مسلم معاشرہ انصار مدینہ جیسے بھائی چارے کا منتظر ( پہلی قسط)۔


بلا تمہید آمد برسر مقصد رسول رحمت ﷺ نے اہل ایمان کے درمیان رشتہ اخوت قائم کیا۔ یہ اتنا مضبوط اور پائیدار رشتہ ہے کہ اس کو دنیا کی کوئی طاقت ختم نہیں کر سکی اور نہ کرسکے گی۔ اس عظیم رشتے کی بنیاد اسلام اور اللہ و رسول ﷺکی محبت ہے۔ مواخات مدینہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عقد مواخات میں بندھ جانے کے بعد اس کے مدینہ کے مسلمانوں پہ سماجی و معاشی سیاسی اور تعلیمی کیا اثرات مرتب ہوئے۔ اس ضمن میں درج ذیل تین اصول قابل ذکر ہیں۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺکی زندگی میں تین اصول نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔

1: باقاعدہ منصوبہ بندی
2: ترجیحات کا تعین
3: حصول مقاصد کے لیے عملی جدوجہد

مواخات کا عمل بھی آپ علیہ السلام کی منصوبہ بندی کا حصہ تھا اور ہجرت کے بعد ترجیحات میں سرفہرست تھا۔ مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد سب سے اہم مسائل مدینہ منورہ کا دفاع اور مہاجرین کی آبادکاری تھے۔ دفاعی سلسلہ میں رسول اکرمﷺ نے جہاں اور بہت سے اقدام کیے ان میں ایک اہم قدم امت مسلمہ کی وحدت اور یک جہتی بھی تھا۔ ہجرت سے قبل مدینہ منورہ خانہ جنگی کا شکار تھا۔ شہر مدینہ جو چھوٹی چھوٹی بہت سی آبادیوں کا مجموعہ تھا۔

مختلف جنگی قبائل میں بٹا ہوا تھا۔ یہاں کی باہمی جنگوں میں عبداللہ بن ابی بن سلول نے اپنے آپ کو کسی حد تک غیر جانب دار رکھ کر اس بات کے لیے راہ ہموار کر لی تھی کہ مدینہ منورہ کے عرب و یہودی قبائل اسے اپنا لیڈر تسلیم کر لیں اور اسے مدینہ کا حکمران مان لیں تاکہ وہ اس خطہ میں امن قائم کرے۔ کچھ قبائل جو خانہ جنگی سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ اسے حکمران بنانے پر تیار ہو گئے تھے۔ چنانچہ عبداللہ بن ابی نے اپنی تاج پوشی کے لیے تیاریاں بھی شروع کر دی تھیں۔ ہجرت کی وجہ سے اس کا حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ اسی وجہ سے عبداللہ بن ابی کا رویہ شروع سے معاندانہ یعنی دشمنی پہ مبنی رہا۔ وہ کھل کر ظاہر طور پر تو رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کی مخالفت نہ کر سکا لیکن خفیہ طور پر امت مسلمہ کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع اس نے ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔

مہاجرین جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تو انصار اور مہاجرین میں جو تہذیبی فرق تھا۔ عبداللہ بن ابی اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔ مکہ مکرمہ سے آنے والے مہاجرین کا تعلق عدنانی عربوں سے تھا۔ یہ لوگ مکہ مکرمہ اور حجاز کے صحرائی علاقوں میں آباد تھے۔ ان کی تمام عادات و اطوار میں صحرائی اقوام کے اثرات تھے۔ صحرا کی آزاد اور بدویانہ زندگی کے یہ لوگ دلدادہ تھے۔ ان کی تہذیب و تمدن اور رسوم و رواج میں صحرائی تہذیب ہی رچی بسی ہوئی تھی۔ صحرا کی آزادانہ زندگی کے ساتھ ہی اہل مکہ نے اپنا شہری نظام وضع کر لیا تھا اور معاش کے لیے تجارت اور شکار پر بھروسا کرتے تھے۔ تجارت کو انہوں نے زیادہ بہتر طور پر منظم کر لیا تھا۔

انصار میں زیادہ تر اوس اور خزرج کے قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے۔ یہ افراد صدیوں سے زراعت پیشہ چلے آرہے تھے۔ مدینہ منورہ میں آباد ہونے سے قبل یہ لوگ یمن میں آباد تھے۔ وہاں بھی زراعت اور کاشت کاری ہی ان کا پیشہ تھا۔ یمن میں آباد عربوں نے زراعت میں بہت ترقی حاصل کر لی تھی۔ انہوں نے اپنی زمینوں کی آباد کاری کے لیے ایک عظیم الشان بند تعمیر کیا تھا جو تاریخ میں سدمآرب کے نام سے مشہور ہے۔ پانی کی کثرت اور زرخیز زمینوں کی وجہ سے یہ لوگ خوشحال تھے۔

قرآن حکیم میں بھی ان کی خوشحالی اور زراعت کی طرف سے اشارہ اور ان کے تعمیر کردہ بند مآرب کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہ بند بعد میں ایک طوفانی سیلاب سے تباہ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے زبردست سیلاب آیا اور اہل یمن کے بہت سے زراعت پیشہ لوگوں کو ترک وطن کرنا پڑا۔ یہ لوگ یمن سے نکلے تو ایسی جگہوں پر جا کر آباد ہوئے جہاں زمینیں قابل کاشت تھیں اور آپ پاشی کے لیے پانی موجود تھا۔ ان میں کچھ لوگ مدینہ منورہ آ کر آباد ہو گئے اور یہاں زراعت میں مصروف ہو گئے۔

ان لوگوں کی تہذیب و ثقافت میں متمدن و تہذیب آشنا اور متمول و مال دار قوموں کے اثرات تھے۔ ان کی تہذیب زرعی تہذیب تھی جو صحرا کی تہذیب و تمدن سے مختلف تھی۔ مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد ان دو تہذیبوں کا اجتماع ہو گیا تھا۔ ایک صحرائی تہذیب تھی تو دوسری کا تعلق زرعی تہذیب سے تھا۔ عبداللہ بن ابی اور اس کے معاونین اس تہذیبی اختلاف سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔

رسول اللہﷺ نے مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے لیے جو منصوبہ بندی فرمائی تھی اس کا ایک حصہ یہ تھا کہ انصار و مہاجرین کے مابین اس تہذیبی اختلاف کو جلد از جلد ختم کیا جائے۔ اور کسی گروہ کو یہ موقع نہ دیا جائے کہ وہ اس اختلاف سے کوئی ناجائز فائدہ اٹھائے۔ چنانچہ مواخات کے عمل کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ انصار و مہاجرین مل جل کر ایک ساتھ رہیں، ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھیں اور ایک دوسرے کی اچھی عادات و اطوار کو اپنائیں۔

رسول اللہﷺ نے تعلیم و تربیت کے ذریعہ سے ان حضرات کا عقیدہ اس قدر مضبوط کر دیا کہ اس کی بنیاد پر ایک نئی تہذیب وجود میں آنے لگی اور انصار و مہاجرین کے مابین تہذیبی اختلاف بتدریج ختم ہو گیا۔ عبداللہ بن ابی اور اس کے گروہ کے علاوہ یہودی بھی اس کوشش میں لگے رہتے تھے کہ کسی طرح مسلمانوں کے درمیان باہمی نسلی تعصب کو ابھار کر یا مقامی اور غیر مقامی کا مسئلہ اٹھا کر ایک دوسرے سے لڑا دیا جائے۔ لیکن منافقین اور یہودیوں کی یہ کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں۔ اس لیے کہ رسول اللہﷺ نے اس چیز کو پہلے ہی بھانپ لیا تھا، چنانچہ آپ نے مواخات کرا کے منافقین کی اس قسم کی سازشوں کا سد باب کر دیا۔

مواخات اولی ہو یا مواخات ثانیہ اس منصوبہ کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ اس کے ذریعہ سے موالی یعنی آزاد شدہ غلام کی ذہنی و فکری تعلیم و تربیت کا ایسا اہتمام کیا جائے کہ وہ لوگ جو صدیوں سے ذہنی و فکر پستی کا شکار چلے آرہے تھے۔ انہیں آزاد لوگوں کے ہم پلہ کیا جائے اور غلامی نے جو ان کی فکر اور نفسیات کو متاثر کیا ہوا تھا۔ وہ ختم ہو جائے تاکہ یہ لوگ بھی معاشرہ میں اپنا بھر پور کردار ادا کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments