ہدایت نامہ قرضہ مانگنے کا


قرضہ نمبر 1

ادھار مانگنا میاں مسکین کا شیخ بلند اقبال سے مبلغ سو روپے۔

” شیخ صاحب۔ اجی شیخ صاحب۔ ایک عرض میری سنے گا۔ اللہ آپ کا اقبال ہمیشہ بلند رکھے۔ کیا ممکن ہے۔ یعنی یہ کہ میری ایک درخواست ہے چھوٹی سی۔ وہ کیا کہتے ہیں فارسی میں۔ آیا بود کہ گوشۂ چشم بما کنند۔ میں از حد ممنون ہوں گا اگر آپ پہلی تک کے لیے، بس اگلے مہینے کی پہلی تک کے لیے سو روپے عنایت فرما دیں۔“
”کیا کہا؟ سو روپے؟“
” جی ہاں سو روپے۔ میں نے عرض کیا نہ بلا تاخیر واپس ہوں گے۔ اپنی جان کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ایک لحظہ کی دیرینہ ہوگی۔ جونہی مجھے تنخواہ ملی۔“

”ہوں۔ اکٹھے سو روپے۔“

”بات یہ ہے شیخ صاحب میں عجیب قضیے میں گرفتار ہوں۔ مالک مکان بہت ٹیڑھا اور بد زبان ہے۔ اور بنیا جس کے ہاں سے آٹا دال آ تا ہے غصیلے مزاج کا ہے اور دھوبی بے ایمان کپڑے بھی پھاڑتا ہے۔ دام بھی زیادہ لگاتا ہے۔ اور لکڑی والا ہمیشہ جل کر کوئلہ ہوا رہتا ہے۔ سب نے مل ملا کر ناک میں دم کر رکھا ہے حالانکہ شریف آدمی سے ادائیگی میں دیر سویر ہو ہی جاتی ہے۔ کسی کے پیسے تو میں نہیں مار رہا نہ۔“

”لیکن میاں مسکین بخش۔ پچاس روپے تم نے دو مہینے پہلے لیے تھے اور اسی طرح کی عاجزی دکھا کر اور تسلیاں دے کر اور جان کی قسم کھا کر۔ اس کے بعد آج تم نے صورت دکھائی ہے۔“

”بات یہ ہے شیخ صاحب۔ اب میں کیا عرض کروں۔ وہ تو جو ہوا سو کو تا ہی نہیں ہوگی۔ میں کلام پاک پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہوں کہ آپ کی کوڑی کوڑی تنخواہ کی رقم ملتے ہی۔“
”میاں تم معاملے کے کھرے نہیں ہو۔“
”جی نہیں شیخ صاحب۔ بس آج دے دیجیے۔“
” تم نہیں دو گے واپس۔“

”ضرور دوں گا شیخ صاحب“ اور اس گھنٹے بھر کی تھکا فضیحت کے بعد اور جان اور ایمان کی قسمیں کھانے کے بعد میاں مسکین کو سو روپے ملے، شیخ بلند اقبال کی بارگاہ سے۔

قرضہ نمبر 2

قرض لینا مسمی بختاور علی مالک بختاور اینڈ سنز کریانہ مرچنٹ پنڈی بھٹیاں کا جہاں سے آنا دال توا پرات قلم دوات اینٹ پتھر، لوہا لکڑی۔ ضرورت کی ہر چیز گاہکوں کو بہ کفایت ملتی ہے۔ ادھار مانگ کر شرمندہ نہ کریں۔ ملازموں کو تنخواہ روزانہ دی جاتی ہے۔ وغیرہ کا، مقامی بینک سے۔

مسمی بختاور علی قصبے کے بخیل بینک لمٹیڈ کے کونٹر پر جاتے ہیں اور کلرک سے کہتے ہیں مینجر سے ملنا ہے۔ کلرک کو معلوم ہے کہ مسمی بختاور علی کو قرضہ چاہیے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ پانچ ہزار روپے چاہئیں۔ وہ بختاور علی سے کہتا ہے۔ ادھر بینچ پر بیٹھ جائے۔ انتظار کیجئے مینجر صاحب مصروف ہیں۔

مینجر نے کھڑکی کی جھری ہی سے بختاور علی کو آتے دیکھ لیا ہے۔ اس وقت وہ تیرتھ رام فیروز پوری کے ناول ’چڑیا کی تکی‘ کے صفحہ 103 پر ہے اور نہیں چاہتا کہ کوئی اس کے رنگ میں بھنگ ڈالے۔ تاہم دو بار کی یاد دہانی کے بعد وہ مسمی بختاور علی کو اذن باریابی دیتا ہے۔

”فرمائیے۔ جناب۔ میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ “

جب مینجر اور بختاور علی چوسر کھیل رہے ہوتے ہیں تو باہم تو تڑاق سے بات کرتے ہیں۔ دونوں میں خاصی بے تکلفی ہے لیکن یہ بینک ہے اور آج بختاور علی صاحب سائل بن کر آئے ہیں۔

ممیا کر کہتے ہیں۔
”جی مینجر صاحب۔ میں ذرا قرضے کے لئے آیا تھا۔ آپ سے پرسوں ذکر کیا تھا نا بس پانچ ہزار روپے چاہئیں۔ یہ کسان لوگ فصل پر ادائیگی کرتے ہیں۔ اس وقت میں بھی ادا کر دوں گا۔“

”ہوں۔ آپ کو معلوم ہے کہ یہ زمانہ عالمی کساد بازاری کا ہے۔ ہمارے ہیڈ آفس نے قرضے دینے پر پابندیاں لگادی ہیں۔ افراط زر کا معیشت پر برا اثر پڑ رہا ہے اور اس کے علاوہ آپ کے ذمے بینک کے دو ہزار تین سو ستائیس رویے پہلے بھی نکلتے ہیں۔ “

” جی ہاں جی ہاں۔ وہ بھی ادا ہو جائیں گے، بس اسی فصل پر۔“
اس کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہو جا تا ہے۔ آپ کی دکان کی روزانہ بکری کی اوسط کیا ہے؟ دکان میں کتنا مال ہو گا؟ کتنے منشی ملازم ہیں؟ آپ کا عقیدہ کیا ہے آپ روز جزا پر ایمان رکھتے ہیں؟ اور آخر کار جب مینجر صاحب قرضہ دینے پر راضی ہو جاتے ہیں تو طرح طرح کی شرطیں عائد کرتے ہیں۔

یہاں سات جگہ دستخط کیجئے۔ آپ کے والد صاحب زندہ ہیں؟ ان کے بھی تین جگہ دستخط کرائیے۔ آپ کے کوئی بھائی ہیں؟ ان کا انگوٹھا بھی لگنا چاہیے۔ ”

” جی اچھا لگا دوں گا۔“
”اپنی بیوی کے زیورات بھی ضمانت میں جمع کرائیے۔“
”جی اچھا“
” اور اپنے ہمسایوں سے بھی نیک چلنی کا سرٹیفیکٹ لائے۔“
”منظور۔ لا دوں گا۔“
پانچ ہزار روپے کے قرضے کی اس دستاویز پر اتنے دستخط ہوتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے چارٹر پر بھی نہ ہوں گے۔ تب نظر آتی ہے اک مصرع تر کی صورت۔

قرضہ نمبر 3

سیٹھ منجی بھائی پیڑھی بھائی روپے پیسے والے مل مالکان بینک سے پچاس لاکھ روپے کا قرضہ لیتے ہیں۔

بڑے بینک کا بڑا دفتر۔ شان دار ڈرائنگ روم۔ جنرل مینجر دروازے پر آ کر سیٹھ منجی بھائی پیڑھی بھائی کا استقبال کرتا ہے۔
”آئیے حضور۔ تشریف رکھیے۔ ہمارے مینیجنگ ڈائریکٹر نے بتایا تھا کہ آپ تشریف لا رہے ہیں۔ یہ ادھر بڑے صوفے پر تشریف رکھیے۔ یہ زیادہ آرام دہ ہے۔ ہاں فرمائیے۔ “
”لون چاہیے۔ فی الحال پچاس لاکھ روپے آج ہی۔“
”جی ہاں مینیجنگ ڈائریکٹر نے فرمایا تھا کہ آپ ہمیں بی شرف بخشیں گے۔ آپ کی بڑی عنایت ہے۔ ورنہ تو آپ کسی اور بینک سے بھی یہ قرض لے سکتے تھے۔ “
”خیر“
” اور پچاس لاکھ کافی رہیں گے کیا؟ پھر سوچ لیجیے۔ میری ناقص رائے میں تو ستر لاکھ، اسی لاکھ زیادہ مناسب رہتے۔“
” نہیں۔ فی الحال پچاس لاکھ روپے کافی ہیں۔ ضرورت پڑی تو پھر سہی۔“
”جو آپ فرمائیں۔“

”کسی قسم کی سکیورٹی کی ضرورت ہے کیا؟ ضمانت وغیرہ۔“
”جی نہیں۔ سیٹھ صاحب۔ آپ کیا بات کرتے ہیں۔ آپ ہی کا بینک ہے۔“
”کوئی کاغذات وغیرہ پر دستخط کرانے ہوں تو دو۔“
”جی نہیں۔ اس تکلف کی بھی ضرورت نہیں۔ آپ کے مینجر سے جا کر دستخط کرالیں گے۔ “

”اچھا۔ شکریہ۔ تو پھر میں جاؤں۔“
”جی وہ ہمارے مینیجنگ ڈائریکٹر کا حکم تھا کہ آپ کو شہر کی سیر کرائی جائے۔ کار باہر تیار کھڑی ہے اور اگر آپ کلب میں ہمارے ڈنر کو شرف قبولیت بخش سکیں تو۔“
”بس۔ شکریہ۔ مجھے جانے کی جلدی ہے۔ اپنے مینیجنگ ڈائریکٹر کا بھی شکر یہ ادا کر دیجیے گا“ ۔

اور یوں پچاس لاکھ رو پید ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کو منتقل ہو جا تا ہے۔ بلا کسی جھجک کے۔ پریشانی کے۔ لیکن ابھی ایک مثال اور ہے۔ اس سے بھی آگے کی۔

قرضہ نمبر 4

قرضہ لینا جمہوریہ پنگ کانگ کا امریکہ سے بہ قدر پچاس کروڑ ڈالر۔

نیو یارک ٹائمز سے اقتباس۔ واشنگٹن۔ 8 مئی۔ آج جمہور یہ پنگ کانگ کے صدر موسیو کنگ کانگ اور ان کی بیگم سرکاری دورے پر وارد امریکا ہوئیں۔ ہوائی اڈے پر ان کا شاندار استقبال ہوا۔ معلوم ہوا ہے موسیو کنگ کا تک امریکا سے چھین کروڑ ڈالر کا قرضہ لینے آئے ہیں۔

واشنگٹن۔ 9 مئی۔ آج ورلڈ بینک نے جمہوریہ پنگ کانگ کے صدر موسیو کنگ کانگ کے اعزاز میں عشائیہ دیا جس میں جملہ عمائد سلطنت شریک ہوئے۔ معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ امریکا جمہوریہ پنگ کانگ کو جہاں باغیوں اور کمیونسٹوں کا خطرہ خارج از امکان نہیں، تین کروڑ ڈالر کا قرضہ دے گا۔ بیگم کنگ کانگ اس دعوت میں زرد رنگ کا شلوکہ پہنے ہوئے تھیں۔

واشنگٹن۔ 10 مئی۔ آج جمہور یہ پنگ کانگ کے صدر موسیو کنگ کانگ نے صدر امریکا سے ملاقات کی۔ معلوم ہوا صدر امریکا نے جمہور یہ پنگ کانگ کو بچپن کروڑ روپے کے قرضے کی پیش کش کی ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ جمہوریہ پنگ کانگ افریقہ میں آزاد دنیا کا ستون ثابت ہوگی۔

واشنگٹن۔ 11 مئی۔ آج جمہور یہ پنگ کانگ کے صدر موسیو کنگ کانگ اپنے وطن واپس روانہ ہو گئے۔ وہ امریکہ سے چھین کروڑ روپے کا قرضہ لے کر گئے ہیں۔ اس تقریب میں امریکی وزیر خارجہ نے ایک بڑا ڈنر دیا۔ بیگم کنگ کانگ زمرد کے بندے پہنے ہوئے تھیں۔

اب ان قرضوں کا کیا ہوا یہ بھی سنیے۔ میاں مسکین نے چالیس روپے تنخواہ ملنے پر دیے اور منت سماجت کر کے مہلت لی۔ چالیس روپے اگلے ماہ اور بیسں روپے اس سے اگلے ماہ۔ مسمی بختاور علی کریانہ مرچنٹ نے فصل آتے ہی قصبے کے بینک کا قرضہ چکا دیا۔ اور مینجر بینک ہذا پھر ان سے اس بے تکلفی سے تو تڑاق کر نے لگا۔ سیٹھ منجی بھائی پیڑھی بھائی کی کچھ صنعتیں حکومت نے نیشنلائز کر لیں۔ کچھ کا اس نے خود دیوالیہ نکال دیا۔ گویا آں دفتر را گاؤ خورد۔

جمہوریہ پنگ کانگ میں مہینے بھر بعد انقلاب آ گیا اور نئی حکومت نے سامراجی ملکوں کے قرضے ادا کرنے سے صاف انکار کر دیا اور ان پر استحصال کا الزام لگایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments