اودے پور میں ہندو درزی کے قتل کے بعد بین الاقوامی سطح پر ’مذہبی جنونیت‘ کی مذمت


انڈیا میں تنازعات اور تشدد بین الاقوامی برادری کی توجہ حاصل کر رہا ہے۔ حال ہی میں انڈیا کو سفارتی سطح پر بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ نوپور شرما کے پیغمبر اسلام کے بارے میں متنازع ریمارکس بنے۔

بہت سے اسلامی ممالک نے اس پر مذمتی بیانات جاری کیے اور انڈیا سے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ قطر نے انڈیا سے معافی کا مطالبہ کیا۔

جواب میں انڈیا کی جانب سے نوپور شرما کی بی جے پی سے رکنیت کو معطل کر دیا گیا تھا۔

پیر کو محمد زبیر کو، جو کہ فیکٹ چیک نیوز ویب سائٹ ’آلٹ نیوز‘ کے شریک بانی ہیں، گرفتار کر لیا گیا تھا۔ یہ خبر عرب ممالک میں شہ سرخیوں میں دکھائی دی۔

دوحا نیوز نے لکھا کہ منگل کے روز زبیر کی حمایت میں سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلتا رہا۔

قطری نیوز چینل الجزیرہ نے رپورٹ کیا کہ محمد زبیر کو سنہ 2018 میں کی جانے والی ٹویٹ کی وجہ سے گرفتار کیا گیا۔

زبیر کی جانب سے نوپور شرما کے معاملے کو کھل کر اٹھایا گیا تھا۔

پھر بعد میں یہ معاملہ ملک سے نکل کر اسلامی ممالک کے لیے ایک مسئلے کی صورت میں سامنے آیا اور اس کے بعد ایک اسلامی ملک نے انڈیا کے خلاف بیان بھی دے دیا۔

نوپور شرما کے معاملے پر جاری تنازع ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ منگل کو ایک ہندو درزی کو مبینہ طور پر دو مسلمانوں نے اودے پور میں قتل کر دیا۔ اس کی گردن پر وار کیا گیا تھا۔

اس قتل کے بعد ان دونوں افراد نے ویڈیو بنائی اور تسلیم کیا کہ انھوں نے درزی جس کا نام کنہیا لال تھا کو قتل کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ وہ جنھوں نے پیغمبر اسلام کی توہین کی ہے ان کو ایسی ہی سزا ملے گی۔ مقتول درزی پر الزام ہے کہ انھوں نے فیس بک پر نوپور شرما کی حمایت میں پوسٹ لگائی تھی۔

مقتول کنہیا لال کو قتل کرنے کے دعوے دار ریاض اتاری کی عمر 38 برس ہے اور غوث محمد کی عمر 39 برس ہے ان کا تعلق بہلوارا سے ہے۔ راجھستان پولیس نے دونوں ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔

قتل کے اس حالیہ واقعے پر غیر ملکی میڈیا سمیت سوشل میڈیا پر ردعمل آیا ہے۔

امجد مشرق وسطی میں برٹش سینٹر کے مقامی سربراہ ہیں۔ انھوں نے اودے پور میں قتل کے واقعے پر ردعمل میں ایک ٹویٹ میں لکھا۔

’اودے پور میں حملے کو ہندوؤں کو مسلمان دہشت گردوں کی جانب سے نشانہ بنائے جانے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، اس کی مذمت کریں، دہشت گردی کے خلاف لڑنے میں انڈیا کی مدد کریں۔ وہ جنھوں نے ایک شخص کی وجہ سے انڈیا کا بائیکاٹ کرنے کا کہنا تھا کیا وہ انڈیا کے لوگوں سے چاہتے ہیں کہ وہ تمام مسلمانوں کا بائیکاٹ کریں؟ اس کا جواب ہے نہیں۔ ہمیں متحدہ ہونے کی ضرورت ہے۔‘

امجد نے اپنی ٹویٹ کے ساتھ جسٹس فار کنہیا لال کا ہیش ٹیگ لگایا ہے۔

اودے پور میں ہونے والے اس قتل کی خبر عرب میڈیا پر بھی نشر ہوئی۔ العریبہ نے لکھا، اودے پور میں ہندو شخص کے قتل پر کشیدگی۔

’اودے پور میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس بند کر دی گئی ہے۔ پولیس نے قتل میں ملوث دونوں ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔ ہندو شخص کنہیا لال کو ان کی دکان میں ان کی گردن کاٹ کر قتل کیا گیا اور اس کی ویڈیو بھی بنائی گئی۔

بنگلہ دیش سے جلا وطن مصنفہ تسلیمہ نسرین نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ’ریاض اور غوث نے بے رحمانہ انداز میں کنہیا لال کو قتل کیا۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر قتل کی ویڈیو بھی لگائی اور لکھا کہ وہ پیغمبر کی شان کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ یہ جنونیت بہت خطرناک ہے، اب ہندو بھی انڈیا میں محفوظ نہیں ہیں۔‘

اپنی دوسری ٹویٹ میں تسلیمہ نے لکھا کہ ’بنگلہ دیش کے ایک کالج میں ہندو پروفیسر کمار بسواس کو مذہبی جنونیوں نے اس بات پر مجبور کیا کہ وہ جوتوں کا بنا ہار پہنیں۔

انھوں نے ایک ایسے سٹوڈنٹ کی حمایت کی تھی جس نے سوشل میڈیا پر نوپور شرما کی حمایت کی تھی۔ انڈیا میں ہندو ٹیلر کو دو ملاؤں نے اس لیے قتل کیا کیونکہ اس نے نو پور شرما کی حمایت کی تھی۔

جہادی نہ صرف غیر مسلم بلکہ روشن خیال مسلمان اور آزادانہ سوچ رکھنے والوں کا سر قلم کر سکتے ہیں۔‘

پاکستانی صحافی روحان احمد نے اودے پور کے متعلق ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کو ٹویٹ کیا۔ اس ٹویٹ میں انھوں نے لکھا کہ ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق دو لوگوں جنھوں نے اودے پور میں ایک ہندو ٹیلر کو قتل کیا ان کا تعلق دعوت اسلامی سے ہے جو کراچی میں موجود بریلوی جماعت تحریک البیک سے وابستہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments