو اپنی جیب سے نکالا اور سوشل میڈیا پر مختلف ٹرینڈز اور ”میمز“ کو پڑھنے لگا۔ ریٹنگ اور ویورشپ کی دوڑ میں نوجوان نسل ہر اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسے کھو گئی ہے کہ ان کی زندگی کا مقصد بس ہنسی، ٹھٹھہ یا تضحیک آمیز جملوں کی بوچھاڑ کرنا ہے۔ اصل اور نقل کی پہچان مشکل نہیں ناممکن سی ہو گئی ہے۔ مادیت پرستی اور جھوٹی شان و شوکت اور دولت کی نمائش نے انسان کا اصل روپ کہیں گنوا دیا ہے۔

میں ”سکرولنگ“ کرتے انہی سوچوں میں مگن تھا کہ قریب سے ایک بچے کے رونے کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ میں نے موبائل سکرین سے نگاہیں ہٹائی تو خلوص و محبت کا ایسا منظر دیکھا جس کا شائبہ تک بھی سوشل میڈیا کی کسی پوسٹ پر نہیں تھا۔ بچہ قدرے بڑا تھا اور ابھی لڑکپن کی حدود عبور کر رہا تھا، بازو پر پٹی بندھی تھی اور اس کے ساتھ ایک ضعیف عورت بھی تھیں۔ شومئی قسمت کہ اس منظر کے دونوں کردار جو کہ رشتے میں دادی اور پوتا تھے، چلتے ہوئے میری برابر کی سیٹ پر آ بیٹھے اور مجھے قریب سے وہ بے لوث چاہت اور خدمت دیکھنے کو ملی۔

پہلے مجھے محسوس ہوا کہ ان کے ساتھ کوئی تیسرا مرد بھی ہو گا لیکن کچھ دیر بعد یہ غلط فہمی بھی دور ہو گئی جب کمپوڈر نے آ کر نئی مرہم پٹی خریدنے کے لیے پیسے اس اماں جی سے طلب کیے۔ میں اس درجہ ہمت اور طاقت کے مظاہرے پر دم بخود رہ گیا کہ رات کے اس پہر اور اس بڑھاپے میں جب خود انہیں کسی سہارے کی ضرورت ہے یہ اماں جی اپنے پوتے کو لے کر اسپتال آئی ہوئیں۔ اور اپنے پوتے کی ہر چیخ ہر آنسو کے ساتھ تڑپ اٹھتیں۔

کبھی اس کے گال سہلاتیں تو کبھی پیار سے پچکارتیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اپنے کمزور اور ابھری ہوئی رگوں والے ہاتھوں سے اس کی ٹانگیں اور بازو بھی دبا رہی تھیں۔ ایسے بے لوث اور انمول محبت کے منظر نے مجھے اندر تک سرشار کر دیا۔ اپنی مرحومہ دادی اماں یاد آئی جو کہ اتنا ہی خالص پیار کرتی تھیں۔ اللہ ان کو جنت میں اعلی مقام عطا کرے۔ آمین

میں انتظار کی کوفت کو یکسر بھول چکا تھا کہ اسی اثناء میں مجھے کاؤنٹر سے پکارا گیا کہ اب تشریف لے آئیں۔ میں اس منظر کے سحر سے یہ سوچتے ہوئے اٹھا کہ یہ بے لوث رشتے ہمارے لیے کتنے اہم ہوتے ہیں کہ جس سے مشکل زندگی بھی آسان لگنے لگتی ہے۔ لالچ اور خود غرضی کے اس دور میں ایسے بے لوث اور انمول رشتوں کے لیے وقت نکالنا ہی باعث تسکین دل و جاں ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments