ہم ترقی یافتہ کیوں نہیں بن سکتے؟


رب تعالٰی بہترین رزق دینے والا ہے مگر اس کے لئے سوائے چند معجزات کے، بہترین کوشش بھی کرنی پڑتی ہے۔ مغرب کی اندھی تقلید میں ہم نے لباس اور دوسری خرافات تو اپنا لیں مگر محنت و دیانت، کوشش و اسباب، تحقیق و تدبیر سے کوسوں دور ہو گئے۔ ہڈ حرام قومیں کبھی ترقی کی میراث تک نہیں پہنچ سکتیں بلکہ آزادی کے باوجود غلامی کا اپنا انتخاب کردہ طوق ان کا مقدر بنتا ہے۔ ذرا ایک لمحے کے لئے رک کر سوچیں کہ کیا پاکستان نے ایٹم بم صرف اللہ سے دعا کر کے بنالیا؟ یا اسے اللہ نے من و سلوی بنا کر آسمان سے زمین پر بھیج دیا؟ یہ تو برسوں کی محنت کا ثمر ہے۔ یہ رب تعالٰی کی غور و فکر اور زمین و آسمان کو مسخر کرنے والی آیات قرآنی کی عملی تصویر ہے۔

اگر ہم نے ایٹم بم بنا لیا تو یقینی طور پر مادی ترقی کی میراث پا سکتے ہیں مگر اس کے لئے ایک مائنڈ سیٹ چاہیے۔ اپنی گندی عادتوں کو ختم کرنے کا مائنڈ سیٹ۔ گندی عادتوں کے مائنڈ سیٹ میں سب سے پہلی عادت اپنے اندر کی خود پسندی کا وہ بت توڑنا پڑے گا کہ میں تو بالکل ٹھیک ہوں، باقی سب گندے اور غلط ہیں۔ یہی عادت سب گندی عادتوں کی ماں ہے جس میں ہم سب لتھڑے پڑے ہیں۔ اسی سے جڑی ایک اور گندی عادت ہمارے اندر کا یہ خناس ہے کہ میں سامنے والے سے برتر ہوں۔

جب کہ برتر وہ ہے جو امانت میں خیانت نہیں کرتا۔ زندگی اللہ کی امانت ہے اور اسے ذہنی اور جسمانی آوارگی میں گزارنا خیانت ہے۔ آخری خطبہ میں رسول کریم ﷺ کا فرمان کہ اسلام میں فضیلت کا معیار تقوی ہے دراصل اپنے آپ کو رب العزت کی عطا کردہ صلاحیتوں کا صحیح استعمال ہے۔ یعنی انسان خرافات سے بچ کر زندگی گزارے۔ خرافات سے بچ کر زندگی گزارے گا تو تقوی آئے گا۔ تقوی دنیاوی اور آخرت کی زندگیوں کو سنوارنے کا راستہ ہے۔

ہم بغیر کوشش و تدبیر کے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ چونکہ اللہ کا وعدہ ہے آخر تم غالب آ جاؤ گے۔ ہم اللہ کی اس وارننگ کو کیوں بھول جاتے ہیں جس کا مفہوم ہے کہ تم اچھا نہیں کرو گے تو تمہاری جگہ کوئی اور لے لے گا یعنی ہم سے بہتر لوگ لے آئیں گے۔ اس کا مفہوم بالکل واضح ہے کہ یہ سعادت اس کو نصیب ہوگی جو اسباب کی دنیا میں ہو گا نہ کہ کمفرٹ زون میں رہنے والا۔

ترقی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے اپنی اپنی اصلاح۔ اپنا اپنا کام۔ اپنی اپنی ذمہ داری۔ ایک بالکل سادہ سے مثال دیتا ہوں۔ جو لوگ مالی اپنی ضروریات کے لئے رشوت لے کر جہنم خرید رہے ہیں وہ اپنی ضرورت کے لئے اپنا وقت مینیج کر کے جائز ذرائع سے پیسہ کیوں نہیں کماتے؟ اسی طرح کی بے شمار مثالیں ہیں۔ گاڑی میں سے گندی سڑک پر پھینکنے سے اپنے آپ کو روکنے کے لئے ایک شاپنگ بیگ رکھ لینا کون سی راکٹ سائنس ہے؟ ہمیں ترقی کرنے کے لئے اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنا پڑے گا۔

ریسرچ اور ڈیویلپمنٹ کا مائنڈ سیٹ اپنانا ہو گا۔ ہر ادارے کو اپنی حدود و قیود میں کام کرنا ہو گا۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں، دستوری اداروں، عسکری اداروں اور تمام ذمہ دور اداروں کو سیاسی استحکام کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ کسی بھی ملک کی ترقی بغیر سیاسی استحکام کی ممکن نہیں ہوتی۔ ہمیں قرآن پاک کی تسخیر کائنات کی آیات کی عملی تصویر بننا ہو گا۔ صرف مسلمان نہیں، مسلمانوں والے کام بھی کرنا ہوں گے۔

الزام تراشی سے نکلنا ہو گا کہ مغربی طاقتیں ہماری ترقی میں رکاوٹ ہیں۔ مغربی ممالک میں جاکر ڈنڈے کے نیچے رہ کر ترقی کر سکتے ہیں تو یہاں کیوں نہیں؟ ہم کر سکتے ہیں اگر ہم اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کر لیں۔ سیاسی استحکام پیدا کرنے والے تمام ادارے متحد ہو کر صرف پاکستان کا سوچیں۔ اپنا آپ بہتر کرنے سے اسلام سمیت کوئی مذہب بھی نہیں روکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments