اسلامی تاریخ (مقصد مطالعہ سے حاصل مطالعہ تک)۔


قبل اس سے کہ اسلامی تاریخ اور احوال کا اعادہ کیا جائے، پیارے نبی ﷺ کے دور میں واقع ہونے والی حق و باطل کے مابین معرکہ آرائیوں کے اسباب اور نتائج پر روشنی ڈالی جائے، میثاق مدینہ، صلح حدیبیہ اور، جنگ خیبر کی عظمتوں اور مصلحتوں کی وضاحت کی جائے، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ایک لکھاری یہ سب کیوں لکھ رہا ہے اور ایک قاری یہ سب کیوں پڑھ رہا ہے؟ قبل اس سے کہ علیؓ کی وفاداری و شجاعت بیان کی جائے، ابوبکرؓ کے ایثار، عمرؓ کی حکمت عملی اور شہادت عثمانؓ کی پہنائیوں میں اترا جائے، یہ جاننا ضروری ہے کہ ہم اسلامی تاریخ صرف معلومات کے لیے پڑھ رہے ہیں یا بحیثیت مسلمان اسلامی نظام کی بنیاد و حقیقت جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور کھوئے ہوئے اسلامی نظام سے دنیا کو دوبارہ روشناس کروانے کی رمق خود میں محسوس کرتے ہیں؟

قبل اس سے کہ صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے طرز حیات کا احاطہ کیا جائے، قبل اسلام اور قبول اسلام سے پہلے کے ان کے شب و روز کا موازنہ کیا جائے، ان کی بہادری، جذبۂ قربانی اور شوق ایمانی کو ایک بار پھر قلمبند کیا جائے یہ سوچنا ضروری ہے کہ کیا آج ہمارے اندر ان کے آس پاس تک کا بھی ایمان اور ولولہ موجود ہے؟ یا ہم اس وقت کو اینٹ اور پتھر کا دور سمجھ کر بس اوراق پلٹتے رہیں گے؟ جب تک آپ یہ سوال خود سے نہیں کریں گے تب تک آپ کا حاصل مطالعہ کچھ بھی نہیں ہو گا۔ کیونکہ جس مطالعے کا مقصد صرف معلوماتی دلچسپی تک ہو، اس مطالعے کا حاصل وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ نہیں رہ جاتا۔

مگر اسلامی تاریخ کے واقعات اور مجادلے کسی عام طرز کے مطالعے کی نذر نہیں ہونے چاہئیں۔ لہذا، اس ضمن میں ایک قاری بالخصوص مسلمان اس مطالعے سے کیا کچھ حاصل کر سکتا ہے، اس کا تعین اسے مطالعے سے پہلے کر لینا چاہیے، کیونکہ وہ ایسا کرنے کی جسارت اور اہلیت دونوں رکھتا ہے، کیونکہ یہ واقعات محض تاریخ کی کتابوں میں چھپنے یا لائبریریوں کی زینت بننے کے لئے رونما نہیں ہوئے تھے۔ بلکہ یہ معرکے رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کے ایمان کو تازہ و مضبوط رکھنے کے لیے پیش آئے تھے۔

یہ جنگیں آنے والے تمام مسلمانوں کو ایک اسلامی ریاست کے قیام کے لئے سرگرم رکھنے کے لیے لڑی گئی تھیں۔ یہ جنگیں اور غزوات حق اور باطل کے درمیان وہ لکیریں ہیں جن کے دائیں طرف جنت کے باغات اور بائیں طرف دوزخ کی لپٹیں ہیں۔ ہجرت مدینہ سے لے کر شعب ابی طالب تک، غزوہ خندق لے کر فتح مکہ تک، غزوہ تبوک سے لے کر جنگ قادسیہ تک، شہادت عثمانؓ سے لے کر جنگ جمل تک اور شہادت علیؓ سے لے کر واقعہ کربلا تک، کے تمام واقعات کا مطالعہ ناصرف ایک مسلمان کو اس کے خالق سے قریب تر کرتا ہے، اس کے ایمان بالغیب کو تقویت بخشتا ہے بلکہ اس کے کردار کو بلند کرتا ہے، اس کی سوچ کے زاویے کو بدلتا ہے۔

دوسرے الفاظ میں، یہ تمام واقعات مسلمان کی ایمانی نشو و نما کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت کو بھی پروان چڑھاتے ہیں۔ ان واقعات کا غیر جانبدارانہ اور غیر فرقہ وارانہ مطالعہ ایک مسلمان کی سوچ کو زمین سے اٹھا کر آسمان تک پہنچا سکتا ہے۔ اسے شخصی غلامی، مادیت پرستی، ذہنی پسماندگی سے نجات دے دیتا ہے۔ اسے مسلمان سے مؤمن بنا سکتا ہے۔ وہ مؤمن جس کی خصوصیات قرآن پاک میں اللہ سبحان و تعالی نے بیان فرمائی ہیں۔

رب کائنات نے مؤمن کو کسی کی غلامی کے لئے پیدا نہیں کیا مگر صرف ایک معبود کی۔ یہ بات یوں واضح ہو کر دماغی اور روحانی سکون مہیا کرتی ہے جیسے ناریل کو مشقت سے چھیلنے کے بعد اس کی کاشیں اور پانی آدمی کی تکان کو زائل کرتے ہیں اور وہ مزید محنت کے لیے خود کو پہلے سے زیادہ چاق و چوبند محسوس کرتا ہے۔ پھر آپ کا نصب العین بدل جاتا ہے۔ دنیا کے حصول کی بجائے آپ اسی دنیا میں اخروی کامیابیوں کے لئے کوششیں کرنے لگتے ہیں۔ یہ عین یقیںی باتیں ہیں۔ مگر اس کے لئے جیسے میں نے پہلے کہا، مقصد مطالعہ اور حاصل مطالعہ قاری (بالخصوص ایک مسلمان) کے ذہن میں پہلے سے واضح ہونے چاہئیں۔ صحیح اور جامع اسلامی تاریخ کی کتب کو کھنگالنے سے پہلے جب ایک مسلمان کے ذہن میں تعمیری مقاصد طے ہوں تو زبردست حاصل مطالعہ یقیںی ہے۔

اس بات کو ایک حقیقی مثال سے سمجھئیے کہ اگر ایک مسلمان حق و باطل کے درمیان فرق کردینے والی پہلی جنگ یعنی غزوۂ بدر کا مطالعہ صرف اس لئے کرنا چاہتا ہے تاکہ اسے مقابلے میں موجود مسلمانوں کی تعداد کے بارے میں معلوم کرسکے، اسے یہ علم حاصل ہو جائے کہ دشمنوں کا لشکر ایک ہزار کفار پر مشتمل تھا، کس گروہ کے پاس ہتھیار زیادہ اور کس جماعت کے پاس محدود تھے، کفار مکہ کے کتنے سردار شہید ہوئے یا اس غزوہ کا مقام کیا تھا؟

تو وہ ثانوی حیثیت کے ان حقائق کو یاد کر لے گا، مگر جو چیز اس کے تجسس کا مرکز ہونی چاہیے یعنی کہ نبی آخری الزماں محمدﷺ نے ہجرت کے بعد کیوں یہودیوں کے قبائل سے معاہدہ کر لیا؟ آخر یہ جنگ بدر کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی، اس کا پس منظر کیا تھا اور نتائج کیا رہے؟ سے بے بہرہ رہ گیا۔ جو اس کی دلچسپی کی چیز تھی وہی اس کے مطالعہ کا حاصل رہی جو وقت کی تباہی کے علاوہ کچھ نہیں جبکہ وہ اس واقعہ کے نچوڑ تک پہنچ ہی نہ پایا۔

رسول ﷺ کی حیات مبارکہ؛ پیدائش، نبوت، بعثت، ہجرت، فتوحات، ہمیں یہی تو بتاتی ہیں کہ اسلام کس طرح بتدریج نقطۂ عروج کو پہنچا؟ اسلامی نظام کیسے تیس سال تک قائم رہا؟ اور کیسے ملوکیت کے اژدھے نے اس نظام کی بلندی کو نگل کر زمین بوس کیا۔ جبراً اقتدار کے حصول کے لئے کیسے ناحق تلوار اٹھائی گئی۔ کیا یہ تاریخ ہمیں اس لئے نہیں پڑھنی چاہیے کہ ہم اس کا آج کے دور سے تقابل کریں؟

اسی طرح اگر ایک مسلمان واقعہ کربلا میں دلچسپی صرف اس لئے لے رہا ہے تاکہ جان سکے کہ کتنے لوگ امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ تھے، کتنوں پہ پانی روکا گیا، کتنے شہید ہوئے اور کتنے بچ گئے، اور ہر سال دس محرم کو کیوں اس واقعے کی یاد میں جلوس اور نوحے کیے جاتے ہیں، تو وہ سب بڑے اچھے سے یاد کر لے گا۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں۔ مگر وہ عظیم الشان واقعہ کی روح تک پہنچنے سے محروم ہی رہے گا جو اس کے نزدیک اولین اہمیت کی حامل ہونی چاہیے کہ آخر کیا وجہ تھی جو حضرت حسینؓ ابن علیؓ اپنے خاندان سمیت موت سے بے خوف ہو کر میدان میں نکل پڑے۔ آخر یہ شہادت حسینؓ اتنا بڑا دکھ کیوں ہے کہ بہترین مؤمنات میں سے ایک نواسۂ رسول حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پھپھی بی بی زینب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یزید کے دربار میں کھڑے ہو کر اس کے سامنے اس کے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی؟

کیونکہ قاری کے پیش نظر کچھ اور تھا۔ سو جو سطحی مقصد تھا وہی حاصل مطالعہ بن گیا۔

امام حسین علیہ السلام کی شہادت ہر سال صرف رسائل، اخبارات اور دیگر جدید و قدیم ذرائع ابلاغ میں نشر ہونے کے لیے نہیں ہوئی تھی بلکہ باطل کو باطل ثابت کرنے اور حق کو چوٹی تک پہنچانے کے لئے ہوئی تھی۔ ایک مسلمان مملکت میں ہر مسلمان شہری کے اندر غیر اسلامی ریاست کے قیام کو نامنظور کرنے کی ہمت بیدار کرنے کے لئے ہوئی تھی۔ ظلم کو روکنے اور امن کی بالادستی کے لیے ہوئی تھی۔

یہاں یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ قیادت اور سیاست اسلام سے جدا نہیں۔ اگر ایک اسلامی ریاست میں قیادت اور سیاست مغربی طرز پر ہو رہی ہیں تو پھر خلافت راشدہ کو پڑھنے کے بعد آپ خود سے سوال ضرور کریں گے کہ آپ کہ ارد گرد کیا ہو رہا ہے اور آپ کے وہاں ہونے کا کیا مقصد ہے؟

ایک قیادت کے بغیر اسلام کا نظام قائم نہیں ہو سکتا، وہی نظام جس کی قیادت خاتم النبیینﷺ نے آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل کی تھی۔ اور جس کی باگ ڈور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے نبی پاک ﷺ کی وفات کے بعد بڑے پرزور طریقے سے سنبھالی تھی۔

وہی سیاست جو رسول کریمﷺ نے اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے کی۔ اور ابو بکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ و مولا علیؓ و امام حسنؓ مشعل راہ سمجھتے ہوئے جسے ایمانداری سے قائم رکھا۔

قرآن مجید میں پروردگار عالم نے بڑے واضح اور سخت انداز میں یاد دہانی کے طور پر ارشاد فرمایا ہے کہ ”ہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے، کھیل تماشے کے طور پر پیدا نہیں کیا (سورہ الدخان: 38 )

اس آیت پر غور و فکر کرنے کے بعد خود سے یہ سوال کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے کہ ”ہم اس وقت کیا کر رہے ہوں اور کیوں کر رہے ہیں؟“

قرآن و حدیث یا سنت دونوں کی اہمیت اور حقیقت شدنی ہے۔ اگر ہم اللہ کی کتاب اور حدیث کی کتابوں کو صرف تاریخ کے آئینے میں دیکھتے رہیں گے تو کبھی فلاح نہیں پا سکیں گے۔

آپ جب اسلامی تاریخ پڑھیں تو فلسفۂ تاریخ (واقعات کے پس منظر، نتائج اور آپسی ربط ) کو ذہین میں رکھیں۔ آج کی زندگی میں اس کی کیا اہمیت ہے اور اس سے اخروی

نجات کیونکر ممکن ہے؟ کو اولین ترجیح دیں۔
کیونکہ نہ تو قرآن مجید کا مضمون تاریخ یا سائنس ہے اور نہ ہی کتب احادیث محض تاریخ کا پرچار کرتی ہیں۔

اللہ نے رسول اللہ ﷺ کو قیامت تک کے لیے جامع ترین نصاب یعنی قرآن حکیم کے ساتھ نبوت کے عہدے پر متمکن کر کے بھیجا کہ اس کے بعد کوئی نبی یا رسول اور کتاب آنے والے نہیں، شریعت محمدیﷺ کے بعد کوئی شریعت لاگو ہونے والی نہیں۔ لہذٰا بحیثیت مسلمان ہم سب پر فرض ہے کہ ہم اسلام کو انفرادی طور پر اپنائیں اور اجتماعی سطح پر احسن طریق سے عام کریں۔

ہمارا چھٹکارا صرف اپنی اپنی نمازوں اور زکوٰۃ، روزوں اور حج سے ممکن نہیں۔ (مگر جسے اللہ چاہے ) بلکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی ہم سب پر لازم ہے۔ اور مؤخر بیان اثر تب ہی کرپائے گا، جب ہر مسلمان مرد اور عورت خود بھی اس پر عمل پیرا ہونے کی سعی کرتا رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments