وہ غیر معمولی آپریشن جس میں ڈاکٹروں نے رحم میں موجود بچے کی رسولی ختم کی

جیولیا گرانچی - بی بی سی نیوز برازیل


اٹھارہ مئی کو اپنے پہلے بچے کو جنم دینے والی 34 سالہ صحافی پولیانا ریزینڈے برانٹ کہتی ہیں ’اس سے قبل کہ ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ اسے اتنے سب سے گزرنا پڑے گا، ہم نے پہلے ہی اس کا نام ایک جنگجو کے نام پر 'راگنار' رکھنے کا سوچا تھا۔‘

ان کی زچگی کی دوسری سہ ماہی کے وقت مختلف طبی ٹیسٹوں میں ان کے بچے کی چھاتی کے قریب ایک رسولی کی علامات ظاہر ہونے لگی تھیں۔

یہ ایک بہت ہی غیر معمولی طبی حالت تھی، جسے پلمونری سیکوسٹریشن کہا جاتا ہے۔ جس میں ایک ایسی رسولی یا مواد بن جاتا ہےجو پھیپھڑوں کی طرح لگتا ہے، جسے خون کی نالیوں کے ذریعے خون فراہم کیا جاتا ہے لیکن اس کا کوئی خاص کام نہیں ہوتا ہے۔

ڈینیئل ڈو برازیل، برازیلیا کے سانتا لوشیا ہسپتال میں جنین کی سرجری کی ماہر سرجن کہتی ہیں ‘اگرچہ وہ ٹیومر مہلک نہیں تھا، یعنی یہ کینسر نہیں تھا، مگر یہ بڑھ رہا تھا اور بچے کے اعضاء کو سکیڑ رہا تھا، اور ساتھ ہی جسم سے کچھ خون حاصل کر رہا تھا جس سے بچے کے پھیپھڑوں میں پانی جمع ہو رہا تھا۔’

ان کے پاس یہ کیس پولیانا کی جانب سے زچگی کے دوران ایسے انتہائی خطرناک کیسز کے ماہر ڈاکٹروں کے تلاش کے دوران آیا تھا۔

ڈاکٹروں نے پولیانا کو خبردار کیا تھا کہ اگر ان کی زچگی کے دوران اس مسئلے کا طبی حل نہ کیا گیا تو ان کا ہونے والا بچہ زندہ نہیں بچے گا۔ اور اگر وہ ایمرجنسی میں بھی جنم دیتی ہیں تو ان کا حمل جو اس وقت صرف 29 ہفتوں کا تھا اور انتہائی قبل از وقت پیدائش کی صورت میں بھی مر سکتا تھا۔

ماں کا کہنا ہے کہ ‘ یہ بہت پریشان اور بے چین کر دینے والا معاملہ تھا، مجھے بس یقین رکھنا تھا اور بہترین سشپلسٹ ڈاکٹروں کو تلاش کرنا تھا۔ ہم سائنس کو اہمیت دیتے ہوئے یہ جانتے تھے کہ سائنس اور یقین دونوں ایک ساتھ کام کر سکتے ہیں۔ اور یہ وہی ہے جو میں نے اور میرے شوہر جو تمام تر مشکل وقت میں میرے ساتھ تھے نے کیا۔’

جیسا کہ کنگز کالج لندن میں ہائی رسک کیسز کے ماہر سرجن ڈینیئل ڈو برازیل نے بتایا کہ ‘میڈیکل لٹریچر یہ ثابت کرتا ہے کہ راگنار جیسے کیس کے لیے، اس کی رسولی کو خون فراہم کرنے والی نالیوں میں سے ایک کو جلانا پڑتا ہے۔’

انھوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ‘لہذا ایک موٹی سوئی کے ساتھ جو اپنے اندر لیزر فائبر لے جاسکتی ہو ہم اس خون پہنچانے والی نالی کو جلا سکتے ہیں۔ اس سے وہ رسولی ختم ہو جائے گی اور جسم میں گھل جائے گی۔ اس کا مقصد یہ بھی تھا کہ بچے کی چھاتی سے سیال کو نکالا جائے تاکہ پھیپھڑے پھیل سکیں۔’

پولیانا نے اس متعلق دیگر ڈاکٹروں سے مشورے بھی کیے مگر مختلف ماہرین کی آرا سننے کے بعد وہ اس آپریشن کے لیے تیار ہو گئیں۔

ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ‘ہم اس نالی کو بہترین انداز میں جلانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اور پوری ٹیم کافی مطمئن تھی۔ لیکن بدقسمتی سے دس دن بعد عموماً جب ہم یہ جاننے کے لیے انتظار کرتے ہیں کہ آیا اس طریقے کار سے کچھ فائدہ بھی ہوا یا نہیں، ہمیں نے دیکھا کہ ٹیومر نے بچے کے جسم میں ایک اور جگہ کا راستہ اختیار کیا ہے، جس کی وجہ سے ماس یا رسولی پھر سے بڑھنے لگی اور سینے میں سیال بھی بڑھنے لگا۔’

ایسا آپریشن جو پہلے کبھی نہیں ہوا

سرجن کا کہنا تھا کہ حاملہ ماں اور ہونے والے بچے کے والد کو یہ خبر سنانا بہت مشکل تھا۔ ‘ انھوں نے پہلے ہی ہم سے اور دسورے ڈاکٹروں سے یہ سن رکھا تھا کہ شاید دوسری مرتبہ سرجری کرنا ضروری ہو لیکن وہ بہت پر امید تھے۔ ایک ایسے جوڑے کے بارے میں سوچیں جنھوں نے اپنی زیادہ تر پریگنینسی کے دوران یہ تصور کیا کہ ان کا بچہ مر سکتا ہے۔ ‘

ڈاکٹر ڈنیئنل کا کہنا ہے کہ ‘لیکن مشکلات سے ہی حل جنم لیتے ہیں۔’

لہذا ان کی ٹیم نے یہ فیصلہ کیا کہ اس طریقہ کار سے ماں کے رحم میں موجود بچے کی رسولی کو خون فراہم کرنے والی نئی نالی کو ہی نہ جلایا جائے بلکہ اسی طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے پوری کی پوری رسولی کو ہی ختم کر دیا جائے۔

پولیانا اور ان کے شوہر اس سرجری کے لیے رضامند ہو گئے۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘میں اپنے چہرے ہر مسکراہٹ کے ساتھ ان تمام سرجریز سے گزری جیسا کہ تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ مجھے اپنا بیٹا بچانے کا ایک موقع ملا تھا، بہرحال جب آپ ایک ماں بنتے ہیں تو آپ میں ایک خاص قوت ارادی پیدا ہو جاتی ہے۔’

ان کا دوسرا آپریشن ڈھائی گھنٹے تک جاری رہا۔

یہ بھی پڑھیے

رحم مادر کا ٹرانسپلانٹ، بے اولاد افراد کے لیے بڑی خبر؟

آپریشن کے ذریعے پیدائش سے انسانی ارتقا میں خلل

’میری نند بچہ پیدا کر کے آئی تو سسرال والوں نے بریانی پکانے کا کہا‘

اکٹوپک حمل: ’اتنے حمل ضائع ہوئے کہ مجھے لگا اب میں ماں نہیں بن پاؤں گی‘

یہ آپریشن کرنے والے سرجن، جنھوں نے یہ سرجری ڈاکٹر جولیانہ ریزنڈے، مقامی ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کی مدد کے ساتھ کی، کہتے ہیں ‘ یہ میری زندگی کا ابتک کا سب سے مشکل آپریشن تھا۔ جنین کی سرجری میں ہمیں ہمیشہ اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ آگے کیا ہو گا، ہمیں ہمیشہ اس بات کا بھی مکمل اندازہ نہیں ہوتا کہ اندر کیا ہے؟ میرے پاس ماں کے رحم میں ایک ہدف تھا جس کے اندر بھی ایک حرکت کرتا ہدف تھا، ایک رسولی۔ جو سیال اور ماس سے بنی تھی اور میں کوشش کر رہا تھا کہ میں وہاں تک ایسے پہنچوں جس سے میری سوئی نہ ہلے۔’

آخرکار ڈاکٹر یہ آپریشن کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اور بچے میں رسولی دوبارہ نہیں بنی اور راگنار 18 مئی کو پیدا ہوا۔ اس کی پیدائش کے بعد اس کی چھاتی کے کیے جانے والے پہلے ایکسرے میں رسولی کے کوئی اثار یا علامات نہیں تھیں۔

ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ‘تین ماہ بعد اس کے چھاتی کی ٹوپوگرافی کریں گے، یعنی ایک میڈیکل ٹیسٹ جس میں بچے کے سینے کا بغور جائزہ لیا جائے گا۔ ہماری توقع ہے کہ جلائے گئے ٹیومر کے ٹھیک ہونے کی وجہ سے فائبروسس والے علاقوں کو تلاش کرنا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اس بچے کو مزید سرجری کی ضرورت نہیں ہے۔’

اب، یہ میڈیکل ٹیم اس غیر معمولی آپریشن کے طریقے کار سے متعلق ایک کیس رپورٹ دنیا بھر کے چند طبی تحقیقاتی جرائد میں جمع کروانے کی تیاری کر رہی ہے تاکہ ان کے تجربے سے دیگر عالمی طبی برادری بھی فائدہ اٹھا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32547 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments