افغانستان میں زلزلے کی دردناک کہانی: ’میں نے اپنی بیٹی گل نورا کو ملبے سے نکالی جانے والی لاشوں میں پہچانا‘

یوگیتا لمائے - بی بی سی نیوز، پکتیکا، افغانستان


Eight-year-old Shakrina, earthquake victim
آٹھ برس کی شکرینہ زلزلے میں شدید زخمی ہوئی ہیں
آٹھ برس کی شکرینہ کا چہرہ درد سے نڈھال ہو جاتا ہے اور جب وہ اپنی طرف مڑنے کی کوشش کرتی ہیں تو چلانا شروع کر دیتی ہیں۔ ان کے جسم میں متعدد فریکچر ہیں اور ان کی بائیں ٹانگ پر گھٹنے سے نچلے حصے پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔

ہسپتال میں ان کے ساتھ والے بستر پر سے ان کی ماں مِیرا اپنا بازو بڑھا کر انھیں تسلی دینے کی اپنی سی کوشش کر رہی ہیں۔

مِیرا کی دائیں آنکھ چوٹ لگنے سے بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے اور انھیں کئی دوسرے زخم بھی لگے ہیں۔

ان ماں بیٹی دونوں کو زلزلے سے ان کے گھر کے تباہ ہونے کے چھ گھنٹے بعد افغانستان کے صوبہ پکتیکا کے ضلع گیان میں ان کے گھر کے ملبے کے نیچے سے نکالا گیا تھا۔

میرا نے اپنے سکارف سے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا کہ ’میں اپنی دوسری بیٹی کو کہیں بھی دیکھ نہیں پا رہی تھی اس لیے میں نے ریسکیو کرنے والوں سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ اس کی موت واقع ہو گئی ہے۔‘

اس کے بعد میرا نے اپنی نوعمر بیٹی گل نورا کو گیان میں ایک جگہ پڑی لاشوں میں دیکھا۔ یہ لاشی ریسکیو ورکرز نے ملبے سے نکال کر ایک جگہ جمع کی تھیں۔

ان کے مطابق ’عام طور پر ہم اپنے گھروں کے باہر سوتے تھے، لیکن اس رات بارش اور بجلی تھی، اس لیے ہم اندر ہی سو گئے‘۔

اب پکتیکا کے مرکزی صوبائی ہسپتال میں صحت یاب ہونے والی مِیرا ایک ایسے وارڈ میں ہے جہاں تقریباً ہر ایک کی کہانی ایک جیسی ہے۔

بی بی حوا اپنی 11 ماہ کی بیٹی صفیہ کے ساتھ وہاں موجود ہیں۔ دونوں کے جسموں پر متعدد زخم آئے ہیں۔ انھوں نے بدھ کے زلزلے میں اپنے خاندان کے 18 افراد کو کھو دیا ہے، جس میں ایک ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

Women's war at Sharana hospital

شارانا ہسپتال میں مریضوں کے علاج کے بہتر مواقع بھی موجود نہیں ہیں

بی بی حوا کے دیگر بچے، ان کے تین بیٹے فاروق، حمزہ اور مقصود اللہ مرنے والوں میں شامل تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’میرا دل کرب میں ہے۔ اب جب میں گھر جاؤں گی تو وہاں کوئی نہیں ہو گا۔‘

زلزلے کے اگلے دن وہ ان 75 زخمیوں میں شامل تھیں، جنھیں صوبہ پکتیکا کے صدر مقام شارانہ کے صوبائی ہسپتال میں لایا گیا تھا۔ اس ہسپتال میں 72 بستر ہیں اور اس میں پہلے سے ہی دیگر بیماریوں کے شکار مریض داخل تھے۔

یہ ریڑھ کی ہڈی کی چوٹوں والے لوگوں یا ان لوگوں کے علاج کے لیے موزوں نہیں ہے جنھیں نیورو سرجری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے زیادہ سنگین نوعیت کے زخمیوں کو دیگر ہسپتالوں میں بھیجنا پڑا ہے۔

وہ مریض جو پہلے ہی دور دراز علاقوں سے ہسپتال پہنچنے کے لیے گھنٹوں کا سفر طے کر چکے تھے، انھیں علاج کے لیے ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر ایک اور طویل سفر طے کرنا پڑتا تھا۔

واضح رہے کہ افغانستان پر طالبان کی حکومت سے قبل صحت عامہ کی دیکھ بھال تقریباً مکمل طور پر غیر ملکی پیسوں سے ہوتی تھی۔ گزشتہ سال 15 اگست کو یہ امداد منجمد کر دی گئی تھی، جس کے بعد ہسپتال اور طبی سہولیات تباہی کے دھانے پر پہنچ گئیں۔

زلزلے کے بعد طالبان نے عالمی برادری سے مدد کی اپیل کی ہے۔

میں نے ان کے وزیر صحت عامہ ڈاکٹر قلندر عباد سے پوچھا کہ کیا انھیں ابھی تک کوئی عالمی امداد مل سکی ہے؟

ان کا جواب تھا کہ ’ہاں، ہمیں خطے کے ممالک جیسے ایران، پاکستان، انڈیا، قطر، متحدہ عرب امارات اور کچھ عرب ممالک سے امداد ملی ہے۔ یورپ نے تعاون کا وعدہ کیا ہے اور ہم نے دیکھا کہ امریکی صدر نے بھی ایک بیان دیا ہے۔

ان کے مطابق ’ہم دنیا بھر کے ممالک کا انتظار کر رہے ہیں یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ ہماری مدد کیسے کر سکتے ہیں۔‘

Qalandar Ebad

قلندر عباد کا دعوی ہے کہ طالبان نے اپنے بین الاقوامی سطح پر کیے جانے والے وعدوں پر عمل درآمد کیا ہے

طالبان کی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے اور طالبان کو اس وقت متعدد پابندیوں کا سامنا ہے۔

میں نے ڈاکٹر عباد سے پوچھا کہ کیا طالبان نے دنیا کو اپنی حکومت کو تسلیم کرنے پر قائل کرنے کے لیے قابل تسلی کام کیا ہے۔ تو اس پر بھی ان کا جواب مثبت تھا اور انھوں نے جواب دیا کہ ’ہاں، ہم نے بین الاقوامی شناخت کے لیے تمام اصولوں کی پاسداری کی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ افغانستان کے تمام لوگ ہماری حمایت کرتے ہیں۔‘

خیال رہے کہ طالبان کی حکومت ایک منتخب حکومت نہیں ہے۔ میں نے پوچھا کہ خواتین کے حقوق اور انسانی حقوق کے حوالے سے اپنے وعدوں کو پورا کیے بغیر طالبان کیسے توقع رکھتے ہیں کہ دنیا انھیں تسلیم کرے گی۔

ڈاکٹر عباد نے اپنی حکومت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’عالمی برادری میں کچھ غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ ہم نے خواتین کے لیے کسی بھی دوسری حکومت سے زیادہ کام کیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ طالبان حکومت میں خواتین زیادہ محفوظ ہیں، اور انھوں نے تمام لڑکیوں کی تعلیم کو یقینی بنانے کی پالیسی بنائی۔ واضح رہے کہ اس وقت خواتین کے لیے افغانستان میں حالات طالبان کی طرف سے کیے گئے دعوؤں کے برعکس ہیں۔

طالبان پر خواتین کے حقوق کا مطالبہ کرنے والی خواتین مظاہرین کو حراست میں لینے اور مارنے کا الزام ہے۔

انھوں نے ثانوی سکولوں کی لڑکیوں اور صحت عامہ اور سیکیورٹی کے شعبے کے علاوہ خواتین کو کام سے روک دیا ہے۔ حال ہی میں انھوں نے اس حوالے سے قوانین کا بھی اعلان کیا ہے کہ خواتین کو عوامی مقامات پر کیا پہننا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے

افغانستان میں زلزلے سے ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار ہو گئی، امدادی کارروائیاں جاری

پاکستان کے کون سے علاقے زلزلے کے زیادہ خطرے کی زد میں ہیں؟

افغانستان میں زلزلہ: طالبان کا ریسکیو آپریشن ’تقریباً مکمل‘، پاکستان نے سرحدی راستے کھول دیے

لیکن بہت سے لوگ مغرب کے احتسابی عمل پر بھی انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ غیر ملکی فنڈز افغانستان میں ریاستی اخراجات کا تین چوتھائی حصہ تھے۔ جبکہ اب اس امداد کے بغیر ملک معاشی بحران کی طرف بڑھ گیا ہے۔

لاکھوں عام افغان امداد کی سیاست کے گرداب میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ میرا اور بی بی حوا ان لوگوں میں شامل ہیں جنھیں غربت میں دھکیل دیا گیا ہے۔

اسی طرح کی کہانی مزدور شندی گل زدران کی بھی ہے۔

زلزلے سے پہلے زیادہ تر دنوں میں انھیں کام نہیں ملتا تھا۔ اس زلزلے میں زخمی ہونے کے بعد اب ان کی دائیں ٹانگ میں سٹیل کی راڈ ڈالی گئی ہے، جس کا مطلب ہے کہ کم از کم تھوڑی دیر کے لیے ان کے پاس روزی کمانے کا کوئی رستہ باقی نہیں رہ گیا ہے۔ اور وہ اپنے گھر سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’میرے پورے خاندان نے ساری زندگی اپنا گھر بنانے کے لیے بہت محنت کی۔ اب یہ گھر تباہ ہو چکا ہے۔ ہم اب مدد کے بغیر اسے دوبارہ تعمیر نہیں کر سکیں گے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments