گلگت بلتستان میں خود کشیوں کی لہر


ہمارے پیارے مذہب اسلام کے مطابق خودکشی حرام ہے اور جہنم میں جانے والا عمل ہے

ہم دنیاوی معاملات میں اتنے مگن ہیں کہ ہم اسلامی تعلیمات سے دور ہوتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے ہم میں صبر و تحمل کا مادہ بالکل ختم ہوتا جا رہا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں معلوم ہے کہ ہم نے مرنے کے بعد خدا کو جواب دینا ہے۔ اگر کوئی انسان یہ جانتے ہوئے بھی ایسا انتہائی اقدام اٹھاتا ہے تو ہمیں سمجھنا ہو گا کہ وہ کس حد تک ذہنی اذیت اور تکلیف میں مبتلا تھا کہ اس کو زندگی سے زیادہ موت آسان لگی۔

زندگی کی بھاگ دوڑ میں ہم اتنے آگے نکل رہے ہیں کہ ہم کو خود معلوم نہیں کہ ہم کس سمت میں جا رہے ہیں۔

رواں ماہ کے خودکشی کرنے والوں میں کافی تعداد طلبہ و طالبات کی تھی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم یہ جانیں کی وہ کن وجوہات کی وجہ سے خودکشی کر بیٹھے۔ کیوں وہ اس حد تک دل برداشتہ ہو گئے کہ انھوں نے اپنی زندگی کا ہی چراغ گل کر دیا۔ انھوں نے تو ابھی تک معاشرے کے مسائل کو اتنے قریب سے نہیں دیکھا ان کو کس چیز نے اتنا مجبور کیا کہ وہ اپنی زندگی سے بیزار ہو گئے۔ اس بات پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کے سامنے وہ کون سے حالات پیدا ہوئے تھے کہ انھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ ان خودکشیوں کا ذمہ دار کون ہے۔

ہر خودکشی کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے ہمیں ان وجوہات کو ڈھونڈنا ہے اور ان کی سدباب کے لیے کوشش کرنی ہے۔

گزشتہ روز خبر سنی کہ ضلع ہنزہ ششکٹ سے تعلق رکھنے والی طالبہ نے خود کشی کر لی۔ وہ گھر سے اپنا امتحان دینے گئی پیپر سے واپسی پر اس نے خود کشی کر لی اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر اس کو خودکشی ہی کرنی تھی تو پیپر سے پہلے کرتی بعد میں کیوں کیا۔ اب یہ واقعہ ہمیں یہ بھی سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کہیں نہ کہیں ان خودکشیوں میں ہمارا تعلیمی نظام بھی ذمہ دار ہو سکتا ہے۔

دوسرا ان میں گھر سے کوئی دباؤ یا پریشانی ہو سکتی ہے۔ گھریلو حالات ان کو ذہنی پریشانی میں مبتلا کر سکتے ہیں

کہیں نہ کہیں ان خودکشیوں میں ہمارا معاشرہ بھی شامل ہو سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نے ان پہلوں کو اجاگر کریں اور ان اسباب کے حل کے لئے مل کر کوشش کریں۔

ان حالات میں یہ بات کسی حد تک حوصلہ افزا ہے کی حکومت گلگت بلتستان بھی اس مسئلے کی سنگینی کا ادراک ہوا اور منسٹر سوشل ویلفیئر ر، پاپولیشن ویلفیئر، یوتھ افیئرز کرنل (ر) عبیداللہ بیگ کی سر براہی میں ایک کمیٹی بنائی جو ان خودکشیوں کے اسباب جاننے کی کوشش کرے گی اور ان کی سدباب کے لیے سفارشات پیش کرے گی۔ امید یہ کی جاتی ہے کہ یہ کمیٹی روایتی کمیٹیوں کی طرح محض کاغذی کارروائیوں تک محدود نہیں ہوگی بلکہ عملی طور پر ان خودکشیوں کے اسباب تک پہنچنے کی کوشش کرے گی اور مناسب سفارشات بھی پیش کرے گی۔

انسان اور جانوروں میں صرف فرق احساس کا ہے جو انسان کو انسانیت کے دائرے میں داخل کرتا ہے۔ اگر کسی انسان کے پریشانی پر اگر کسی دوسرے انسان کو فرق نہیں پڑتا تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ بندے میں انسانیت نہیں ہے۔

معاشرے میں انسانیت ختم ہوتی جا رہی ہے جس کی وجہ سی ہمیں کسی کے دکھ درد کا احساس نہیں ہوتا۔ ہمارے پاس اتنا وقت نہیں کہ ہم دو منٹ بیٹھ کر کسی کی پریشانی سنیں اور اس کو حوصلہ دیں یا ہو سکے تو اس کی پریشانی دور کریں جس کی وجہ سے کمزور دل والے اس بات کو برداشت نہیں کر پاتے۔ نتیجہ پھر ہمارے سامنے ایسے بھیانک انجام کی صورت میں آتا ہے۔

وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ہر انسان کو اپنے اپنے حصے کا دیا جلانے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے کہ آگے بھی کوئی ایسے حالات پیدا نہ ہو کہ کسی کو اپنی زندگی کا چراغ گل کرنا پڑے۔

ہماری ایک کوشش سے کسی ایک انسان کی بھی جان بچتی ہے تو اس سے بڑی کامیابی اور کیا ہو سکتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب نے مل کر انسانی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا ہے اور ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہے۔ آئیں آج ہم عہد کریں کہ انسان کی فلاح و بہبود کے لئے ہم سب مل کر کر کام کریں اور اسلامی تعلیمات پر پر عمل کریں تاکہ کی آنے والی نسلوں کو اور ہمارے نوجوان طبقہ کو اس طرح کی غلط اقدامات سے دور رکھنے میں میں اپنا کردار ادا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments