پاکستان بمقابلہ سوویت یونین


ایک وقت تھا کہ دنیا میں ایک بہت بڑا ملک ہوا کرتا تھا۔ جو رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا جس کی سرحدیں یورپ سے لے کر امریکا کے الاسکا تک، اور چین اور منگولیا سے لے کر ایران اور افغانستان تک اور سمندر میں جاپان تک پھیلی ہوئی تھیں۔ 1917 میں زار روس کے خلاف بالشویکوں نے روس کے اندر سوشلسٹ انقلاب برپا کیا۔ اور 1922 میں 4 دیگر ریاستوں کی شمولیت کے بعد اس ملک کا نام سویت یونین رکھا گیا۔ سویت یونین فوجی اور اقتصادی لحاظ سے بہت ہی مضبوط ملک بن کر ابھرا۔

اور بہت تیزی سے صنعتی اور اقتصادی ترقی کے اہداف حاصل کیے ۔ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کی افواج کو سویت یونین نے شکست سے دوچار کر کے جرمنی کے دو ٹکڑے کر دیے۔ اور ساتھ ہی مشرقی یورپ کے بہت سے ممالک جن پر جنگ عظیم دوم کے وقت جرمن افواج نے قبضہ کیا تھا ان کو بھی آزاد کروایا۔ جس سے یورپ کے ایک بہت بڑے حصے پر روس کا اثر و رسوخ ہو گیا۔ اس کے بعد اس کی اقتصادی اور عسکری ترقی نے دنیا کو حیران کر دیا۔ 29 اگست 1949 میں سوویت یونین نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ کیا اور امریکہ کے بعد دنیا کا دوسرا ایٹمی اسلحہ بنانے والا ملک بن گیا۔

خلا میں پہلے انسان کو بھیجنے کا اعزاز بھی سویت یونین کو حاصل ہوا جب 12 اپریل 1961 کو یوری گگارین نے پہلے انسان کی حیثیت سے خلا میں قدم رکھ کر تاریخ رقم کی۔ روس کی بڑھتی ہوئی عسکری اور اقتصادی ترقی نے مغربی ممالک اور امریکہ کو پریشان کر دیا۔ سوویت یونین کی عسکری ترقی اور اس بچاؤ کے لئے امریکہ نے 1949 میں نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو یا ناٹو) بنائی تھی۔ یہ تنظیم سرد جنگ کے ابتدائی دنوں میں امریکہ نے اپنے رکن ممالک کے مشترکہ دفاع کے لیے بطور سیاسی اور فوجی اتحاد کے بنائی تھی۔ لیکن سوویت یونین نے اپنی مسلسل ہمت اور ترقی سے امریکہ اور ناٹو کو ہر محاذ پر ٹکر دینے کی اہلیت حاصل کرلی۔ ملک کو کو معاشی طور پر اتنا مضبوط کیا گیا کہ اپنی ضروریات کی زیادہ تر مصنوعات خود تیار کرتا تھا۔ تعلیم پر خاص توجہ دی گئی۔ اور ہر لڑکے اور لڑکی کے لئے تعلیم لازمی اور مفت کردی گئی تھی۔ سالانہ ہزاروں ڈاکٹر اور سائنسدان پیدا کرنے کی صلاحیت حاصل کی۔ علاج سب کے لئے مکمل طور پر مفت اور اعلیٰ پائے کا کر دیا تھا۔ ملک کے اندر جرائم کی شرح بہت نچلی لیول پر لے کر آ گئے۔

پولیس کا نظام جدید سائنسی خطوط پر استوار کیا گیا۔ جس سے امن و امان مثالی بن گیا۔ روزگار سب کے لئے تھا۔ مردوزن کا کوئی فرق نہیں تھا اور نہ کوئی سفارش یا رشوت کی ضرورت تھی۔ کوئی شخص بیروزگار نہیں تھا۔ سب کو رہنے کے لئے مکانات اور متعلقہ سہولتیں جیسے بجلی، گیس اور صاف پانی کی سہولتیں میسر تھی۔ اشیاء ضرورت انتہائی سستی تھی۔ ستر سالوں سے زیادہ تر اشیاء کی قیمتیں منجمد تھیں۔ مرد اور عورت کو یکساں حقوق حاصل تھے۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا سویت یونین اندرونی اور بیرونی دنیا میں ایک مکمل سپر پاور تھا۔

اچانک تبدیلی اقتدار کی صورت میں سنہ 1985 میں میخائل گورباچوف مسند اقتدار پر بیٹھ گئے۔ آتے ہی انہوں نے تبدیلی کا نعرہ لگایا۔ ان کے خیال 1917 سے رائج سوشلسٹ نظام میں کچھ خامیاں تھیں جن کو دور کرنا ضروری تھا۔ اس کے لئے اس نے دو نعرے دیے۔ پیری سترویکا اور گلاسنست۔

پیری سترویکا روسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی تعمیر نو کے ہیں۔ گورباچوف نے پیری سترویکا کے تحت کچھ نئے قوانین متعارف کروائے۔ اس وقت افغانستان میں سوویت یونین کی افواج کی ایک بڑی تعداد افغانستان کے انقلاب ثور کی دفاع کے لئے موجود تھی۔ جس پر کافی خرچہ تھا۔ گورباچوف نے افغانستان کو سوویت یونین کے لئے رستا ہوا زخم قرار دیا۔ اور ساتھ میں افغانستان سے اپنی افواج کے انخلا کا اشارہ بھی دیا۔ بین الاقوامی دنیا نے اس کو سوویت یونین کی کمزوری سے جوڑ دیا۔ اور ساتھ میں پروپیگنڈا شروع کیا کہ سوویت یونین افغانستان میں جنگ ہار رہا ہے۔ دوسری پالیسی جیسے گلاسنست کا نام دیا گیا۔ جس کا مطلب حکومتی معاملات پر کھلے عام بحث کرنا اور ان کو عوام کے سامنے رکھنا تھا۔

گلاسنست کی پالیسی سے حکومتی معاملات سامنے آنے کے بعد اس میں عوامی رائے کی بھی اہمیت پیدا ہو گئی۔ چونکہ سوویت یونین 15 مختلف ریاستوں کا مجموعہ تھا۔ اس میں کافی تعداد میں مسلمان ریاستیں بھی تھیں۔ ایشیا اور یورپ پر پھیلے اس عظیم سلطنت میں مختلف مذاہب کے ساتھ مختلف اقوام رہتی تھی۔ کچھ مغربی پروپیگنڈے اور کچھ اندرونی پالیسیوں کی وجہ سے جلد ہی ریاستوں کے مابین تعلقات میں تلخیاں آنے لگیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ افغانستان میں سوویت یونین کی جنگی اخراجات سے ان کی معاشی ترقی پر گہرا اثر پڑا۔

اور ریاستوں کی جانب سے افغانستان سے فوجی انخلا پر زور دیا جانے لگا۔ جو بالآخر فروری 1989 میں افغانستان سے سوویت افواج کے انخلاء پر منتج ہوا۔ افغانستان سے فوجی انخلاء کے بعد بین الاقوامی پروپیگنڈے نے اس کو سوویت یونین کی شکست کی شکل میں پیش کیا۔ جس کا اثر ملکی حالات پر پڑنے لگا۔ گورباچوف اور اس کے رفقاء نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح ملکی اقتصادیات کو مستحکم کیا جائے۔ لیکن حالات آہستہ آہستہ مزید خراب ہو گئے۔

اس کے ساتھ ہی مشرقی یورپ کے وہ ممالک جو سوویت کے اثر رسوخ میں تھے وہاں حکومتوں کے خلاف بغاوتیں شروع ہوئیں۔ یورپ اور امریکہ کے تعاون سے سوویت نواز حکومتیں تبدیل ہو گئیں۔ اور وہاں سے سوویت یونین کے اثر رسوخ ختم ہو گئے۔ دیوار برلن ٹوٹ گئی اور جرمنی دوبارہ ایک ملک بن گیا۔ ابھی گورباچوف اینڈ کمپنی اس جھٹکے سے سنبھلنے کی کوشش میں تھے کہ سوویت یونین کی 3 بالٹک ریاستوں لتھویا، لتھوانیا اور استونیا نے سوویت یونین سے آزادی کا اعلان کر کے اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا۔ ان کی دیکھا دیکھی دوسری ریاستوں کے اندر بھی ہلچل شروع ہوئی۔ اور بھر دیکھتے ہی دیکھتے ساری ریاستوں نے ایک معاہدے کے تحت سوویت یونین کو تحلیل کر کے اپنی آزاد ریاستیں بنائیں۔ 1991 میں یہ عظیم الشان سلطنت زمین بوس ہو گئی۔ اب اس کا نام صرف تاریخ میں ملتا ہے۔ اس وقت نہ صرف میں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں پشتون طلباء سوویت یونین کے اندر مفت تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ سوویت یونین کا انہدام ہم نے بہت قریب سے دیکھا۔

اتنے بڑے سلطنت کا انہدام تاریخ کا حصہ بن گیا لیکن یہ کیسے ہوا اور کیوں ہوا اپنے پیچھے ہزاروں سوالات چھوڑ گیا۔ سوالات بہت ہیں مگر سوویت یونین کا انہدام ایک تاریخی حقیقت بن گیا ہے۔ اس کے جو بات اور مختلف توجیہات بھی ہیں جن کا تفصیلی ذکر اگلے کالم میں کیا جائے گا۔ اس میں اس وقت سوویت یونین کے اندر سابقہ پاکستانی طالب علموں کی آرا شامل کی جائے گی کہ اتنے بڑے سلطنت کے زوال کے اسباب کیا تھے۔ اور اس سے بحیثیت پاکستانی ہمیں کیا سبق لینا چاہیے۔ اور پاکستان کو کس طرح ان حالات سے بچانا چاہیے جس ست سوویت یونین دوچار ہوا۔ لیکن ایک بات پر سب کا اتفاق ہے اور وہ ہے اقتصادی اور معاشی بدحالی۔ وسائل کا غلط استعمال اور حکومتی معاملات میں مطلق العنانی نے بھی سوویت یونین کے انہدام میں اہم کردار ادا کیا۔

آج کل وطن عزیز کے جو حالات چل رہے ہیں وہ سابقہ سوویت یونین کے انہدام کے حالات کے بہت قریب ہیں۔ سویت روس جو دنیا کا سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار رکھتا تھا جن کی تعداد ہزاروں میں تھی وہ بھی اقتصادی بدانتظامی کی وجہ سے اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکا تو ہم گنتی کے چند بموں سے کیا تیر مار لیں گے۔ 22 کروڑ بھوکے انسان نہ صرف اس نظام کو کھا جائیں گے بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ بن جائیں گے۔ یہ دور اقتصادی ترقی اور عوامی فلاح کا دور ہے۔ کھوکھلے نعرے اور جھوٹے وعدے تو کچھ وقت چل جائیں گے لیکن زیادہ دیر نہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ عوامی فلاح اور اقتصادی ترقی پر جنگی بنیادوں پر کام کیا جائے۔ ورنہ بقول شاعر ”تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments