ہجرت کے لیے دنیا کے سب سے خطرناک راستے کون سے ہیں؟


ہجرت
اقوامِ متحدہ کے مطابق سنہ 2014 سے اب تک یورپی یونین یا امریکہ پہنچنے کی کوشش میں 50 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک یا لاپتہ ہوئے ہیں
حالیہ دنوں میں دو ہلاکت خیز واقعات میں بین الاقوامی سرحدیں پار کرنے کی کوشش کرنے والے کئی افراد متاثر ہوئے ہیں۔

جمعے کو کم از کم 23 افراد اس وقت ہلاک ہو گئے جب ایک بڑے مجمعے نے مراکش سے سپین کے شمالی افریقی علاقے میلیلا میں ایک باڑ عبور کر کے داخل ہونے کی کوشش کی۔ تین دن بعد امریکی شہر سان انتونیو میں پولیس نے ایک لاوارث ٹرک سے 46 افراد کی لاشیں برآمد کیں۔

دنیا میں ہجرت کے سب سے بڑے روٹس سے لوگوں کی ہجرت میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ کووڈ 19 کی عالمی وبا کے باعث کئی ممالک میں داخلے پر کڑی پابندیاں عائد ہیں۔

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس سے اموات کی تعداد میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے ہجرت (آئی او ایم) کا اندازہ ہے کہ سنہ 2014 سے اب تک تقریباً 50 ہزار تارکینِ وطن یورپی یونین یا امریکہ پہنچنے کی کوشش میں یا تو ہلاک یا پھر لاپتہ ہو چکے ہیں۔ ادارے کا ماننا ہے کہ ہلاک شدگان و لاپتہ افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

مگر تارکینِ وطن کے لیے دنیا کے سب سے خطرناک روٹس کون سے ہیں اور کیوں؟

خطہ وسطی بحیرہ روم

ترک وطن

وسطی بحیرہ روم کے روٹ کو دنیا میں ہجرت کے لیے سب سے خطرناک راستہ تصور کیا جاتا ہے

آئی او ایم کے مطابق یہ تارکینِ وطن کے لیے دنیا کا سب سے خطرناک روٹ ہے۔ اندازہ ہے کہ سنہ 2014 سے اب تک شمالی افریقہ سے یورپی یونین پہنچنے کی خاطر بحیرہ روم عبور کرنے کی کوشش کرنے والے ساڑھے 19 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

یہ سمندر عبور کرنے کی کوشش اکثر بے ڈھنگی اور انتہائی لدی ہوئی کشتیوں میں کی جاتی ہے جس سے یہ سفر خطرناک اور ممکنہ طور پر ہلاکت خیز بھی ہو جاتا ہے۔

یہ کشتیاں عموماً جرائم پیشہ گروہ اور انسانی سمگلر چلاتے ہیں۔

یورپ پہنچنے کے لیے اس روٹ کا استعمال کرنے والے لوگ سفر کی شروعات لیبیا کے ساتھ ساتھ تیونس سے بھی کرتے ہیں جہاں پر سمندر میں ڈوبنے والے افراد کے لیے ایک قبرستان تک معین ہے۔

تیونس سے اپنے سفر کی شروعات کے لیے پرامید نائیجیرین تارکِ وطن وِکی نے اس قبرستان میں خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’میں یہ قبریں دیکھ کر بہت اداس ہو جاتی ہوں۔ جب میں یہ (قبریں) دیکھتی ہوں تو سمندر پار کرنے کا میرا ارادہ پختہ نہیں رہتا۔‘

مگر آئی او ایم جیسے اداروں کو خدشہ ہے کہ دیگر تارکینِ وطن شاید اپنا ارادہ نہ بدلیں۔

آئی او ایم کی ترجمان صفا مسیحلی کہتی ہیں کہ ’اس دوران وسطی بحیرہ روم کے خطے سے تارکینِ وطن کی روانگی جاری ہے۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات دنیا کے اس سب سے خطرناک سمندری راستے پر اموات کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہے۔ ریاستوں کی جانب سے ٹھوس اقدامات کی عدم موجودگی میں یہاں جانوں کا ضیاع جاری ہے۔‘

افریقہ کے اندرونی روٹس

صحارا

افریقہ میں کئی تارکینِ وطن یورپ جانے کی خواہش میں پہلے صحرائے صحارا عبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں

کئی افریقی تارکینِ وطن کے لیے یورپ پہنچنے کا خواب اپنے ہی برِاعظم میں ایک سفر سے شروع ہوتا ہے جس میں صحرائے صحارا کو عبور کرنے کا ایک طویل اور صبر آزما مرحلہ شامل ہے۔ اس صحرا کو عبور کر کے ہی شمالی افریقی ممالک پہنچا جا سکتا ہے۔

سخت موسمی حالات ایک بہت بڑا خطرہ ہیں اور آئی او ایم کا اندازہ ہے کہ سنہ 2014 سے سنہ 2022 کے درمیان صحارا عبور کرنے کی کوشش میں تقریباً 5400 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

ایک تارکِ وطن عبداللہ ابراہیم نے اے ایف پی کو صحارا عبور کرنے کے اپنے تجربے کے بارے میں بتایا کہ ’صحرا میں آپ لوگوں کو مرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ کچھ لوگ تکان کے باعث مر جاتے ہیں تو کچھ لوگ پانی ختم ہو جانے کی وجہ سے۔‘

اس کے علاوہ تارکینِ وطن کو بہت بڑا خطرہ اس خطے میں سرگرم انسانی سمگلروں کے گروہوں سے بھی ہے۔

آئی او ایم نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ ’سمگلروں اور سرحدی حکام کے ہاتھوں تشدد سے بھی صحرائے صحارا میں تارکینِ وطن کے روٹس پر بڑی تعداد میں اموات ہوتی ہیں۔‘

امریکہ میکسیکو سرحد

ترک وطن

امریکہ اور میکسیکو کی سرحد عبور کرنے کی کوشش میں کئی تارکینِ وطن ہلاک ہوئے ہیں

امریکہ اور میکسیکو کے درمیان موجود سرحد ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ یہ خطہ اپنے سخت جغرافیے بشمول صحرائی خطوں کی وجہ سے بدنام ہے اور تارکینِ وطن اکثر سرحد کے ساتھ ساتھ بہنے والے دریا ریو گرانڈے کو عبور کر کے امریکہ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس روٹ پر سب سے زیادہ ہلاکتیں ڈوبنے کے باعث ہوتی ہیں اور آئی او ایم کا اندازہ ہے کہ سنہ 2014 سے اب تک 3000 سے زیادہ افراد اس کوشش میں ہلاک ہو چکے ہیں۔

اور قدرتی خطروں سے بچنے کی کوشش میں گاڑیوں اور دیگر جگہوں پر چھپنے والے افراد کو بھی مختلف خطرات کا سامنا ہوتا ہے، جیسے کہ سان انتونیو میں ہونے والی ہلاکتوں کے معاملے میں ہوا۔

آئی او ایم کی ترجمان صفا مسیحلی کہتی ہیں کہ ’حال ہی میں امریکہ جانے والے روٹس پر اور بھی کئی واقعات ہوئے ہیں جن میں بڑی تعداد میں اموات ہوئی ہیں۔‘

دسمبر 2021 میں میکسیکو کے علاقے چیاپاس میں اس وقت 56 تارکینِ وطن ہلاک ہو گئے جب اُن کا ٹرک حادثے کا شکار ہو گیا۔

صفا کہتی ہیں کہ ’آئی او ایم لاطینی امریکہ سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی جانب ہجرت کے خطرات کے بارے میں تشویش رکھتا ہے۔‘

ایشیائی روٹس

ایشیا

ایشیا میں بھی ترکِ وطن کے کئی روٹس ہیں

آئی او ایم کا کہنا ہے کہ سنہ 2020 میں دنیا بھر میں ترکِ وطن کرنے والے ہر 10 میں سے چار افراد کا تعلق ایشیا سے تھا اور اس برِاعظم میں ترکِ وطن کے کئی اہم روٹس ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے ہجرت کا کہنا ہے کہ ایشیا میں گذشتہ آٹھ برسوں کے دوران ہجرت کی کوشش میں 5000 کے قریب افراد یا ہلاک یا لاپتہ ہوئے ہیں۔

اکثریتی اموات روہنگیا یا بنگلہ دیشی تارکینِ وطن کی ہوئی ہیں جو خلیجِ بنگال یا بحیرہ انڈیمان عبور کر کے قریبی ممالک یا پھر یورپ پہنچنے کی کوشش میں تھے۔

اس سفر میں اُنھیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

محمد الیاس نامی 37 سالہ روہنگیا پناہ گزین نے دورانِ سفر کشتی خراب ہونے پر انڈین بحریہ کے ہاتھوں بچائے جانے کے بعد اے ایف پی کو بتایا ’ہم بھوکے تھے۔ کچھ پی نہیں سکتے تھے کیونکہ پینے کے لیے پانی ہی نہیں تھا۔ کھانا نہیں تھا، چاول نہیں تھے، ہم کچھ نہیں کھا سکتے تھے۔ سمندر میں ایسا تقریباً ایک ماہ تک رہا۔‘

دوسرے روٹس کی طرح یہاں پر بھی تارکینِ وطن کو اکثر انسانی سمگلنگ میں ملوث گروہوں کے ہاتھوں استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ایک اور مشکل روٹ ایران اور ترکی کے درمیان کا روٹ ہے جس پر ہجرت میں گذشتہ برس افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد سے بے نظیر اضافہ دیکھا گیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین افراد (یو این ایچ سی آر) کا کہنا ہے کہ ایران اور قریبی ممالک میں 20 لاکھ سے زیادہ افغان افراد بطور پناہ گزین رجسٹرڈ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments