احساس پروگرام: سٹینفورڈ یونیورسٹی سے منسوب ورکنگ پیپر میں غربت مٹاؤ منصوبے کی تعریف مگر اس پر اعتراض کیوں؟

محمد صہیب - بی بی سی اردو ڈاٹ کام


احساس
پاکستان میں سیاسی ماحول جیسا بھی ہو، برسرِ اقتدار حکمراں عموماً خراب حالات کا بوجھ گذشتہ حکومت پر ڈالتے ہیں جبکہ اپوزیشن کی جماعت اپنے دور کی کامیابیوں کے گن گاتی ہے اور حکومت پر تنقید کرتی دکھائی دیتی ہے۔

تاہم ایک پروگرام جو کچھ ردوبدل کے ساتھ گذشتہ تین حکومتوں اور لگ بھگ 14 برس سے جاری ہے وہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے جس کا کردار تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے دورِ حکومت میں ‘احساس پروگرام’ کے نفاذ کی ایک ایجنسی کے طور پر تھا۔

اس وقت کی اپوزیشن یہ دعویٰ کرتی تھی کہ احساس پروگرام دراصل کوئی نیا پروگرام نہیں بلکہ بینظیرم انکم سپورٹ پروگرام کے نام میں تبدیلی ہے، جس کی پی ٹی آئی کی جانب سے تردید کی جاتی رہی ہے۔

سٹینفورڈ یونیورسٹی کے ایک ذیلی ادارے نے احساس پروگرام پر ایک ورکنگ پیپر شائع کیا ہے جسے گذشتہ دنوں پی ٹی آئی دور میں احساس پروگرام کی سابق چیئرپرسن ڈاکٹر ثانیہ نشتر اور پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ کی جانب سے شیئر کیا گیا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ احساس پروگرام کی کامیابی کو سٹینفورڈ یونیورسٹی نے بھی مان لیا ہے۔

اس پروگرام کو سنہ 2020 میں کووڈ 19 کے دوران غربت میں گھرے افراد تک کیش امداد فراہم کرنے کے باعث بین الاقوامی اداروں سے پذیرائی ملی تھی اور اسے تجزیہ کاروں کی جانب سے پی ٹی آئی دور کی کامیابیوں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔

تاہم اس ورکنگ پیپر کے حوالے سے متعدد دعوے کیے جا چکے ہیں اور اس کی حیثیت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جن کے حوالے سے ہم نے احساس پروگرام کی سابق چیئرپرسن ڈاکٹر ثانیہ نشتر سے بات کی ہے۔

ورکنگ پیپر کس نے لکھا اور اس میں کیا بتایا گیا؟

یہ ورکنگ پیپر دراصل یونیورسٹی کے فریمین سپوگلی انسٹی ٹیوٹ (ایف ایس آئی) کی جانب سے شائع کیا گیا ہے تاہم اس کے مصنفین کنسلٹنسی فرم ڈیلیوری ایسوسی ایٹسس سے منسلک ہیں۔

اس ورکنگ پیپر کے مصنفین میں اس فرم کے بانی اور چیئرمین سر مائیکل باربر اور فرم سے منسلک مقیط شہزاد شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس کی تصنیف میں رائے شہزاد خان اور سید علی شہریار نے معاونت فراہم کی ہے اور یہ بھی ڈیلوری ایسوسی ایٹس کے ساتھ منسلک ہیں۔

اس لیے یہ کہنا درست ہو گا کہ اس ورکنگ پیپر کو شائع تو سٹینفورڈ نے کیا لیکن دراصل یہ ڈیلیوری ایسوسی ایٹس کی ہی تصنیف ہے۔

اس ورکنگ پیپر میں بتایا گیا ہے کہ 2018 سے (تحریک انصاف کے دور میں) حکومتِ پاکستان کی طرف سے شروع کیے گئے احساس پروگرام نے غربت کے خاتمے کے عالمی پروگرامز میں اپنا نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ اس کے نتائج کے مطابق ’اصلاحات سے احساس (پروگرام) بڑے پیمانے پر اثر انداز ہوسکا، اس کی شفافیت بڑھی اور تبدیلیوں سے کارکردگی میں اضافہ ہوا جبکہ اس سے فائدہ اٹھانے والوں اور پروگرام کی انتظامیہ کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم ہوا۔‘

اس مقالے میں کہا گیا ہے کہ مضبوط اداروں، ڈیٹا اور ٹیکنالوجی کا استعمال اور غربت کے خاتمے کے لیے وسیع شمولیت کی حکمت عملی جیسے اجزا نے احساس پروگرام کو کامیاب بنایا اور یہ بھی لکھا گیا کہ ’عمران خان کی قیادت نے احساس پروگرام کے بلند و بالا سکوپ کی حمایت میں اہم کردار ادا کیا۔‘

خیال رہے کہ ورکنگ پیپر سے مراد ایسا ابتدائی مقالہ ہے جسے پیئر ریویو نہیں کیا گیا، یعنی متعلقہ ماہرین نے اس پر باقاعدہ نظرثانی نہیں کی اور نہ ہی اسے متعلقہ موضوع کے جریدے میں شائع کیا گیا ہے جس سے اس کے مستند ہونے پر سوال اٹھایا جاسکتا ہے۔

ورکنگ پیپر کسی نئی تحقیق کے بارے میں جاننے کے لیے مؤثر ذریعہ ہوتے ہیں تاہم ساکھ میں کمی کے باعث کسی دوسری تحقیق میں اس کا حوالہ کم ہی دیا جاتا ہے۔

کیا ڈیلیوری ایسوسی ایٹس نے احساس پروگرام کے لیے کنسلٹنسی فراہم کی؟

سوشل میڈیا پر یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ ڈیلیوری ایسوسی ایٹس نے احساس پروگرام کے لیے کنسلٹنسی فراہم کی ہے، اس لیے اس ورکنگ پیپر کی اہمیت ماند پڑ جاتی ہے۔

یہ دعویٰ کچھ حد تک تو درست ہے۔ ڈیلیوری ایسوسی ایٹس کی ویب سائٹ پر ان کی جانب سے اداروں کو فراہم کی جانے والی کنسلٹنسی کی فہرست موجود ہے جس میں احساس پروگرام کا نام بھی درج ہے۔

اس میں حکومتِ پاکستان واضح طور پر شراکت دار کے طور پر درج ہے اور اس کا مقصد اس سوال کا جواب فراہم کرنا تھا کہ کسی بحران کے دوران سب سے کمزور طبقے کو کس طرح محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔

تاہم ڈاکٹر ثانیہ نشتر سے جب اس دعوے کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ڈیلیوری ایسوسی ایٹس کو حکومتِ پاکستان نے فنڈ نہیں دیے بلکہ ان کی فنڈنگ بل اور ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی جانب سے کی گئی تھی تاکہ احساس پروگرام کا آزادانہ جائزہ لیا جا سکے اور احساس ڈیلیوری یونٹ کی بنیاد رکھنے کے لیے تکنیکی معاونت دی جا سکے۔‘

انھوں نے کہا کہ اس لیے ’یہ جائزہ مکمل طور پر آزادانہ ہے۔‘

خیال رہے کہ بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی جانب سے ستمبر 2019 میں احساس پروگرام کے ساتھ ایک ایم او یو پر دستخط کیے گئے تھے جس کے تحت فاؤنڈیشن نے پاکستان میں سنہ 2020 میں 20 کروڑ ڈالر خرچ کرنا تھے۔

احساس

کیا اس ورکنگ پیپر کے پاکستانی مصنف پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ منسلک رہے ہیں؟

اس حوالے سے ایک دعویٰ یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ اس رپورٹ کے پاکستانی مصنف یعنی مقیط شہزاد پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔

تاہم ڈاکٹر ثانیہ نشتر اس دعوے کی تردید کرتی ہیں۔ ان کے مطابق ‘مقیط شہزاد نے وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف کے سپیشل مانیٹرنگ یونٹ کے ساتھ سنہ 2015-2018 کے دوران کام کیا اور وہ پی ٹی آئی حکومت سے منسلک نہیں رہے۔’

مقیط شہزاد کے لنکڈ اِن اکاؤنٹ سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔

اس ورکنگ پیپر کی اہمیت کیا ہے؟

سنہ 2019 میں اراسمس یونیورسٹی کے انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف سوشل سٹڈڈیز سے پی ایچ ڈیی کرنے والے ڈاکٹر محمد سلیم کی تحقیق بینظیر انکم سپورٹ پروگرام پر تھی۔ ان کی تحقیق کا موضوع ’اویلیوئیٹنگ اینڈ ٹارگیٹنگ پرفارمنس آف دی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ان پاکستان‘ تھا، یعنی انھوں نے اس وقت کے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا مکمل جائزہ لیا تھا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ایک پیپر کی ’اکیڈیمک ویلیو‘ تب ہوتی ہے جب یہ مخصوص مراحل سے گزرا ہو، اس کے پیئر ریویو ہوئے ہوں، تاہم اس ورکنگ پیپر (جو احساس پروگرام پر لکھا گیا) کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔‘

احساس

’دوسرا اگر آپ کسی پروگرام کی امپیکٹ اویلیوئیشن (یعنی جائزہ) بھی لیتے ہیں تو رگورس امپیکٹ ایوولیوئیشن کی جاتی ہے جس کے اپنے مراحل ہوتے ہیں۔ تاہم اس ورکنگ پیپر کو یہ بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ ان کی اپنی رائے ہے، اور یہ تحقیق کے پیچیدہ مراحل سے نہیں گزرا۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’اس ورکنگ پیپر کی اہمیت سے قطع نظر یہ ایک کامیاب پروگرام ہے جسے پاکستان پیپلز پارٹی سے لے کر پاکستان تحریکِ انصاف تک تمام جماعتوں کی جانب سے آگے بڑھایا گیا ہے اور وسیع کیا گیا، جو خوش آئند ہے۔‘

محمد سلیم کا کہنا تھا کہ ’پاکستان تحریکِ انصاف کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے اس پروگرام کو ایک ڈویژن کی چھتری فراہم کر دی اور اب یہ وزارتِ تخفیفِ غربت و سماجی تحفظ تلے کام کر رہا ہے۔‘

اس کے علاوہ کووڈ 19 کے دوران لوگوں میں کیش تقسیم کرنے کے پروگرام کو خاصی پذیرائی ملی تھی جس کا ذکر ورلڈ بینک کی جانب سے ایک تحقیق میں کیا گیا ہے۔

اسی طرح انٹرنیشنل پالیسی سینٹر فار انکلوسو گروتھ کی ایک رپورٹ (What’s next for social protection in light of COVID-19: country responses) میں بھی احساس پروگرام کا کووڈ 19 کے دوران غریب عوام کو فراہم کردہ ریلیف کا ذکر کیا گیا ہے۔

احساس

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام متنازع کیوں ہوا؟

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام دراصل پاکستان پیپلز پارٹی کے منشور میں شامل تھا اور اس کا آغاز جولائی 2008 میں کیا گیا تھا جبکہ سنہ 2010 میں ایک ایکٹ کی صورت میں اسے پارلیمان میں متعارف کروایا گیا تھا۔

آغاز میں 34 ارب روپے سے شروع ہونے والا منصوبہ آہستہ آہستہ مالی اور جغرافیائی حجم میں وسیع ہوتا چلا گیا۔ اس سال کے بجٹ کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 364 ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں جو گذشتہ مالی سال میں مختص کی گئی رقم میں 114 ارب روپے کا اضافہ ہے۔

جب پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تو انھوں نے کوشش کی کہ اس کا نام تبدیل کر کے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے نیشنل انکم سپورٹ پروگرام رکھا جائے۔ تاہم کیونکہ ایسا کرنے کے لیے کچھ آئینی مسائل درپیش تھے اور اس پر پیپلز پارٹی کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا تھا، اس لیے ایسا کرنے سے اجتناب کیا گیا۔

محمد سلیم کے مطابق جب پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت آئی تو اس کا نام باضابطہ طور پر تو تبدیل نہیں ہوا لیکن اسے ’غیر رسمی طور پر تبدیل کر کے احساس پروگرام رکھ دیا گیا، جس میں مزید منصوبے بھی شامل کیے گئے۔‘

یہ بھی پڑھیے

امداد کے لیے فنگر پرنٹ ضروری مگر انگلیوں کے نشان ہی مٹ چکے ہوں تو کہاں جائیں؟

دو ہزار روپے کی سبسڈی: ’امیر طبقے سے زیادہ ٹیکس لینا ہو گا ورنہ یہ رعایت ختم کرنا پڑے گی‘

وزرا کی قابلیت زیر بحث: کیا وزارت چلانے کے لیے متعلقہ ڈگری ضروری ہے؟

پنجاب کے ’پڑھے لکھے چور‘ فنگر پرنٹس کیوں چرا رہے تھے؟

ڈاکٹر ثانیہ نشتر اس بات سے اختلاف کرتی ہیں اور وہ کہتی ہیں ’بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اپنی جگہ موجود رہا اور یہ احساس پروگرام کی امپلیمینٹنگ (نفاذ کرنے والی) ایجنسی کے طور پر کام کرتا رہا۔‘

اس ضمن میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی موجودہ چیئرمین شازیہ مری سے رابطہ کرنے کی بارہا کوشش کی گئی، لیکن اس رابطہ نہیں ہو پایا۔ تاہم حکومتی جماعتوں کے بعض رہنماؤں نے دعویٰ کیا ہے کہ اس تحقیق کا سٹینفورڈ سے کوئی تعلق نہیں اور اس کا فرانزک آڈٹ ہونا چاہیے۔

محمد سلیم کا مزید کہنا تھا کہ کیونکہ اس پروگرام کو تسلسل کے ساتھ گذشتہ 14 برسوں سے چلایا گیا ہے، اس لیے اب یہ مضبوط ہو چکا ہے اور کسی بھی حکومت کے لیے اسے ختم کرنا مشکل ہوگا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس پروگرام کا ڈیٹا بیس اسے مضبوط بناتا ہے۔ اسی ڈیٹا بیس کی وجہ سے ہی حکومتِ پاکستان کو کووڈ 19 کے دوران غریب افراد تک ریلیف پہنچانے میں (زیادہ) مشکل پیش نہیں آئی تھی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32555 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments