افسانہ: ایک پاگل


میں اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھ رہا ہوں گلی میں بچے کرکٹ کھیل رہے ہیں چچا ارشاد اپنی سبزی کی دکان پر بیٹھا آواز لگا رہا ہے۔ ”تازہ مال تازہ آ گیا جی تازہ مال جلدی آؤ جلدی پاؤ“ لیکن میں جانتا ہوں یہ تازہ مال 4 دن پرانا ہے۔ میں سگریٹ پیتے ہوئے یہ سارا منظر کھڑکی سے دیکھ رہا ہوں۔ سگریٹ ختم ہوئی تو میں بازار کی طرف نکل پڑا ہوں۔

رکشے والا آ کر پاس رکا آئیے صاحب اتنی گرمی میں آپ پیدل چل رہے ہیں بتائیں کدھر جانا ہے چھوڑ دیتا ہوں۔ میں اس رکشے والے کے ساتھ بیٹھ گیا۔

تھوڑے دور جانے کے بعد ۔ صاحب آپ کو پتہ ہے آج دوسری گلی والے ملک بشیر نے خود کشی کر لی ہے، رکشے والا بولا۔

ارے! وہ کیوں؟ میں نے پوچھا۔

صاحب وجہ کا تو نہیں پتہ۔ پھر کچھ باتیں ہوئیں۔ رکشے والے نے میری نوکری کا پوچھا اب اسے اگر کہتا کے میں لکھاری ہوں تو اس کے سر سے بات گزر جانی تھی اس لئے میں نے بات کو ٹال دیا۔ لو آپ کا سٹاپ آ گیا۔ رکشے والا بولا۔ میں اترا اور میرے دماغ میں ایک بات آ رہی ہے بشیر صاحب جن کا ابھی ذکر ہو رہا تھا وہ خود ایک صاف دل اور انتہائی غصے والے آدمی تھے ان کا ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام اقبال تھا۔ بشیر صاحب ایک آفس میں کلرک کی نوکری کرتے تھے لیکن ان کا بیٹا ان کے نقش قدم پر بالکل نہ چلا وہ غلط لوگوں کی سنگت سے بہت بگڑ چکا تھا۔

میں معذرت خواہ ہوں میرے سگریٹ ختم ہو گئے ہیں۔ دکان پر بہت بھیڑ لگی ہے شکر کے دکاندار جاننے والا ہے۔ میں سگریٹ لے چکا ہوں۔ اب چلتے ہیں پھر سے اپنے کردار کی طرف بشیر میاں کا اکلوتا بیٹا جسے حد سے زیادہ لاڈ پیار ملا تھا۔ ایک دن اس نے کسی لڑکی کو راستے میں روک کر اس سے اپنے پیار کا اظہار کر دیا لڑکی کا باپ شام کو بشیر میاں کے پاس پہنچ گیا۔ بشیر میاں بہت شرمندہ ہوئے اور جیسے تیسے کر کے اس مسئلے کو ختم کیا۔

بشیر میاں اس بات سے بالکل بے خبر تھے کہ اس کے لاڈلے اقبال کو نشے کی لت لگ چکی ہے۔ کچھ دن گزر جانے کے بعد بشیر میاں نے اقبال کا رشتہ اس کی کزن سے کر دیا۔ جلد ہی شادی بھی ہو گئی۔ شادی کے بعد حالت بالکل بدل گے تھے۔ بشیر میاں کو اقبال کی سب کرتوتوں کا پتا لگ چکا تھا۔ اقبال رات کو دیر سے نشے کی حالت میں گھر آتا نہ کسی کی بات سنتا گھر سے پیسے نہ ملنے پر چیخ چیخ کر پورا محلہ اکٹھا کر دیتا۔ اب بشیر میاں کو اس بات کا احساس ہو چکا تھا کہ اقبال کی شادی کا قدم ان کا سب سے غلط قدم ہے۔

اب بشیر میاں بھی بہت بیمار رہنے لگے تھے۔ جو بشیر میاں اپنے گاؤں میں بڑے سکون کی اور باعزت زندگی گزار رہا تھا۔ اب اس بیٹے کی وجہ سے وہ اپنا مقام اور کمائی ہوئی عزت کھو چکا تھا۔ میرے بابا جان کہتے ہیں، اولاد انسان کو عروج اور زوال دونوں دکھاتی ہے۔ ان کے مطابق لکھنا کوئی بڑا کام نہیں ہے۔ بس مجھے پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بننا ہے اور میں اپنے بابا کے لیے یہ کروں گا۔ خیر اب بشیر میاں اپنے کمرے کی حد تک محدود رہ گے تھے۔

جب اقبال کی حالت مزید بگڑ گئی تو سب نے مل کے اسے پاگل خانے بھیج دیا۔ اب پاگل خانے میں اقبال کا دوست ایک ناکام عاشق بنا جسے اس کی محبوبہ چھوڑ کر چلی گئی اور یہ اس کے غم میں پاگل ہو گیا۔ اس کا اصل نام اسے خود بھی معلوم نہیں ہاں پاگل خانے میں اسے سب جگنو کے نام سے جانتے تھے۔ وہ اقبال کو کہتا میں نے محبت کرنے کی عمر گالیاں بکنے میں گزار دی اور نوکری کرنے کی عمر محبوبہ کو منانے میں اور اب میرے کھیلنے کی عمر ہے لیکن مجھے یہاں بند کر دیا ہے۔

مہرو میرا انتظار کر رہی ہو گی میں نے اس سے وعدہ کیا تھا میں اس کے لیے گجرے لاؤں گا۔ بشیر میاں کے برداشت سے بات باہر ہوئی اور انہوں نے خود کی جان لے لی۔ سچ کہا تھا بابا نے، اولاد زوال بھی دکھاتی ہے۔ میں سگریٹ پی کر بشیر میاں کے گھر گیا وہاں اقبال کو لایا گیا باپ کے آخری دیدار کے لیے لیکن اقبال مسکرا رہا ہے اور کہتا ہے ابا دیکھ میں بڑا آدمی بن گیا میری حفاظت کے لیے میرے ساتھ پولیس آئی ہے اٹھ ابا دیکھ۔

منظر لطیف
Latest posts by منظر لطیف (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments