پندرہ سالہ مسنگ پرسن حیدر علی، خزاں کے تیرہ سال


سوات خیبر پختونخوا!

تشدد، عسکریت، انتہا پسندی، طالبان، فوج ظلم، قتل و غارت ایک تصویر۔ دوسری جانب افضل خان لالہ، خان نواب خاندان اور سوات کے بیٹوں کی جرات اور مزاحمت کی داستانیں۔ سوات نے اس بیچ بہت کچھ کھویا۔ سکون، چین، آرام، کاروبار، روزگار، امن سب کچھ۔ پھر بڑوں کے درمیان معاملات طے پا گئے اور جو خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا۔ فوج کا دعوی تھا کہ وہ امن کی ضامن ہے۔ اس بات کی تصدیق کے لئے مثالیں بھی درکار تھیں سو آپریشن کے بعد لوگ گھروں سے غائب ہونا شروع ہوئے۔ بالکل وزیرستان اور بلوچستان کی طرح۔

کون غائب کرتا تھا، سب کو علم تھا۔ کہاں لے جایا جاتا ہے کسی کو خبر نہیں تھی۔

سال 2009 میں ایک دسویں جماعت میں پڑھنے والے پندرہ سالہ طالب علم کو دہشت گردوں سے تعلق کے الزام میں گھر سے اٹھا لیا جاتا ہے۔ اگلے کچھ سال اس بچے کا جس کا نام حیدر علی ہوتا ہے، کچھ پتہ نہیں چلتا۔ اس کا والد ظاہر علی ہر جگہ جگہ خاک چھاننے کے بعد تھک ہار جاتا ہے۔ ایک دن اسے خبر ملتی ہے کہ اس کا بیٹا تیمر گرہ کی ایک جیل میں ہے لیکن اسے ملنے نہیں دیا جاتا۔ سال گزرتے جاتے ہیں، چھ سال بعد اخبار میں چھپنے والی ایک خبر سے انہیں پتہ چلتا ہے کہ حیدر علی کو ملٹری کورٹ نے دہشت گردی کے جرم میں موت کی سزا سنا دی ہے۔

یہاں رکتے ہیں۔ پندرہ سالہ اسکول جانے والے بچے کو اٹھا لینا، پھر اسے غائب رکھنا، اسے کسی بھی کورٹ کے سامنے پیش نہ کرنا، اس کے گھر والوں کو اس کے محل و وقوع سے مکمل بے خبر رکھنا اور اے پی ایس واقعہ کے بعد ملٹری کورٹس کی اجازت ملنے کے بعد بغیر ملزم کو صفائی کا موقع دیے سزائے موت سنانا اور اس کے گھر والوں کو خبر تک نہ دینا۔ کیا یہ سب ٹھیک ہو رہا تھا؟ یقیناً نہیں۔ یہ غلط تھا۔ زیادتی تھی۔

حیدر علی کے بھائی کا کہنا ہے کہ جب ہمیں سزائے موت کے فیصلہ کا علم ہوا تب ہم نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا جہاں اس فیصلہ کو معطل کیا گیا۔ بعد میں یہ کیس سپریم کورٹ گیا جہاں 2015 سے لے کر آج تک یہ کیس چل رہا ہے۔ بیچ میں ملٹری کورٹ کے جس جج نے حیدر علی کو سزا سنائی تھی اس نے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کو ان عدالتوں کے واسطہ سے کیے گئے غیر انسانی فیصلوں کے متعلق کھلا خط بھی لکھا جو موقر اخبار دی نیوز میں شائع بھی ہوا۔ فوجی عدالتوں پر تنقید کرنے والے ان جج صاحب کو بھی غائب کر دیا گیا۔ حیدر علی کے سپریم کورٹ میں چلنے والے کیس پر اثر انداز ہونے کی بارہا کوشش کی گئی۔ اسکول انتظامیہ پر دباؤ ڈال کر ریکارڈ میں تبدیلی کی گئی تاکہ حیدر علی کی گرفتاری کے وقت کم عمر ہونے کی حقیقت کو مسخ کیا جا سکے۔

حیدر علی کا خاندان اس کیس پر سپریم کورٹ میں قانونی عمل بشمول وکلاء کی فیس کی مد میں ایک کروڑ سے اوپر پیسے لگا چکا ہے۔ ایک لوئر مڈل کلاس فیملی کے لئے ہی نہیں اچھے اچھوں کے لئے ایک کروڑ اچھی خاصی بڑی رقم ہوتی ہے۔ آج بھی کیس جوں کا توں ہے اور تیرہ سال قبل محض پندرہ سال کی عمر میں ماورا عدالت گرفتار کیے گئے حیدر علی ہری پور جیل میں قید ہیں۔ ایک اسکول جانے والا بچہ اٹھائیس برس کا ہو چکا ہے اور اٹھائیس برس کی عمر میں بھی اس کی داڑھی کے بالوں میں چاندی اتر آئی ہے۔

حیدر علی کی زندگی کے تیرہ خوبصورت سال فوجی عدالت، ہٹ دھرمی اور بدمعاشی کی وجہ سے ضائع ہو چکے ہیں۔ آج سپریم کورٹ اسے رہا کرے، ملٹری کورٹ کو آئینی طور پر کالعدم قرار دیا جائے یا صدارتی حکم سے اس کی سزا معاف کر دی جائے، سوال یہ ہے کہ اس کے قیمتی سال، اس کی تکلیف اور اس کے خاندان کے کرب کا جواب کون دے گا؟

منظور پشتین نے کہا تھا کہ ریاست اور شہری کے درمیان صرف آئین کا واسطہ ہوتا ہے۔ ضروری ہے کہ فرد کو آئین کے تناظر میں برتا جائے وگرنہ پھر یہی آئین کا غیر موثر ہونا ہی ریاست کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments