ابتلا یا فضل


ایک روز میں اپنے گھر کے لان میں بیٹھا ہوا حسین موسم اور ساتھ میں گرما گرم چائے سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اچانک میرے نزدیک پڑے ہوئے فون پر موسم کی تبدیلی کے انتباہ کی خبر موصول ہوئی جس میں انہوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ جس علاقے میں، میں بیٹھا ہوا ہوں وہاں شدید تیز بارش اور ژالہ باری دس منٹ کے اندر شروع ہونے والی ہے اور پھر پانچ منٹ کے بعد وہ اگلے علاقے میں چلی جائے گی اور پھر اگلے علاقے میں اور یہ سلسلہ 25 منٹ تک جاری رہے گا اور اس کے بعد یہ طوفانی موسم ختم ہو جائے گا۔ اس لیے لوگ اس طوفانی موسم سے بچنے کے لئے اپنے گھروں کے اندر پناہ لے لیں۔

ٹھیک دس منٹ کے بعد جیسا کہ محکمہ موسمیات کے ماہرین نے بتایا تھا اسی طرح شدید تیز بارش ژالہ باری کے ساتھ شروع ہوگی اور آگے بھی نکل گئی۔ اس بات نے مجھ کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا یہ موسم کی خبر بتانے والے علم غیب جانتے ہیں اور کیا خدا بنے بیٹھے ہیں کہ آنے والے وقت اور دنوں کے حالات بتا سکتے ہیں؟ لیکن اس کا جواب تو ہر انسان خود ہی دے سکتا ہے کہ ماہرین موسمیات اپنے حاصل کیے ہوئے علم اور قوانین قدرت کو نظر میں رکھتے ہوئے ہواؤں کا رخ دیکھ کر اور کتنا پانی فضا میں ہے اور کس طرف کی ہوائیں چل رہی ہیں اور کس طرف جا رہی ہیں اور کس رفتار سے چل رہی ہیں اور اس وقت درجہ حرارت کیا ہے یہ سب کچھ جان کر بتا سکتے ہیں کہ موسم کیسا ہو گا، بارش ہوگی کہ برفباری ہوگی کے سورج نکلے گا۔

اسی طرح قوانین قدرت کو مدنظر رکھتے ہوئے انسان بتا سکتا ہے کہ سورج ہر روز مشرق سے طلوع ہو گا اور مغرب میں غروب ہو گا اور ان کے طلوع و غروب کے اوقات کیا ہوں گے۔ اسی طرح ایک گاڑی کا مکینک گاڑی کو دیکھ کریا اس کی آواز سن کر اس کے ساتھ کیا مسئلہ ہے اور گاڑی کیوں ٹھیک نہیں چل رہی ہے بتا سکتا ہے گاڑی میں کیا خرابی ہے اپنے تجربے کی بنا پریا کوئی مشینی اوزار استعمال کرنے کی مدد سے۔ غرض کے زندگی کے ہر شعبے میں اپنے تجربے کی بنیاد پریا مشینوں کی مدد سے اور سیکھے اور حاصل کیے ہوئے علم سے بتایا جاسکتا ہے کہ کیسے یہ چیز کام کرتی ہے اور کیسے اس کے ساتھ ہونے والے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔

اسی طرح ڈاکٹر مریض کی نبض دیکھ کر یا اس کے دل کی آواز سن کر یا اس کا معائنہ کر کہ بتا سکتا ہے کہ مریض کو کیا مرض ‏ لاحق ہے اور اس مریض کو اس تکلیف سے شفا حاصل کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کبھی کسی انسان نے یہ نہیں کہا کہ تم خدائی کا دعوی کر رہے ہو، مگر یہ کیا وجہ ہے کہ جیسے ہی ڈاکٹر کسی دائمی بیماری یا قرب مرگ مریض کے لواحقین کو بتاتے ہیں کہ یہ مریض چند دنوں کا مہمان ہے اور اس کے بعد اللہ تعالی کو پیارا ہو جائے گا تو ہر کوئی حساس اور محتاط ہو جاتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ تم خدا نہیں ہو۔

اور زندگی اور موت صرف اور صرف خدا تعالی کے ہاتھ میں ہے۔ اور اگر اللہ چاہے تو اس مریض کو اور زندگی بھی دے سکتا ہے۔ یہ بات درست ہے مگر قوانین قدرت کو بھی ٹھکرایا نہیں جا سکتا اور قوانین قدرت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی انسان یہ دعوی کرتا ہے کہ ایسے ہو گا۔ یہ بات سچ ہے اگر خدا تعالیٰ چاہے تو سورج کو مغرب سے طلوع کر سکتا ہے اور مشرق میں غروب کر سکتا ہے مگر وہ ایسا کرتا نہیں ہے۔ اس لیے ہر انسان اعتماد سے یہ کہہ سکتا ہے کہ سورج مشرق سے ہی طلوع ہو گا اور مغرب میں غروب ہو گا۔

اسی طرح انسان بچپن میں کمزور ہوتا ہے پھر ایک مضبوطی اور جوانی پکڑتا ہے اور پھر بڑھاپے کی طرف چلا جاتا ہے جس میں اس کے اعضاء کمزور ہو جاتے ہیں۔ اب کوئی انسان یہ دعوی کرے کہ میں اس بوڑھے انسان کو جوان کر سکتا ہوں اس کو ایسی دوائی پلا کر تو لوگ اس کو بیوقوف ہی کہیں گے یا وہ خدا تعالیٰ کے حضور بھی دعا کرے جو قادر و توانا ہے کے اے اللہ تعالی تو اس بوڑھے کو پچیس برس کا نوجوان بنا دے تو خدا اس کی وہ دعا ہرگز قبول نہیں کرے گا گو وہ اس کی طاقت رکھتا ہے اور وہ کر سکتا ہے مگر اپنے بنائے ہوئے قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ یہاں مجھے میاں محمد بخش صاحب کا ایک پنجابی شعر یاد آ گیا وہ فرماتے ہیں

پچھلی عمرے وقت بڑھاپا تے جاگ پیاں سہ پیڑاں اتھے فر اثر نا کرن سونف اجوین تے ہڑیڑاں

یعنی بڑھاپے میں بہت سی دردیں ابھر آتی ہیں اور پھر اس وقت سونف اجوائن اور ہریڑ جیسی مفید غذائیں بھی کچھ نہیں کر سکتیں۔ بہت مشکل وقت ہوتا ہے جب آپ کا کوئی پیارا زندگی کے آخری لمحات گن رہا ہو اور آپ کو اسے حوصلہ دینا ہو۔ اگر ڈاکٹر اپنے مریض کے معائنے کے بعد جس کے تمام اعضاء کام کرنا بند کر گئے ہوں مثلاً جگر گردے وغیرہ جو اپنا صحیح کام کرنے کی بجائے زہر اگل رہے ہوں اور انسان کے جسم کے اندر زہریلا مواد پیدا کر رہے ہوں تو وہ انسان چند دنوں کے بعد ہی وفات پا جائے گا۔

اس میں خدائی کا کوئی دعویٰ نہیں ہے صرف علم کی بنیاد پر ایک دعوی کیا گیا ہے وہ پورا ہو کر رہے گا۔ ہاں اگر ڈاکٹر نے کہا تھا کہ مریض پانچ دن کے بعد فوت ہو جائے گا مگر ہو سکتا ہے مریض سات دن زندہ رہ لے یا دو ہفتے زندہ رہ لے مگر موت اس کا مقدر بن کے ہی رہے گی۔ اسی طرح اگر کسی کی عیادت کے لئے جب لوگ اس کے پاس جاتے ہیں تو دعا دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جلد شفایاب فرمائے۔ لیکن کسی بہت ہی بوڑھے اور علیل بزرگ کی عیادت کے لئے بھی اس کو یہی دعا دیتے ہیں یا کسی سے سنتے ہیں کہ ان کے دادا جان جو کہ 90 برس کہ ہیں اور بہت عرصہ سے بیماریوں کا بھی شکار ہیں تو تب بھی انسان کو یہی دعا دینی پڑتی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کہ دادا کو جلد شفایاب فرمائے اور اپنا رحم اور فضل فرمائے۔

اب کوئی یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ خدا تعالیٰ آپ کے دادا کو دنیا سے اٹھا لے اور ان کی تکلیف دور فرما دے اور آپ کہ لیے بھی اور آپ کہ دادا کہ لیے بھی آسانی فرما دے۔ لیکن ہمیں سمجھنا چاہے دراصل حقیقی دعا کیا ہے۔ دعا خدا تعالی سے رحم اور حقیقی فضل مانگنا ہے اصل میں حقیقی دعا یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ فضل اور رحم فرمائے۔ کیونکہ خدا کا فضل اور رحم انسان کہ لئے مفید ہوتا ہے نا کہ لمبی زندگی اور شفایابی مانگنے سے۔ اگر خدا تعالیٰ کہ نزدیک اس بندے کی وفات میں بہتری ہے تو وہ خدا تعالیٰ کا اس پر رحم ہے کہ اس نے اس کو تکلیف سے نجات دی اور اگر اس کی شفا میں بہتری ہے تو خدا اس کو شفایاب فرمائے اور وہ شفایابی اللہ کا احسان ہے اس پر ۔

غرض خدا تعالیٰ کی رضا ہی میں بہتری ہے اس کے لیے بھی اور اس کہ پیاروں کہ لیے بھی۔ اور یہی دعا جنازے میں پڑھنے کا حکم ہے کہ دعا مانگو اے خدا اگر اس وفات شدہ انسان کہ وسیلے سے اگر کوئی برکات اور رحمتیں ہمارے لیے وابستہ تھیں تو ان برکات کو ہمارے سے چھین نا لینا اور ہمیں ہمیشہ ان اجروں اور برکات سے مستفید کرتے رہنا اور ہمیں مشکل میں نہ ڈال دینا۔ خدا تعالیٰ بہت سی دعائیں جو اس دعا کرنے والے کہ حق میں بہتر نہیں ہوتیں قبول نہیں فرماتا اور یہ اس کا بہت بڑا احسان ہوتا ہے اور وہ بہتر جانتا ہے کہ کیا بہتر ہے اور کیا نہیں۔

جس طرح ایک ماں اپنے بچے کو کبھی بھی وہ چیز نہیں دے سکتی جو اس کہ لئے نقصان دہ ہو گی چاہے بچہ جتنا چاہے منتیں اور فریاد کر لے اسی طرح خدا تعالیٰ بھی ہر دعا کو قبول نہیں فرماتا۔ غرض ہمیں ہمیشہ خدا تعالیٰ کہ فضل اور رحم کی دعا کرنی چاہیے اور پھر جو بھی ہو ہر حال میں اس کہ فیصلے پر راضی ہو جانا چاہیے۔ ہو فضل تیرا یارب یا کوئی ابتلا ہو

راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو

مسعود اشرف
Latest posts by مسعود اشرف (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments