جامن کا درخت


اس موسم میں پنجاب یونیورسٹی کی سوغاتوں میں سے ایک سوغات ”جامن“ ہے۔

آج چھٹی تھی سارا دن روم میں بستر توڑنے کے بعد شام کو سوچا تھوڑا سیر کر آتے ہیں اور جامن بھی توڑ لاتے ہیں اسی غرض سے یونیورسٹی میں آوارہ گردی کو نکلا۔ گھومتے گھومتے ایک ایسی جگہ پہنچا جو آج سے پہلے میری نظروں میں نہ آئی تھی اس جگہ کو ایکسپلور کرنے کی چاہ میں گھنے درختوں میں گھستا چلا گیا۔ فطری ماحول میں کچھ ٹھنڈی سانسیں لیں تو ایک الگ سا احساس ہوا۔

جامن کا ایک درخت دکھا میں نے جامن توڑنے کا فیصلہ کیا اور دھاں دھاں کرتا درخت پر چڑھ گیا

بچپن سے لے کر آج تک، درخت پر چڑھنا صرف میری خواہش ہوا کرتی تھی لیکن کبھی اس خواہش کو انجام دینے کا حوصلہ نہ ہوا۔

جب درخت پر چڑھ کر پکے پکے، ایک ایک جامن کو توڑ کر شاپر میں ڈالنا شروع کیا تو اچانک سے جامن کا درخت بولا۔

اے پاگل (بنی آدم) ! تم زمین پر کھڑے ہو کر مجھے ہلا بھی سکتے تھے اور اس طرح میں خود بخود اپنا پھل تمہیں سونپ دیتا۔ تم نے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر اوپر چڑھنے کو ترجیح کیوں دی؟ (اگر تم گرتے ہو تو یہاں تمہیں سنبھالنے والا بھی کوئی نہیں ) ۔

میں نے بنا رکے جامن توڑتے ہوئے اور لبوں پہ ہنسی بکھیرتے ہوئے کہا تم جمادات ہو تمہیں نہیں معلوم کہ ”ایک حقیقی انسان کبھی جھکنا گوارہ نہیں کرتا پھر چاہے بدلے میں اسے کوئی خطرہ مول لینا پڑے یا نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے“

زمین پر کھڑے ہو کر جامن کی چاہ میں مجھے تمہیں ہلانا پڑتا اور پھر گرے ہوئے جامنوں کو جھک کر اٹھانا پڑتا۔

میں اپنی خواہش کے لیے کسی کو ہلا سکتا ہوں نا ہی جھکنا گوراہ کرتا ہوں۔

تم کیا جانو، جان جوکھم میں ڈال کر اپنی خواہش کو انجام دینا پھر زمین سے اپنے اپ کو بلند کر کے پکے ہوئے ایک ایک پھل کو توڑنا پہلے اسے چھکنا پھر۔

یہ سب کرنا کتنا ”حسین احساس“ ہے۔

اسی احساس کی چاہ میں تمہیں معلوم ہے! کتنے کوہ پیماں پہاڑوں کو سر کرتے ہوئے اپنی جان گنوا بیٹھے، اسی طرح کتنے تیراک سمندر کی گہرائیوں میں چھپے پھل (رازوں ) کی کھوج کرتے کرتے انہی پانیوں میں غرق ہو گئے۔ کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھانے میں کتنے انسانوں نے اپنی جان گنوائی، پوری انسانیت کی صدیوں کی محنت صرف ہوئی تب جا کے آج انسان اس قابل ہوا ہے کہ کروڑوں اربوں میل دور سپیس میں تیرتے ستاروں، سیاروں، شہاب ثاقب اور جانے قدرت کے کن کن کرشموں کا سراغ لگا پایا ہے، ان کے بارے میں جان پایا ہے اور اسی احساس نے اسے یہاں تک ہی رکنے نہیں دیا اب وہ دوسرے سیاروں پر زندگی بسانے جا رہا ہے، دوسری دنیاوں کو کھوجنے جا رہا ہے، ملٹی ورس کے معمے کو حل کرنے جا رہا ہے، یہ پتہ چلانے جا رہا ہے کہ بلیک ہول میں جا کر سب کچھ کیوں اور غائب ہو جاتا ہے، کیا سورج پر بھی کسی جاتی کا امکان ہے؟

روشنی کی رفتار سے موو کرنے پر وقت کیسے تھم جاتا ہے۔

انسان نے ایٹم بم بنا کر فطرت کو بھی چیلنج کر دیا ہے کہ وہ قدرت کی بسائی اس دنیا کو اپنی اس ایجاد سے چند منٹوں میں ملیا میٹ کر سکتا ہے۔

اس کے علاوہ بھی انسان نے ادب، سائنس، فلسفہ، طب، روحانیات وغیرہ کے میدان میں بھی جھنڈے گاڑھے ہیں۔ ان سب کی وجوہات میں یہ خطرہ مول لینے اور نہ جھکنے کا ”احساس“ ایک بنیادی فیکٹر ہے۔

یہ سب سن کر جامن کے درخت اور اردگرد کے ماحول پر ایک خاموشی طاری ہو گئی۔ اور میرا شاپر بھی کافی بھاری ہو گیا میں نے تھوڑا خود کو سیٹ کرنا چاہا کہ پاؤں ذرا سا سرکا اور شاپر ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر گیا۔ سارے جامن۔

درخت نے فوراً کہا، انسان نے کتنی بھی مادی ترقی کیوں نہ کر لی ہو ایک دن اس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments