کیا حکومت حج و عمرہ کے انتظامات کی ذمہ داری خود پوری نہیں کرسکتی؟


عمران خان کے دور حکومت میں حج اخراجات چار لاکھ سے تجاوز کر گئے۔ دنیا بھر میں عالمی وبا کورونا وائرس کے باعث مہنگائی کا ایک طوفان برپا ہو گیا۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی بھی حج اخراجات میں اضافے کا باعث بنی۔ موجودہ حکومت نے عمران خان پر سیکڑوں طرح کے الزامات عائد کیے اور انہیں نا اہل قرار دیا۔ عوام میں بھی حج اخراجات میں اضافے کے باعث غم و غصہ پایا گیا۔ دنیا کے بدلتے حالات کے باعث اس سال سرکاری حج کے اخراجات آٹھ لاکھ سے تجاوز کرچکے ہیں۔ حکومت کی جانب سے سرکاری حج اسکیم میں ڈیڑھ لاکھ تک کی سبسڈی دی گئی۔ وزیر مذہبی امور مفتی عبدالشکور کا کہنا ہے کہ اگر ہم اس معاملے میں سنجیدگی سے کام نہ کرتے تو اس بار حج 11 لاکھ سے بھی زیادہ کا ہوتا۔ خیر اس معاملے میں تو حقیقت یہ ہے کہ جس کو اللہ چن لے اس کے لئے اسباب خود ہی بن جاتے ہیں۔

دنیا بھر سے اس سال تقریباً دس لاکھ فرزندان اسلام فریضہ حج ادا کریں گے پاکستان سے اس بار اکیاسی ہزار عازمین حج کی ادائیگی کریں گے۔ جن میں سے چالیس فیصد حکومتی اسکیم کے تحت جبکہ ساٹھ فیصد پرائیویٹ حج اسکیموں سے مستفید ہوں گے۔ رواں برس پرائیویٹ حج پر 11 لاکھ سے 15 لاکھ تک کہ اخراجات آئیں گے۔ اب یہ بھی ایک انوکھی منطق ہے کہ پرائیویٹ حج ایجنٹوں کو کوٹہ زیادہ دیا جاتا ہے۔ پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد پرائیویٹ حج و عمرہ مافیا سے واقف ہی ہوگی۔

اب سوال یہ ہے کہ اس مقدس فریضے پر لے جانے والوں کے لئے مجھ جیسا گناہگار مافیا کا لفظ کیوں کر استعمال کر سکتا ہے؟ آپ میں سے کوئی بھی اگر عمرے پر گیا ہو تو یقینی طور پر وہ اس بات سے اتفاق کرے گا کہ یہاں جو کچھ بتایا جاتا ہے وہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ آپ میں سے اکثر کو ائر پورٹ پر ٹرانسپورٹ کے انتظار میں گھنٹوں انتظار کرنا پڑا ہو گا۔ کچھ کے تجربات اچھے بھی ہوں گے۔ عمومی طور پر آپ کو جو ہوٹل بتایا جائے گا، جس کے متعلق لوگوں کے تاثرات آپ انٹر نیٹ پر چیک کر کے جا رہے ہوں گے وہاں آپ کو وہ ہوٹل ملے گا ہی نہیں۔

اگر آپ رش کے دنوں میں گئے ہیں تو آپ کو کمرہ حاصل کرنے کے لئے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ یہ سب حالات دیکھ کر آپ نے یقینی طور پر یہ کہا ہو گا کہ ”پاکستانی مکہ میں بھی پاکستانی ہی ہیں“ ۔ ایسا لگتا ہے کہ پرائیویٹ ایجنٹوں پر کوئی چیک اینڈ بیلنس ہی نہیں ظاہر ہے ایسا کمیشن کی برکات کی وجہ سے ہی ہو سکتا ہے۔ ہر گلی محلے میں آپ کو ایک بورڈ نظر آئے گا ”سستا عمرہ اور حج کرنے کے لئے ہم سے رابطہ کریں“ ۔ ان میں سے اکثر رجسٹر ایجنٹ ہیں ہی نہیں بلکہ وہ کسی نہ کسی کمپنی کے سب ایجنٹ ہوتے ہیں اور ان بیچاروں کے اپنے بس میں کچھ نہیں ہوتا۔

ایک لمحے کو سوچئے پوری وزرات مذہبی امور موجود ہے آخر اس کا کام کیا ہے؟ حج کمیٹیاں موجود ہیں ان کا کام کیا ہے؟ شرعی کونسل بھی ہے، محکمہ اوقاف بھی ہے ان کے مشیران بھی ہوں گے آخر ان سب کا کام کیا ہے؟ عوام اپنے ٹیکسوں سے ان کو چمچماتی ٹوں ٹاں کرتی گاڑیاں محافظوں کا لشکر کیوں لے کر دیتی ہے؟ انہوں نے ایسا کون سا مارکہ لڑنا ہے؟ ان پر دین کی بقا کی کون سی ذمہ داری عائد ہے؟ کیا صرف سال میں ایک بار حج اسکیم بنانا؟ درگاہوں کے چندے کے ڈبے کھنگالنا کیا بس یہی کام ہے؟ کیوں ان محکموں، وزارتوں اور ان کے عملوں کے ہوتے ہوئے عوام کو پرائیویٹ حج و عمرہ مافیا کو بھگتنا پڑتا ہے؟

اب یہاں کچھ مذہبی تیار کامران دوست فتویٰ دھر دیں گے کہ حکومت سب کو سبسڈی نہیں دے سکتی۔ بالکل درست حکومت سب کو سبسڈی نہ دے بلکہ 40 فیصد کو دے اور جن کا نام نہ آئے ان کو سبسڈی نہ دی جائے اور ان سے 50 ہزار سروس فیس بھی لی جائے اس کے بعد بھی حج پرائیویٹ ایجنٹس سے سستا ہی ہو گا۔ اب حکومت حج میں استعمال ہونے والی عمارتوں کو مستقل بنیادوں پر لے اور فارغ بیٹھے عملے سے عمرہ اسکیمیں بھی متعارف کرائے۔ ان عمرہ اسکیموں کو تین حصوں میں تقسیم کر دیں۔

اکانومی، متوسط اور اعلی درجہ۔ ملک بھر میں ان درجوں کی عمرہ فیس ایک ہی رکھی جائے۔ اس طرح عوام کو یہ اطمینان ہو گا کہ جو ہوٹل بک کرایا ہے وہی ملے گا، کمرہ لینے میں دشواری نہ ہوگی اور ٹرانسپورٹ کے مسائل بھی بہتر ہوں گے۔ کھانے کے لئے بھی مارے مارے نہ پھرنا پڑے گا۔ حکومت عمرے پر کوئی سبسڈی نہ دے بلکہ سروس فیس بھی لی جائے تاکہ حکومت کو بھی آمدن ہو۔ اس کے بعد بھی یہ اخراجات کم از کم پرائیویٹ مافیا سے کم ہی ہوں گے۔

اب رہا سوال کہ کیا پرائیویٹ ٹریول ایجنٹس کو بے روزگار کر دیا جائے؟ ہرگز نہیں اس پورے سسٹم کو ایک سرور کے تحت آن لائن کیا جائے۔ ملک بھر سے سب ایجنٹس کو ختم کیا جائے۔ بغیر لائسنس کے کام کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ حکومت جسے لائسنس مہیا کرے اسے یہ اختیار دے کے وہ حکومت کی مقرر کردہ رقم کو بطور فیس لے اور عوام کو پیکج بک کرا کر دے مثال کے طور پر 2 لاکھ والے پیکج پر حکومت ایجنٹ کو پانچ ہزار فیس لینے کی اجازت دے۔ یہ کام نہ تو زیادہ دشوار ہے اور نہ ہی ناممکن۔ حکومت کو اس جانب توجہ دینا ہوگی یہ مسلمانوں کا ایک بڑا مسئلہ ہے جس کا حل ناگزیر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments