وطن سے وابستگی کی ایک تخلیقی رُوداد


اجنبی ملک میں سب ہی اجنبی محسوس ہوتے ہیں مگر جب کسی مخصوص ماحول اور مخصوص موضوعات کے حوالے سے کوئی شخصیت اپنے کسی بھی پہلو سے متاثر کرے تو وہ اجنبی، پھر اجنبی نہیں رہتا۔ دوران گفتگو کہیں کسی کا اختصار بھی تنگ کرتا ہے اور کہیں متاثر کن کی باتوں کی طوالت میں بھی بوریت جگہ نہیں بنا پاتی۔ ایسی شخصیت کی موجودگی ایک ہی سطح پر ہمیشہ اچھی لگتی ہے اور اس کا محفل میں نہ ہونا، اس کی تلاش پر اکسائے رکھتا ہے۔

یہی کچھ یاسوما سسکے Yasuma sosuke کے معاملے میں ہوا جو اپنے تعارف اور پہلے لیکچر سے پہلے، ٹوکیو میں ہونے والی اس تربیتی کورس میں اوروں کی طرح اجنبی تھے مگر پھر تھوڑی ہی دیر میں کمرے میں موجود سب کے من پسند ٹھہرے۔ ان کی روداد ہی کچھ اس قدر کمال کی تھی کہ انھیں داد دیے بغیر رہنا ممکن نہ تھا۔

آج اس تربیتی کورس کا اختتامی دن تھا اور یہ افسوسناک خبر سنائی گئی کہ ‏ یاسوما سسکے اس تقریب میں شریک نہیں ہو سکیں گے کیوں کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا ہے۔ کورس کے تمام شرکا کے لئے یہ خبر دونوں صورت میں افسردہ کردینے والی تھی کہ وہ اپنے والد کی شفقت سے محروم ہو گئے اور یہاں ان کا انتظار کرنے والوں کے لئے، شاید آج کے بعد ایسی ہنر مند شخصیت سے ملاقات کا امکان بھی ختم ہو جائے گا۔

یاسوما سسکے ‏کی شخصیت کو سمجھنے کے لئے پہلے ہمیں تقریباً ”آج سے پچاس سال پہلے جون 1972 میں ہونے والے ایک سانحے کے بارے میں جاننا ہو گا جو دہلی میں پیش آیا۔

یہ جہاز کا حادثہ تھا جس میں 83 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ جبکہ کل 89 افراد اس پر سوار تھے۔ جاپان ائر لائن کی 471 پرواز کے دوران اس جہاز نے ٹوکیو، ہانگ کانگ، بنکاک اور دہلی سے ہوتے ہوئے اپنی آخری منزل لندن تک جانا تھا، مگر بد قسمتی سے ایسا ہونے سے پہلے ہی اسے اس المناک حادثے نے آ گھیرا۔ اس حادثے کی تاریخی اہمیت کا اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کسی بھی جاپانی جہاز کا، جاپان سے باہر پہلا فضائی حادثہ تھا۔ اس واقعے کی شدت میں اس بات سے بھی اضافہ ہوا کہ اس پر سوار مسافروں میں 16 امریکی اور برازیل کی ایک اداکارہ بھی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔

آئیں اب دیکھتے ہیں کہ اس واقعے سے یاسوما سسکے کا کیا تعلق بنتا ہے۔ یاسوما سسکے کا شمار جاپان کے ان ممتاز تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے دستاویزی پروگراموں میں بہت نام کمایا۔ شاید یہی وجہ ہوگی کہ اس افسوسناک حادثے کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے جاپان کے سرکاری چینل این ایچ کے نے اس کے حوالے سے بھی دستاویزی پروگرام بنانے کے لئے انھیں ہی نامزد کیا۔

باوجود اس کے کہ اس دستاویزی پروگرام کے لئے دستیاب میٹریل نہایت محدود تھا یعنی جہاز کے بلیک باکس کی آ ڈیو اور حادثے کے حوالے سے خبروں میں استعمال ہونے والے جائے حادثہ کے شاٹس، یاسوما سسکے نے اسے ایک چیلنج کے طور پر لیا۔ ان کے مطابق اس وقت ان کی سوچ کا محور صرف اور صرف یہ تھا کہ اس واقعے سے میرے ملک کا تذکرہ دنیا بھر میں شاید اچھے معنوں میں نہیں ہو رہا اور میرے ملک کے امیج کو نقصان پہنچا ہے اس لئے یہ میرے لئے بھی ایک موقع ہے کہ میں اس دستاویزی پروگرام کے توسط سے کسی طرح اس کے ازالے کے لئے اپنے طور پر کوئی کردار ادا کر سکوں۔ اسی جذبے کے ساتھ اس پروگرام کی منصوبہ بندی کی ابتدا کی گئی۔

تیس منٹ دورانیے کی اس دستاویزی فلم کا ٹائٹل what a black box says تجویز ہوا۔ جہاز کے بلیک باکس سے ملنے والی آواز سے غالباً ان کے ذہن میں یہ نکتہ ابھرا کہ اگر یہ امکان کسی طریقے سے ثابت ہو سکے کہ جہاز کے حادثے کے وقت پرواز کی ذمہ داری معاون پائلٹ کی تھی تو شاید کم تجربے کی رعایت سے ملک کے امیج کو اس شدید نقصان سے کسی قدر محفوظ بنایا جاسکتا ہے جس کا سامنا ہے۔ تحقیق کے اس مرحلے کو یاسوما سسکے نے اس طرح آگے بڑھایا گیا کہ پائلٹ اور معاون پائلٹ دونوں کے گھروں سے رابطہ کر کے ان کی کسی آڈیو ریکارڈنگ کی تلاش شروع کی۔ یہ جستجو یوں رنگ لائی کہ پائلٹ کی آڈیو ریکارڈنگ تو میسر نہ ہوئی، البتہ معاون پائلٹ کی کسی وقت کی شوقیہ کی گئی آڈیو ریکارڈنگز ان کے خاندان کی طرف سے فراہم کردی گئیں۔

اس پیش رفت سے اب یہ سوچا گیا کہ بلیک باکس سے ملنے والی آوازوں کا ممکنہ حد تک نہایت محتاط اور حساس تجزیہ کیا جائے تاکہ شناخت میں ابہام نہ رہے۔ متعلقہ شعبے کی دستیاب جدید ترین ٹکنالوجی کو اس مقصد کے لئے پوری باریک بینی سے کام میں لایا گیا اور یوں یاسوما سسکے تجسس کے جس سمت جانے کے آرزومند تھے، تحقیق اور ٹکنالوجی اس کی تائید میں آگے بڑھ رہی تھی۔ گھر کے لئے کی گئی ریکارڈنگز اور بلیک باکس سے ملنے والی آوازوں کی صوتی مماثلت، یہ ظاہر کرنے میں اب شبہات سے یکسر بالا تھی کہ معاون پائلٹ ہی پرواز کے اس بد قسمت حصے میں اڑان کے لئے معمور تھا۔

اس دستاویزی فلم کے نام میں بھی غیر محسوس طریقے سے یہ خوبصورتی اور معنویت موجود ہے کہ اس کے سکرپٹ میں حادثے کے حوالے سے جو خیال ظاہر کیا جا رہا ہے، بلیک باکس میں موجود شواہد بھی دراصل اس کی نشاندہی کر رہے ہیں۔

اس غیر معمولی طرز فکر اور اس غیر معمولی تخلیق پر 1974 میں انھیں اطالوی پرائز سے بھی نوازا گیا۔

یہ کہانی بلاشبہ، یا سوما سسکے کی اپنے وطن سے محبت اور وابستگی کو جس طرح اجاگر کرتی ہے اس کی جتنی بھی تعریف ہو وہ کم ہے، اب ان کی شخصیت کا ایک اور پہلو اور وہ بھی اتنا ہی ذمہ دارانہ اور مشفقانہ۔

جب تربیتی کورس کے اختتامی دن ان کے والد کے انتقال کی خبر کے حوالے سے ان کی غیر حاضری، سب کے لئے ایک پسندیدہ تخلیق کار سے نہ ملنے کی خلش کا ماحول پیدا کر ہی تھی، اس وقت یہ، حیرت انگیز خوشی میں تبدیل ہو گئی جب معلوم ہوا کہ وہ اپنے والد کی آخری رسومات سے فارغ ہو کر، دوپہر بعد تربیتی کورس کی طے شدہ کارروائیوں میں حصہ لینے کے لئے موجود ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments