شہناز احد کی مسافتوں کی دھول


شہناز احد ہمارے دو سال بعد عملی صحافت میں آنے والے نو عمر صحافیوں کی کھیپ میں شامل تھیں۔ انہوں نے ہفت روزہ معیار سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنی تہلکہ خیز رپورٹوں اور فیچرز کے ذریعے دھوم مچا دی۔ اس کے ساتھ ہی وہ آزادیٔ صحافت اور صحافیوں کے معاشی حقوق کے لئے جد و جہد کرنے والے منہاج برنا کے قافلے میں بھی شامل ہو گئیں۔ اور یوں ہماری دوست بھی بن گئیں۔ لیکن ہم صحیح معنوں میں ان کے گرویدہ تب ہوئے جب انہوں نے صحافیوں کی تحریک کے دوران بھوک ہڑتال میں حصہ لیا اور ہسپتال پہنچ گئیں۔

شہناز کو میں صحافت کی آئرن لیڈی یا شمیم عالم کے بقول عورتوں کی احفاظ الرحمن کہتی ہوں۔ وہ ایک فائٹر ہیں اور مظلوموں کو انصاف دلانے کے لئے ہمیشہ سے جنگ کرتی چلی آئی ہیں۔ اوپر سے سخت نظر آنے والی شہناز اندر سے بہت نرم ہیں۔ میں نے انہیں شیریں جوکھیو کی پریس کانفرنس میں اگلی نشست پر بیٹھے آنسو بہاتے دیکھا ہے۔ اور گھر جا کے اس نے ’ہم سب‘ کے لئے مضمون لکھا ”میں بھی ایک بیٹی ہوں“ جو ان کی کتاب میں بھی شامل ہے۔

شہناز ایک انتہائی حساس دل، سوچنے اور تجزیہ کرنے والے ذہن کی مالک ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ناقدانہ سوچ کا فقدان ہے لیکن شہناز ہر واقعے کا تنقیدی جائزہ لیتی ہیں۔ اور اس کے پیچھے چھپے ہوئے عوامل کو سمجھنے اور سامنے لانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس کتاب میں شامل بہت سے مضامین کرونا کی وبا کے دوران لکھے گئے۔ جن میں شہناز کے اپنے احساس تنہائی کے ساتھ ساتھ لوگوں کی معاشی بد حالی کی تکلیف دہ کہانیاں، اور احتیاطی تدبیر اختیار نہ کرنے پر عوام اور سرکار دونوں کی گوشمالی کی گئی ہے۔

ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے معاشرے کے جو رنگ ڈھنگ بدلے اور جس طرح ہم نے آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے جانا شروع کیا۔ اس کی عکاسی شہناز نے کئی مضامین میں بڑی درد مندی کے ساتھ کی ہے۔ کیسے ہم نے ماحولیات کو تباہ کیا، کیسے چیلیں اب آسمان کی بلندیوں پر پرواز کرنے کی بجائے سڑکوں پر رزق ڈھونڈتی نظر آتی ہیں۔ کچرے کے ڈھیر پر پہلے پرندے، پھر جانور اور اب بچے چیزیں ڈھونڈتے نظر آتے ہیں۔

اس معاشرتی اور معاشی المیے کو شہناز جیسے حساس قلم کار ہی سامنے لا سکتے ہیں۔ وہ ایک اصول پسند شخص ہیں مگر فی زمانہ جب وہ ایسی باتیں کرتی ہیں تو انہیں سننے کو ملتا ہے ”آپ اتنی پرانی ہیں؟“ ایک اور دلچسپ مضمون جو اس کتاب میں آپ کو پڑھنے کو ملے گا، وہ ہے ’زمانہ بدلا پر خطبہ نہ بدلا‘ جس میں مذہب کو سیاسی اور اقتصادی مفادات کے لئے استعمال کرنے کی حقیقت پسندانہ تصویر کشی کی گئی ہے۔ سارے سماجی، سیاسی اور اقتصادی مسائل شہناز کے دل کا تاروں کو چھیڑتے ہیں جنہیں وہ فوری طور پر قلمبند کر کے ہم تک پہنچاتی ہیں۔

نعیم صادق کی جینیٹرز کے حقوق کے لئے واک میں شرکت کرتی ہیں تو اگلے روز ان کا مضمون پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ ”کہیں نہیں لکھا کہ صفائی غیر مسلموں کی ذمہ داری ہے“ ۔ کراچی کے صنعتی علاقوں میں آگ لگنے کے حادثات ہوتے ہیں تو ان کا مضمون ’مالکان کا کچھ نہیں بگڑتا‘ ، سامنے آتا ہے۔ ابھی تک میں نے جن مضامین کا ذکر کیا، وہ آن لائن ویب سائٹ ”ہم سب“ میں شائع ہوئے ہیں لیکن اس مضمون میں انہیں ہفت روزہ معیار کے لئے لکھی ہوئی رپورٹ یاد آ جاتی ہے جو انہوں نے جان پر کھیل کر بنائی تھی۔ یہ رپورٹ چاس منڈوزا کمپنی کے کارکنوں کے کیمیکلز سے جلنے کے بارے میں تھی۔ اس کی اشاعت کے بعد ایڈیٹر محمود شام اور انہیں شدید دباؤ کا مقابلہ کرنا پڑا تھا۔

شہناز کی مشاہداتی صلاحیت اور درد مندی انہیں ایسی باتوں پر بھی قلم اٹھانے پر اکساتی ہے جنہیں دوسرے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جیسے ”14 اگست اور ہم“ میں انہیں اس بات پر غصہ بھی آتا ہے اور دکھ بھی ہوتا ہے کہ اس روز لہرائے جانے والے جھنڈے چیتھڑے ہو جانے تک لہراتے رہتے ہیں۔ اس کتاب کے سارے مضامین کسی مسئلے یا واقعہ یا ہمارے قومی رویوں کے حوالے سے لکھے گئے ہیں جو ہر با شعور اور درد مند قاری کو پسند آنے کے ساتھ ساتھ دعوت فکر و عمل بھی دیتے ہیں۔

ہم سب کو مجاہد بریلوی کا شکر گزار ہونا چاہیے جنہوں نے شہناز کو ان تحریروں کو کتابی شکل میں سمیٹنے کا صرف مشورہ ہی نہیں دیا بلکہ اس کے لئے محنت بھی کی۔ شہناز اور مجاہد کا دہائیوں کا تعلق ہے۔ ”زندگی کی تمام تلخ و شیریں، غمی و خوشی کی ایک داستاں ہے۔ جسے ورق ورق کھولنے بیٹھوں تو یقین ہے کہ افسردگی غالب آ جائے گی۔ مگر اس وقت تو بس شہناز کی کتاب آنے کی خوشی میں سر مستی و سرشاری سے گزر رہا ہوں“ ۔ شہناز کی کتاب کی تقریب رونمائی کی کامیابی کی خوشی نے اس کے مجھ سمیت سارے احباب کو سرمستی اور سرشاری کی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ سڈنی سے آئے ہوئے اشرف شاد مہمان خصوصی تھے۔ صدارت محمود شام نے کی۔ ان کے ساتھ راقم الحروف، شیر شاہ سید، نور الہدیٰ شاہ، سینیٹر رخسانہ زبیری، خادم حسین شاہ نے بھی اظہار خیال کیا۔

اشرف شاد نے شہناز کے بارے میں کہا، ”شہناز احد سے دوستی کوئی دو چار برس کی بات نہیں، کم و بیش نصف صدی کا حصہ ہے۔ ’معیار‘ کا دفتر، تفتیشی صحافت، سچ لکھنے کی بے چینی، پریس کلب کی محفلیں، آزادیٔ صحافت کی تحریکیں، جلسے، بھوک ہڑتال، شہناز ان سرگرمیوں کا ایک اہم کردار تھیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے، جب میں پاکستان میں تھا، میری تو زمین بدل گئی اور جیسے میرے ایک شعر کا مصرعہ ہے :گردش زمین کی پاؤں کی زنجیر بن گئی،

لیکن شہناز کو کبھی زنجیر پہننا نہیں آیا۔ نہ وہ بدلیں، نہ ان کی زمین بدلی، وہ پوری استقامت سے اپنی زمین پر مضبوطی سے پاؤں گاڑے کھڑی رہیں۔ ان میں بے باکی، بے خوفی، انسان دوستی، درد مندی، اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سچ لکھنے کی جو خو تھی وہ بھی کبھی نہیں بدلی۔ کئی دہائیاں گزر گئیں لیکن دوستی کا رشتہ بھی نہیں بدلا اور نہ اس کی شدت میں کمی آئی۔ شہناز احد میں فطری طور پر ایک عجیب طرح کی بے خوفی تھی۔ بے خطر آتش نمرود میں کود پڑنے کی ہمت اور جبلت۔ وہ کبھی کسی سے نہیں ڈریں بلکہ ایک دوست کے بقول لوگ ان سے اور ان کے سچ بولنے کی عادت سے ڈرتے تھے۔

معیار میں کام کرنے اور ہم سب میں لکھنے کے درمیان جو طویل وقفہ آیا، اس کی تفصیل محمد اظہار الحق نے بیان کی ہے۔ شہناز کی بیٹی دو سال کی تھی کہ گردے کے مرض میں مبتلا ہو گئی۔ ابھی چھ برس کی تھی کہ ماں کو اپنے چہرے اور اپنی خوشبو سے ہمیشہ کے لئے محروم کر کے جنت کو سدھار گئی۔ مگر ماں وہ ماں نہ تھی کہ نالہ و شیون کر کے بیٹھ جاتی اور ہاتھوں کو زمین پر مل مل کر روتی رہتی۔ روئی تو بہت ہو گی مگر اٹھ کر دامن جھاڑا اور زندگی اپنی بیٹی کے بھاگوں، گردے کے مریضوں کے لئے وقف کر دی۔

تین عشروں سے زیادہ کا عرصہ ہو چلا شہناز نے مشہور و معروف کڈنی کے اداروں میں انتظامیہ اور پی آر سے لے کر فنڈ ریزنگ تک، اور ہسپتالوں کی تعمیر سے لے کر مریضوں کو ہدایات دینے تک ہر وہ کام کیا جو ڈاکٹروں کے بس میں نہیں تھا۔ اس نے جوانی خدمت خلق پر وار دی۔ اس سارے عرصہ میں اس نے اپنی والدہ کی دیکھ بھال بھی کی۔

لیکن بقول اشرف شاد ان کی شناخت صحافت اور ان کی ذاتی اور سماجی زندگی کا محور رہی۔ دوست بھی وہی رہے جو صحافت کے زمانے سے ساتھ تھے۔ صحافی ہونے کے لئے ٹی وی اخبار کی ملازمت ضروری نہیں ہے، یہ ایک کیفیت ہے۔ ایک جنون اور زندگی گزارنے کا چلن ہے۔ شہناز اس کیفیت سے پوری طرح سرشار ہیں۔

کتاب ملنے کا پتا: 45 دوسری منزل، وینسی مال، کلفٹن بلاک 9، کراچی۔ ناشر لوح ادب پبلیکیشنز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments