انڈیا کس طرح 'مشروم سپر پاور' بن سکتا ہے؟

پریتی گپتا اور بین مورس - ممبئی


تین سال پہلے انڈیا کی ریاست مغربی بنگال میں سلی گوڑی کے قریب رہنے والی فلریڈا ایکا کو یہ فکر لاحق تھی کہ انھیں کسی نہ کسی طرح آمدن کا نیا ذریعہ تلاش کرنا ہوگا۔

ان کے شوہر کی موت ہو چکی تھی ان کا چائے کی پتی چننے کا موسمی کام ان کے خاندان کی کفالت کے لیے کافی نہیں تھا۔

پیسہ کمانے کے لیے وہ دن رات نئے نئے خیالات کو بنتی رہتیں۔ یہاں تک کہ مشروم کی کاشت کے بارے میں انھیں معلوم ہوا۔ انڈیا میں دیہی ترقی کی تنظیم ‘لیو لائف ہیپیلی’ کی مدد سے انھوں نے اس کی شروعات کی۔

اب وہ ہر روز اپنی مشروم کی فصل کے دو سے تین تھیلے بیچ لیتی ہیں، جس سے انھیں ماہانہ تقریباً 92 ڈالر یعنی سات ہزار انڈین روپے سے زیادہ کی آمدن ہو جاتی ہے۔

سفید پھول والے مشروم بڑے تھیلوں میں اُگائے جاتے ہیں جو چھت سے لٹکتے رہتے ہیں۔ عام طور پر مسز ایکا کے گھر میں بیگوں یا تھیلوں کی دس لڑیا لٹکی ہوتی ہیں، جو ایک ماہ میں تقریباً 48 تھیلے مشروم تیار کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں: ’جب میں اسے بڑھتے ہوئے دیکھتی ہوں تو بہت خوشی ہوتی ہے کیونکہ میں جانتی ہوں کہ اب میں اور میرا خاندان خالی پیٹ نہیں سوئیں گے۔‘

مشروم کی افزائش نے مسز ایکا کی زندگی میں بڑا فرق پیدا کیا ہے، لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس فصل کو انڈیا کے کاشتکاری کے شعبے میں بڑا حصہ ڈالنا چاہیے۔

رؤف حمزہ بوڈا نے جموں و کشمیر میں مشروم کی تقریباً 100 اقسام کی شناخت کرنے میں 20 سال گزارے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘انڈیا کے پاس مشروم کی پیداوار میں سپر پاور بننے کے لیے تمام ضروری عناصر موجود ہیں۔’

وہ وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘انڈیا میں جنگلی کھمبیوں کا بہت متنوع ذخیرہ ہے۔ کھاد بنانے کا بہت سا مواد ہے جبکہ سستی مزدوری ہے اور [یہ] متنوع موسمی حالات مین اگ سکتا ہے۔’

رغبت کی کمی؟

ان سازگار حالات کے باوجود انڈیا دنیا کی مشروم کی پیداوار کا صرف 2 فیصد حصہ پیدا کرتا ہے جبکہ چین 75 فیصد حصہ فراہم کرتا ہے۔

مسٹر بوڈا کا کہنا کہ کہ اس ضمن میں انڈیا میں جو مسئلہ ہے وہ قومی بھوک یا چاہت کا مسئلہ ہے۔ انڈیا میں بہت سے لوگ مشروم کھانا پسند نہیں کرتے، انھیں یہ ‘عجیب اور جان لیوا’ لگتا ہے۔

وہ کہتے ہیں: ‘خوراک کے حوالے سے جنگلی کھمبیوں کی شناخت پر زیادہ تحقیق نہیں کی گئی ہے۔‘

‘مشروم کے فائدہ مند ہونے کے بارے میں آگاہی کا فقدان اور مشروم کی کاشت کا سستا ہونا، اس کی کھپت کو مقبول بنانے میں رکاوٹیں ہیں۔’

لہذا خواہشمند کاروباری افراد کے لیے اس شعبے میں قسمت آزمائی کے لیے کافی جگہ موجود ہے۔

چار سال پہلے، لینا تھامس اور ان کے بیٹے جیتھو نے بیڈروم میں مشروم اگانے کا تجربہ کیا۔

جیتھو نے کہا کہ انھوں نے جب انٹرنیٹ پر کھمبیوں کو محض پلاسٹک کی بوتل میں اُگتے دیکھا تو از راہ ‘تجسس’ اس پروجیکٹ شروع کیا۔

ابتدائی کامیابی نے انھیں مشروم کی کاشت کا مطالعہ کرنے اور اس کے متعلق کورس کرنے کی ترغیب دی اور اس طرح ان کا شوق تیزی سے بڑھ کر بڑے منافع بخش کاروبار میں بدل گیا۔

اب کیرالہ میں مقیم ماں اور بیٹے کے پاس مشروم کی 2,000 کیاریاں ہیں جہاں سے روزانہ انھیں 100 کلو مشروم ملتے ہیں۔ وہ اپنے مشروم کو ’لیناز مشروم‘ کے نام سے فروخت کرتے ہیں اور اسی نام سے ان کی مشروم کی کمپنی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا: ’ہم کئی برسوں سے مشروم توڑ کر کھا رہے ہیں، ہمیں کیسے پتہ چلتا کہ وہ زہریلے تھے؟‘

‘سبز سونا’: چرس کی گِرتی قیمتیں اور اجازت ناموں کے منتظر بھنگ کے پاکستانی کاشتکار

وہ بتاتے ہیں: ‘کھمبی کی کاشت کے بہت سے فوائد ہیں جن میں اس کی مختصر نشوونما کی مدت بھی شامل ہے۔

‘لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ ایک آسان کام ہے۔ فصل نازک اور انتہائی حساس ہوتی ہے۔ درجہ حرارت میں ایک منٹ کی تبدیلی یا کیڑوں کی آمد فصل کو مکمل طور پر تباہ کر سکتی ہے۔’

کمپنی کے گرین ہاؤسز نم پیڈ پر باہر کی ہوا کھینچنے کے لیے پنکھے کا استعمال کرتے ہیں، تاکہ درجہ حرارت اور نمی کو زیادہ سے زیادہ سطح پر رکھا جا سکے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح کو بھی مانیٹر کیا جاتا ہے۔

لیکن یہ محنت قابل قدر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اچھی قیمتیں مشروم کو ‘منافع بخش’ بناتی ہیں۔

جیتھو کا کہنا ہے کہ ‘تازہ کتائی کی گئی کھمبیاں بغیر کسی درمیانی لنک کے ایک ہی دن خوردہ فروشوں کو بیچ دی جاتی ہیں۔’

پریمل رمیش اُدگاوے نے ایک مختلف انداز اختیار کیا ہے۔ انھوں نے فنگی کلچر کے بارے میں وسیع اور گہرے علم کے لیے مائیکرو بیالوجی کا مطالعہ کیا۔

مشروم اگانے کے ساتھ ساتھ سنہ 2019 میں قائم کی جانے والی ان کی کمپنی بایو برائٹ مشروم کے پاؤڈر اور صحت سے متعلق سپلیمنٹس بنانے کے لیے فصل کو خشک کرتی ہے۔

اپنی اس کامیابی کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ مشروم اُگانا آسان نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں: ‘لوگ مشروم کو ایک تیز رفتار، پیسہ کمانے کے کاروبار کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن اسے تکنیکی مہارتوں کے ساتھ جوڑنا بھی ضروری ہے۔’

مسٹر ادگاوے کے مطابق مشروم کے بہت سے سٹارٹ اپ کاروبار ناکام ہو جاتے ہیں۔

دوسری جانب آئی آئی ٹی کھڑگپور سے دیہی ترقی کے شعبے میں تحقیق کرنے والے انیربان نندی اور ان کی اہلیہ پولمی چاکی نندی کے خیال میں مشروم کے میدان میں چھوٹے کھلاڑیوں کے لیے کافی جگہ ہے۔

ان کی غیر سرکاری تنظیم لیو لائف ہیپیلی نے مغربی بنگال میں 8,000 سے زیادہ خواتین کو یہ راستہ دکھایا ہے، جن میں فلریڈا ایکا بھی شامل ہیں، کہ منافع کے لیے اپنے مشروم کیسے اگائے جائیں۔

مسٹر نندی کہتے ہیں: ’یہ خواتین غریب ہیں، جن کے پاس نہ کوئی زمین ہے اور نہ ہی روزی روٹی کا کوئی مناسب ذریعہ۔’

دیہی علاقوں میں بہت سی خواتین بیوہ ہونے کے بعد مالی پریشانیوں میں گھر جاتی ہیں اور وہ چـائے کی پتیان چننے کے کام سے کافی رقم کمانے سے قاصر رہتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں: ‘مشروم اگانا سیکھنا ایک قابل عمل اور قابل انتظام کام ہے۔ عورتیں اپنے گھر کے ایک کونے میں، پارٹ ٹائم سرگرمی، یا شوق کے طور پر، کھیت کے بغیر بھی اسے اگا سکتی ہیں۔’

نندی میاں بیوی کا کہنا ہے کہ مشروم کی گاہکوں میں کافی مانگ بھی ہے۔ مسٹر نندی بتاتے ہیں کہ ‘دارجلنگ جیسے شہری علاقوں میں اس کی خاص طور پر مانگ ہے اور اس کی وجہ سے یہ فوری آمدنی کو یقینی بناتا ہے۔’

مشروم سے ہونے والی یہ اضافی آمدن واقعی زندگی بدل سکتی ہے۔

مسز نندی کہتی ہیں: ‘ان خواتین نے اپنے گھر میں سودے بازی کی طاقت حاصل کر لی ہے اور فیصلہ ساز بن گئی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک عورت نے اپنی بیٹی کی کم عمری میں شادی کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ مشروم کی کاشت سے اس کی تعلیم کے لیے فنڈز کا انتظام کرنے کے قابل تھیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments