انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں افغان سفارت خانہ طالبان سے حکم نہیں لیتا ہے


فرید ماموندزے
فرید ماموندزے انڈیا میں افغانستان کی سابقہ اشرف غنی حکومت کے سفیر ہیں
برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے طالبان افغانستان کے مختلف حکومتی اداروں پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ابھی وہاں بہت سے معاملات ابھی واضح نہیں ہیں۔

ملک کے 70 یا اس سے زیادہ سفارتی مشن اب بھی طالبان حکومت سے علیحدہ اور کابل سے فنڈنگ کے بغیر کام کر رہے ہیں کیونکہ طالبان کی حکومت کو ابھی کئی دیگر ممالک تسلیم نہیں کرتے ہیں۔

انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں افغان سفارت خانہ شہر کے ڈپلومیٹک انکلیو کے وسط میں ایک وسیع و عریض کمپاؤنڈ میں واقع ہے۔

جب لوگ اس عمارت میں داخل ہوتے ہیں تو سابق صدر اشرف غنی کی بڑی سی تصویر ان کا استقبال کرتی ہے۔ اشرف غنی گذشتہ اگست میں افغانستان سے فرار ہو گئے تھے جب ان کی مغرب کی حمایت یافتہ حکومت کے خاتمے کے بعد طالبان نے دارالحکومت کابل پر قبضہ کر لیا تھا۔

اشرف غنی کی تصویر سفیر فرید ماموندزئی کے دفتر کی دیوار پر بھی آویزاں ہے اور وہاں جمہوریہ افغانستان کا سیاہ، سرخ اور سبز ترنگا پرچم اب بھی موجود ہے۔

فرید ماموندزئی کہتے ہیں ’طالبان کے ساتھ ہماری بہت ہی کم ہم آہنگی ہے۔‘

بہر حال ان کے دفتر کا عملہ اسی جمہوریہ کے نام پر ویزا اور پاسپورٹ جاری کرنے جیسے کام جاری رکھے ہوئے ہے جس کی خدمت کے لیے انھیں تعینات کیا گیا تھا۔

اقتدار سنبھالنے کے بعد 10 ماہ میں طالبان نے صرف چار ممالک روس، پاکستان، چین اور ترکمانستان میں اپنے سفیر بھیجے ہیں۔ لیکن ان ممالک نے بھی افغانستان کے نئے حکمرانوں کو سفارتی تعلقات کے لیے باضابطہ تسلیم نہیں کیا ہے۔

انڈین حکومت نے دہلی میں افغانستان کے سفارت خانے کو گذشتہ حکومت کی توسیع کے طور پر کام کرنے کی اجازت دی ہے، جیسا کہ اس نے سنہ 1996 اور 2001 کے درمیان طالبان کے پچھلے دور اقتدار کے دوران کیا تھا۔ اس وقت سفارت خانہ سابق صدر برہان الدین ربانی کی حکومت کی نمائندگی کرتا رہا۔

کابل میں اقتدار کی تبدیلی کے باوجود فرید مسٹر ماموندزئی کہتے ہیں کہ سفارت خانہ اب بھی پرانی حکومت کے قوانین اور پالیسیوں پر عمل پیرا ہے جس نے انھیں تعینات کیا تھا۔

طالبان نے گذشتہ سال پورے ملک کا کنٹرول حاصل کر لیا

طالبان نے گذشتہ سال پورے ملک کا کنٹرول حاصل کر لیا

وہ کہتے ہیں ’ہم اب بھی اپنی سابقہ جمہوریہ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ہم [طالبان] سے حکم نہیں لے رہے ہیں۔‘

اگرچہ طالبان دنیا بھر میں افغان مشنز کے کام کاج پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، لیکن وہ ابھی تک ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے، جس کی ایک وجہ پیسے کی کمی بھی ہے۔

جب سے وہ اقتدار میں آئے ہیں افغانستان کی معیشت زوال کا شکار ہے، غیر ملکی امداد ختم ہو گئی ہے اور ملک کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں، کیونکہ بین الاقوامی برادری نے فنڈز کی فراہمی کو انسانی حقوق اور خواتین کے ساتھ سلوک جیسے مسائل پر پیش رفت سے جوڑ دیا ہے۔

فرید ماموندزئی کا یہ بھی کہنا ہے کہ دہلی کے سفارت خانے اور دیگر ممالک میں ان کے بیشتر ہم منصبوں نے کہا ہے کہ وہ صرف ایک شرط پر حکومت کا کنٹرول قبول کریں گے اور وہ شرط یہ ہے کہ طالبان پہلے ایک قومی حکومت تشکیل دیں جو جامع، متنوع اور خواتین کو بنیادی حقوق دیتی ہو۔

اقتدار میں آنے کے فوراً بعد طالبان نے عندیہ دیا تھا کہ وہ خواتین کے حقوق کے لیے زیادہ لچکدار رویہ اپنا سکتے ہیں۔ لیکن پچھلے کچھ مہینوں میں، انھوں نے کئی سخت اقدامات اپنائے ہیں، جن میں خواتین کو چہرے کے پردے کا پابند کرنا بھی شامل ہے۔

گذشتہ ہفتے افغانستان میں دو دہائیوں کے دوران آنے والے مہلک ترین زلزلے میں 1000 سے زیادہ افراد کے ہلاک ہونے کے بعد درجنوں افغان تارکین وطن دہلی میں موجود سفارت خانے کے باغ میں اکٹھے ہو گئے۔

کچھ اپنا کاغذی کام کروانے آئے تھے، کچھ گھر سے آنے والی خبروں کے لیے بے چین تھے۔

فرید ماموندزئی کا کہنا ہے کہ ان کا سفارت خانہ سابق جمہوریہ کے نام پر ویزے اور پاسپورٹ جاری کرنے اور ان کی تجدید کا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ انتہائی اہم کام ہے اور اہم بات یہ ہے کہ طالبان حکام ان دستاویزات کو تسلیم کرتے ہیں۔

خاتون

وہ کہتے ہیں ’[یہاں تک کہ] طالبان کے رہنما بھی جمہوریہ کے پاسپورٹ پر سفر کرتے ہیں کیونکہ دوسرے ممالک طالبان کے جاری کردہ پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات کو تسلیم نہیں کرتے۔‘

اگرچہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد انڈیا سے افغانستان جانے والے لوگوں کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے لیکن بہت سے لوگ اب بھی اپنے اہل خانہ سے ملنے یا اپنی دستاویزات حاصل کرنے کے لیے سفر کرتے ہیں۔

دہلی میں افغان سفارت خانے کا اندازہ ہے کہ انڈیا میں تقریباً 100,000 افغان شہری رہتے ہیں۔ سفیر کا کہنا ہے کہ ان میں سے تقریباً 30,000-35,000 افغان مہاجرین ہیں اور تقریباً 15,000 طالب علم ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

افغانستان: حجاب نہ کرنے والی خواتین کو جانوروں سے تشبیہ دینے پر تنقید

انڈیا اور افغان طالبان میں رابطے کے بعد عبداللہ عبداللہ کی کابل واپسی کتنی اہم ہے؟

انڈین وفد کا دورہ افغانستان: انڈیا کی طالبان سے ’دہائیوں کی دوریاں‘ کم کرنے کی کوشش؟

حیدرآباد اور ممبئی کے شہروں میں موجود سفارتخانے اور قونصل خانے خلا میں کام نہیں کرتے ہیں۔ وہ افغان شہریوں کی شادی اور طلاق کے سرٹیفکیٹ اور پیدائش اور موت کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے سمیت ہر روز کابل میں وزارت خارجہ کے قونصلر ڈویژن کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔

ایک اور مسئلہ جس کے لیے طالبان کے ساتھ سفارتخانے کی قریبی ہم آہنگی کی ضرورت ہے وہ انسانی امداد ہے۔

فرید ماموندزئی کہتے ہیں ‘انڈیا نے زلزلے کے بعد کابل میں امداد بھیجی ہے۔ ہمیں کابل میں دفتر خارجہ کے ساتھ تعاون کرنے کی ضرورت تھی۔’

طالبان

فنڈنگ کی کمی

فرید ماموندزئی کا کہنا ہے کہ غنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے انڈیا میں افغان مشنز کی آمدنی میں نمایاں کمی آئی ہے۔

وہ کہتے ہیں ‘ایک وقت تھا جب یہاں سے کابل کے لیے ہماری ہفتہ وار 10-15 پروازیں ہوتی تھیں۔ بہت زیادہ تجارت تھی۔ ہم پوری طرح سے مشغول اور مصروف رہتے تھے۔ اب ایسا نہیں رہا۔ آمدنی میں 80 فیصد کمی آئی ہے۔’

دیگر ممالک میں بھی یہی صورتحال ہے۔ مئی میں امریکہ نے واشنگٹن ڈی سی میں افغانستان کے سفارت خانے اور نیویارک اور لاس اینجلس میں اس کے قونصل خانوں کا کنٹرول سنبھال لیا کیونکہ مشنز کو ‘شدید مالی بحران کا سامنا تھا جس کی وجہ سے جاری آپریشنز غیر پائیدار ہو گئے تھے۔’

انڈیا میں قرید ماموندزئی اور ان کا عملہ مشن کو جاری رکھنے کے لیے ایک ایک پیسہ جوڑ رہا ہے۔

دہلی میں افغانستان کا سفارت خانہ مرکزی عمارت اور عملے کے کوارٹرز کا مالک ہے، اس لیے اسے کرایہ ادا نہیں کرنا ہوتا ہے۔ وہ ویزا فیس جیسے قونصلر کام کے ذریعے بھی پیسہ کماتے ہیں۔

انھوں نے مزید بتایا کہ دہلی، ممبئی اور حیدرآباد میں 21 افغان سفارت کاروں کی تنخواہوں میں نمایاں کٹوتی کی گئی ہے۔

‘ہم اپنی مادر وطن اور اپنی جمہوریہ کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اور یہ اس کی ایک چھوٹی سی قیمت ہے جو ہم ادا کر رہے ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments