کیا ’کساد بازاری‘ اب ناگزیر ہے؟ چار ماہرین معاشیات اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

آتاہولپا امرائز - بی بی سی نیوز منڈو


Recesión
زیادہ سے زیادہ ماہرینِ معاشیات آج کل کساد بازاری پر بات کرتے نظر آتے ہیں۔ کورونا وائرس کے باعث معاشی صورتحال کی بدحالی، سپلائی چین میں رکاوٹوں اور یوکرین پر روسی حملے سمیت کئی عوامل نے افراط زر کو ایک ایسی سطح تک پہنچا دیا ہے جو دہائیوں میں نہیں دیکھی گئی۔

اس پر قابو پانے کے لیے بینک شرح سود میں اضافہ کر دیتے ہیں مگر سٹاک مارکیٹ (خاص کر امریکی سٹاک مارکیٹ) کا بار بار زوال اور دوسرے اشارے سرمایہ کاروں کے عدم اعتماد کی عکاسی ہیں۔

اور بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ آنے والے دنوں میں کساد بازاری کا اشارہ ہے: معاشی سرگرمیوں میں مندی یا کل پیداوار میں کمی کی بار بار آنے والی مدت۔

تکنیکی طور پر جی ڈی پی میں لگاتار دو سہ ماہیوں تک مندی کو مسلسل کساد بازاری کا نام دیا جاتا ہے۔

فنانشل ٹائمز اور یونیورسٹی آف شکاگو بوتھ کے ایک حالیہ سروے کے مطابق امریکہ میں 10 میں سے سات معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اس سال یا اگلے سال تک آئے گی۔

یہ سروے جون کے اوائل میں بلیک ویک اور نئے نرخوں میں اضافے سے پہلے کیا گیا تھا اس لیے تناسب بڑھنے کا امکان ہے۔

کساد بازاری کے نتائح سنگین ہو سکتے ہیں: سرمایہ کاری، کھپت اور لین دین کا خاتمہ، کمپنیوں کی بندش، ملازمتوں میں بڑے پیمانے پر کٹوتیوں اور قرضوں کی ادائیگی میں ناکامی کا سبب بنتا ہے جس سے بہت سے افراد اور کمپنیاں دیوالیہ ہو سکتی ہیں۔

بی بی سی منڈو نے چار ماہرین معاشیات مستقبل قریب میں امریکہ اور دنیا میں کساد بازاری کے متعلق بات کی ہے۔

سنہ 2023 میں 65 فیصد امکان‘

David Wessel, economista

David Wessel

ڈیوڈ ویسل، بروکنگز انسٹی ٹیوشن (واشنگٹن ڈی سی) میں مالی و مالیاتی پالیسی کے ڈائریکٹر کہتے ہیں کہ کساد بازاری کی پیش گوئی کرنا مشکل کام ہے۔ عام طور پر کساد بازاری کسی ایسے حالات کے بعد آتی ہے جس کا کسی نے تصور بھی نہ کیا ہو۔ بعض اوقات ماہرین مکمل یقین کے ساتھ کساد بازاری کی پیش گوئی کرتے ہیں مگر ایسا ہوتا نہیں۔

’تاہم میں 2023 میں امریکہ میں کساد بازاری کا کافی حد تک امکان دیکھ رہا ہوں، تقریباً 65 فیصد امکان۔‘ اس کی وجہ؟ فیڈرل ریزرو (فیڈ) کے چیئرمین جے پاول نہیں چاہتے کہ کوئی بھی پیش رفت ان کوششوں پر پانی پھیر دے جو ان کے پیشرو مہنگائی کو کم کرنے میں کر چکے ہیں۔

’فی الحال فیڈ کو واضح طور پر مانگ میں کمی لانے، قیمتیں بڑھانے پر دباؤ کو روکنے اور افراط زر کی وجوہات پر قابو پانے کے لیے شرح سود بڑھانے کی ضرورت ہے۔‘

تاہم کسی وقت میں فیڈ کو مزید فیصلے کرنے کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے، چاہے وہ شرح سود کو مزید بڑھانا ہو یا اسے منجمد کرنا ہو، کیونکہ معیشت سست پڑے گی اور افراط زر میں کمی ہو لیکن یہ سب بھی دو فیصد ہدف سے کم ہوتا ہے۔

ان میں سے کسی بھی صورتحال پر اچھے دلائل دیے جا سکتے ہیں لیکن میں توقع کرتا ہوں کہ امریکی فیڈرل ریزرو اس میں نرمی کرنے کی بجائے مزید سختی کرے گا لہذا ملکی معیشت میں کساد بازاری بڑھے گی اگرچہ وہ معتدل ہو گی۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘میں امید کرتا ہوں کہ میں غلط ہوں کہ عالمی سطح پر سپلائی چین کے تمام مسائل حل ہو گئے اور کورونا وبا کے عالمی معیشت پر پڑنے والے اثرات ختم ہو گئے اور ہمیں ( اور فیڈرل ریزرو) کی قسمت اچھی نکل آئے لیکن میرا نہیں خیال ایسا نتیجہ نکلے گا۔’

‘اگلے سال کے اوائل میں’

Gabriel Gasave, economista

Gabriel Gasave

امریکی ریاست کیلیفورنیا میں ایلنڈیپنڈنٹ ڈاٹ او آر جی نامی ویب سائٹ کی ڈائریکٹر اور انڈیپنڈنٹ انسٹی ٹیوٹ کے سینٹر فار گلوبل پراسپیرٹی کی ریسرچ ایسوسی ایٹ گیبریل گیساوے اس بارے میں کہتی ہیں کہ 'میں یہ کہنے کی جسارت کرتی ہوں کہ سنہ 2023 کے آغاز میں کسی وقت ہمیں یورپ اور امریکہ میں واضح کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔'

‘ وہ کہتی ہیں کہ یہ کورونا وبا کے اثرات، اس کے باعث طلب و رسد میں فرق اور رکاوٹوں، روس کے یوکرین پر حملہ کرنے، غذائی قلت یا توانائی کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے نہیں ہو گا بلکہ اگر اسے آسٹریلوی نظریہ معیشت کے الفاظ میں کہیں تو یہ بنیادی طور پر حکومتوں کی جانب سے معیشت کی فرضی توسیع کے باعث پیدا ہونے والی معاشی ترقی کا رحجان ختم ہو جائے گا۔ یہ تیزی ختم ہو جائے گی اور پیداواری سطح گرنے سے معاشی بحران پیدا ہو گا۔

فی الحال، جب مغربی ممالک میں موسم گرما کی آمد ہو چکی ہے تو میرا خیال یہی ہے کہ معاشی میدان میں درمیانی درجے کی نقل و حرکت جاری رہے گی۔

اس دوران لوگ سفر بھی کریں گے، پیسے خرچ کریں گے اور اکثر لوگ اس اضافی پیسے سے لطف اندوز بھی ہوں گے جو حکومتیں وبا کے دنوں میں لوگوں کو دیتی رہی ہیں۔ لیکن کوئی بھی پارٹی ہمیشہ جاری نہیں رہتی، بالکل اسی طرح جیسے کوئی بھی کھلاڑی طاقت بڑھانے والی ادویات کے سہارے ہر میچ نہیں جیت سکتا۔

آخر وہ وقت آ ہی جائے گا جب حالات واپس اپنی جگہ پر آ جائیں گے اور صورت حال ویسی ہی ہو جائے گی جو حکومتی امداد سے پہلے تھی۔ اس لیے حقیقت سے آنکھیں چرانا کوئی اچھی چیز نہیں اور بہت سے ماہرینِ معاشیات کے مطابق ایمانداری کی بات یہی ہے کہ دنیا معاشی بدحالی کے دور سے گزر رہی ہے۔

یہ بات بھی سچ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب امریکہ میں قرضوں کے عوض اچھا منافع مل رہا ہے، ایسے میں دیگر ممالک کے سرمایہ کاروں کے لیے امریکہ ایک زیادہ پرکشش مارکیٹ ثابت ہو گا۔

اسی لیے ہمارے لیے یہ دیکھنا ضروری ہوگا کہ عالمی سطح پر سرمایہ کس سمت میں جاتا ہے۔

’شاید سال کے اگلے دنوں میں‘

Lindsey Piegza, economista

Lindsey Piegza

لِنڈزی پیاگزا، سٹائفل فائنینشل کی پرنسیپل اکانومسٹ اور سربراہ کہتی ہیں کہ فیڈرل ریزرو نے اپنے اس عزم کا پھر اعادہ کیا ہے کہ وہ افراطِ زر پر قابو پا لے گا، جون میں شرح سود میں اعشاریہ سات پانچ کا اضافہ کرے گا اور پھر جولائی میں ممکنہ طور پر اس میں اعشاریہ سات پانچ فیصد کا نیا اضافہ کر دے گا۔

اگرچہ صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ فیڈرل ریزرو ایسے اقدامات نہیں کر رہا جس سے جان بوجھ کر کساد بازاری پیدا کی جائے، لیکن لگتا یہی ہے کہ اس سال کے آخر تک ترقی کی فتار منفی ہو جائے گی یا حالات اس بھی برے ہو جائیں گے۔

چونکہ ابھی تک سپلائی چین میں گڑ بڑ جاری ہے اور امریکہ کی اپنی سرحدوں سے دور جنگ بھی جاری ہے، امریکی صارفین کی مصیبتوں میں کمی نہیں آ رہی ہے اور انھیں مسلسل مہنگائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اور اب جبکہ فیڈ 4 فیصد کی مجوزہ شرح کے مطابق شرح سود میں اضافہ کر رہا، ایسے میں اسے ایک قدرے کمزور معیشت کو بھی سہارا دینا ہوگا۔

شری سود میں بہت تیز اضافے کی صورت میں اوسط درجے کے شہریوں کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی اور امریکی معیشت کو بھی اس کی قیمت ادا کرنا پڑے اور رسد پر دباؤ کو بھی کم نہیں کیا جا سکےگا۔

آخر کار، ہوتا تو یہی ہے کہ سرمائے کی قیمت میں اضافے سے سرمایہ کاری میں کمی ہو جاتی ہے، جس سے طلب پر دباؤ کم ہو جاتا ہے۔ یہ رجحان پہلے ہی شروع ہو چکا ہے اور مصنوعات کی فروخت میں کمی کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔ لیکن اس سے رسد پر لگی پابندیوں کے اثرات پر قابو پانا اتنا آسان نہیں ہوگا، خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب کورونا کی وبا کو ختم ہوئے زیادہ عرصہ نہ گزرا ہو یا دنیا میں جنگ ہو رہی ہو۔

’ہو سکتا ہے ایسا نہ ہو‘

Andrés Moreno Jaramillo, economista

Andrés Moreno Jaramillo

اینڈریاس مورینو جاراملو، ماہر معاشیات، معاشی مشیر اور سٹاک مارکیٹ کے تجزیہ کار کے مطابق کچھ ماہرین اقتصادیات سمجھتے ہیں کہ شرح سود بڑھ رہی ہے، ہم کساد بازاری میں گھرے ہوئے ہیں، اور ان لوگوں کا خیال ہے کہ یہ چکر واپس آنے والا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا ممکن ہے، لیکن اگر حالات مزید کسی جنگ، اشیاء کی کمی، یا کووڈ میں اضافے سے خراب نہیں ہوتے تو ہو سکتا ہے کساد بازاری نہ ہو۔

ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ واضح ہے کہ امریکہ نے اپنی شرح سود کو بڑھانے میں کافی وقت لیا ہے تاکہ کساد بازاری نہ ہو۔ یہ شرح سود ایک ایسے وقت میں جب معیشت بہت گرم ہو، ہلکی سی کساد بازاری پیدا کر سکتی ہے۔

ملکوں کی معیشت ایک چکر میں چلتی ہے۔ شرح سود اور معاشی کساد بازاری دونوں اس دائرے کا حصہ ہیں، تاہم یہ چیزیں اس وقت تک خطرہ نہیں بنتیں جب تک معیشت میں اچانک کوئی بہت بڑا اتار چڑہاو نہیں ہو جاتا۔

میرا خیال شدید برا وقت گزر چکا ہے اور امریکہ بھی تمام دیگر ممالک کی طرح افراط زر میں اضافے کا شکار ہے۔ اس افراط زر سے کسی حد تک معیشت سست ہو جائے گی، حتی کہ ترقی کی شرح منفی بھی ہو سکتی ہے، لیکن یہ کوئی اتنی بُری بات بھی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments