ترکی کے نوبل انعام یافتہ ناول نگار اورحان پاموک کے ناول ’‘ خانہ معصومیت ”کا ایک جائزہ


 

نوبل انعام یافتہ ترک ناول نگار اورہان پاموک ؔ کا زیر نظر ناول ’‘ خانہ معصومیت ”ان کے 2008 ء میں شائع شدہ ناول The Museum of Innocence کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ ناول اورحان نے نوبل انعام جیتنے کے بعد لکھا۔ محبت کی یہ داستان ’‘ خانہ معصومیت“ داستانوی، حسین اور فسوں خیز شہر استنبول کے پس منظر میں بیان کی گئی ہے۔ اس ناول کی کہانی 1975 ء اور 1984 ءکے پرانے استنبول میں ترتیب دی گئی ہے۔ یہ محبت کی کہانی تو ہے ہی لیکن یہ کچھ روایتی اور کچھ مغربی ؛پرانے استنبول کی سماجی اور ثقافتی تصویر بھی ہے جسے اس ناول کے ذریعے محفوظ بنا دیا گیا ہے۔

یہ ناول استنبول کے ایک امیر کاروباری شخص کمال بے ؔ اور اس کی ایک غریب رشتہ دار فسونؔ جو کہ ایک سٹور پر سیلز گرل کا کام کرتی ہے، کے درمیان جنون خیز محبت کی کہانی کا بیان ہے۔ فسون کے اچانک بچھڑ جانے کے برسوں بعد وہ فسون کے گھر کو ایک عجائب گھر میں تبدیل کر دیتا ہے اور یہ عجائب گھر فزیکلی استنبول کے ایک پرانے محلے میں بنایا گیا ہے جس کا ذکر ناول کے آخری باب میں موجود ہے۔ 83 ابواب پر مشتمل یہ ناول بہت زیادہ باریک بینی سے لکھا گیا ہے، یہ ناول جزیات نگاری کی انتہاء پر ہے اور یہ ایک پر کشش ناول ہے۔

ناول کا پلاٹ کچھ یوں ہے ابھی دو ماہ پہلے ہی کمال بے ؔ کا رشتہ ایک امیر اور خوب صورت لڑکی سبلؔ سے طے ہوا ہے۔ جب وہ اپنی منگیتر کے لیے ایک ہینڈ بیگ خریدنے کے لیے ایک مقامی سٹور پر جاتا ہے جہاں وہ اپنی ایک دور پار کی رشتہ دار فسونؔ سے ملتا ہے۔ اگلے ڈیڑھ ماہ ان کے درمیان شدید جسمانی اور جذباتی تعلق قائم رہتا ہے۔ وہ مسلسل 44 دن ایک فلیٹ پر ملتے ہیں۔ کمال کی زندگی کا سب سے خوشگوار لمحہ وصل کے دوران اس وقت آتا ہے جب فسون اس کے ساتھ گہری محبت کا اعتراف کرتی ہے۔

اگرچہ یہ واضح ہے کہ وہ مکمل طور پر فسون کی محبت میں مبتلا ہے لیکن کمال بے اسے شعوری طور پر ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کا اس بات پر یقین ہے کہ وہ سبل کے ساتھ شادی اور فسون کے ساتھ خفیہ تعلقات ہمیشہ قائم رکھ سکتا ہے۔ یہ نظریہ سب سے بڑی غلط فہمی ثابت ہوتا ہے، جب کمال بے کی منگنی کی تقریب جس کا اہتمام استنبول کے ایک بڑے ہوٹل میں کیا جاتے ہے کے بعد ، فسون گھر چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔

اب یہ وہ وقت تھا جب اس نے فسون کے ساتھ اپنی گہری وابستگی اور محبت کو قبول کرنا تھا یا پھر رد کرنا تھا۔ وہ تقریباً ایک سال تک انتہائی تکلیف کے دور سے گزرتا ہے۔ اس تمام عرصے میں وہ فسون سے ملنے سے قاصر رہتا ہے اور اس تمام عرصے کے دوران وہ اپنی محبوبہ اور اس سے متعلق چیزوں کو دیکھ دیکھ کر تسلی اور تشفی حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے۔ اس نے فسون کی کچھ چیزیں جمع کر رکھی ہیں جیسے وصل کے دوران اتارا گیا ایک جھمکا جسے وہ سنبھال کر رکھتا ہے اور اسی طرح اور بہت سی چیزیں جو اس نے چھپا کر رکھی ہوئی ہیں۔

آخر کار اس کی سبل سے منگنی ٹوٹ جاتی ہے اور فسون سے بذریعہ خط رابطہ ہو جاتا ہے اور وہ ملنے پر راضی ہو جاتی ہے۔ اس وقت تک شدید غصے کے باعث فسون شادی کر چکی ہے اور اب وہ اپنے شوہر کے ساتھ اپنے والدین کے پاس رہنے کے لیے واپس آ جاتی ہے جہاں وہ اسے ایک دور کے رشتہ دار کے طور پر ملتی ہے۔ اگلے آٹھ سال تک کمال بے فسون کے خاندان کے ساتھ رات کا کھانا کھانے آتا رہتا ہے اور اس دوران وہ مختلف طریقوں سے اس کے ساتھ محبت کا اظہار بھی کرتا رہتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہ فسون سے متعلق چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بھی آنکھ بچا کر اچک لیتا ہے اور یوں انہیں ایک جگہ پر اکٹھا کرتا رہتا ہے۔

آٹھ سال کی ان ملاقاتوں کے بعد ایک دن اچانک فسون کے والد کی وفات ہو جاتی ہے جس کے بعد فسون اپنے شوہر سے طلاق لے لیتی ہے۔ کمال بے اس سے شادی کی بات کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ فرانس کے ٹوور کے بعد وہ شادی کے بندھن میں منسلک ہو جائیں گے۔ کمال بے، فسون، فسون کی والدہ اور ایک دوست کے ہمراہ فرانس جانے کے لئے گھر سے نکل پڑتے ہیں۔ راستے کے ایک پڑاؤ میں ایک شدید قسم کی محبت اور شدت سے بھرپور وصل کے بعد اچانک فسون ہمیشہ کے لیے کمال بے سے دور چلی جاتی ہے۔ جس کا کمال بے بہت غم مناتا ہے۔

کمال بے ان نو سالوں کے گزرنے میں خوشی اور مسرت کے کچھ مجرد لمحوں کی تصویر کشی کے طور پر برسوں کے دوران جمع کیے گئے فسون اور اس کے متعلق جمع کی گئی چیزوں کو دیکھ دیکھ کر اپنے غم کو غلط کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اور یوں کمال بے فسون کے گھر کو ایک میوزیم میں تبدیل کرنے کا کام شروع کرتا ہے اور یوں خانہ معصومیت وجود پذیر ہوتا ہے جس میں وہ تمام اشیاء جو فسون کے متعلق تھیں اور اس دور کی دیگر اشیاء شامل کی جاتی ہیں اور اس سے پہلے وہ دنیا بھر میں ہزاروں عجائب گھروں کا معائنہ کرتا ہے اور ان عجائب گھروں کو بنانے کی وجہ دریافت کرتا ہے اور وہ بتاتا ہے کہ بہت سارے لوگ خاص طرح کی چیزوں کو جمع کرنے کے خبط میں مبتلا ہو جاتے ہیں حتی کے ان کے گھروں میں رہنے کے لیے جگہ موجود نہیں رہتی لوگ ان کے اس خبطی پن کو اچھا نہیں سمجھتے لیکن وہ اپنی دنیا میں مگن اپنے کام میں مشغول رہتے ہیں۔

اور اس طرح اورحان شرمندہ ہوئے بغیر یہ میوزیم بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور یہ میوزیم اب استنبول کے ایک پرانے محلے میں فزیکلی موجود ہے۔ اس میوزیم کا باقاعدہ افتتاح 2012 ء میں کیا گیا۔ اس میوزیم کو دیکھنے کے لیے ناول کے اصل ایڈیشن کے 83 ویں باب میں ایک ٹکٹ بھی موجود ہے جسے دکھا کر آپ میوزیم کو وزٹ کر سکتے ہیں۔ آپ اس کو الگ سے ٹکٹ خرید کر بھی وزٹ کر سکتے ہیں۔

خانہ معصومیت رومانوی جنون اور ثقافتی رویوں کو بدلنے کی ایک دلکش کہانی ہے یہ اورحان پاموک کا ساتواں ناول ہے جسے اورحان کو لکھنے میں کم و بیش آٹھ سال لگے۔ اس ناول کا اردو ترجمہ محترمہ ہما انور صاحبہ نے کیا ہے اور اسے جمہوری پبلیکیشنز نے خوب صورت گیٹ اپ میں چھاپا ہے۔ یہ ایک معیاری اور رواں ترجمہ ہے اور یوں اردو تراجم میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ ایک پاور فل ناول ہونے کے ناتے میں احباب کو اسے پڑھنے کی ترغیب دوں گا۔ اہل ذوق کے لیے یہ ایک قیمتی تحفہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments