ڈاکٹر خالد سہیل: ایک انسان دوست سے ملاقات


میں اور میرے شوہر احمد تقریباً ساڑھے چار بجے گھر سے نکلے تھے اور جس ایڈریس پر ہم نے جانا تھا، اس پر پہنچنے کا وقت انٹرنیٹ پر پینتالیس منٹ آ رہا تھا۔ رش کا وقت بھی شروع ہو چکا تھا، کہ جب ہر کوئی کام سے فارغ ہو کر اپنے گھر جلد از جلد پہنچے کی کوشش میں ہوتا ہے، اس ہائی وے پر ٹریفک لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی، اور میری بے چینی میں مزید اضافہ ہو تا جا رہا تھا، کہ ہم بروقت پہنچ نہیں پائیں گے۔

آج میں ایک ایسی انسان دوست شخصیت سے ملنے جا رہی تھی، جن کے انسانی نفسیات کے مختلف موضوعات پر لکھے گئے کالم میں آن لائن میگزین ؛ہم سب؛پر پڑھ رہی تھی۔ اور چونکہ میں خود بھی ایک معمولی سا علم رکھنے والی سائیکالوجسٹ ہوں، اور اسپیشل نیڈ بچوں کے ساتھ کام کرتی رہی ہوں، تو ان کی تحریریں پڑھ کر بے شمار سیکھنے کو ملا، بے شک وہ ایک ماہر نفسیات، بہترین لکھاری، انسان دوست اور اعلی پائے کے انسان شناس ہیں، جنہوں نے کسی بھی ذات پات، رنگ نسل کی تمیز کیے بغیر صرف سات پردوں میں چھپے انسان کو پرکھا اور جانا، جو صرف ایک مذہب کو ترجیع دیتے ہیں اور وہ ہے انسانیت، اس شخصیت کا نام ہے، ڈاکٹر خالد سہیل، جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔

وہ اپنی ذات میں بے شمار خوبیاں سمیٹے ہوئے ہیں اور انسانی نفسیات کو تہہ در تہہ پرکھنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے بے پناہ علم کی بنیاد پر مشکل سے مشکل موضوع کو بھی سادہ اور عام فہم انداز میں لکھتے ہیں کہ بات قاری کے دل پر نقش ہو جائے۔ جب ان کے ایک کالم کے توسط سے مجھے پتہ چلا کہ وہ کینیڈا کے ایک خوبصورت شہر ویٹبی (whitby) میں قیام پذیر ہیں تو میں نے دل میں ٹھان لی تھی کہ جب بھی کینیڈا جاؤں گی ڈاکٹر صاحب سے ضرور ملوں گی۔ اب جب کینیڈا جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں پر اور کاموں کے ساتھ ساتھ سر فہرست ڈاکٹر صاحب سے ملنا بھی تھا۔

ان کو میسج کرنے سے پہلے میں شدید کشمکش میں تھی، ایک اضطراری کیفیت تھی ملوں یا نہ ملوں، کیا کروں، لیکن فیصلہ تو کر ہی لیا تھا، لہذا میسج کر دیا کہ میں ٹورنٹو میں ہوں اور آپ سے ملنا چاہتی ہوں۔ اس طرح ان کے ساتھ ملاقات کا وقت طے ہو گیا، اور انہوں نے کہا کہ آپ شام ساڑھے پانچ بجے تک میرے کلینک آ جائے۔ تو اب ہم ان کے کلینک کی طرف رواں دواں تھے۔ لیکن ٹریفک کے اژدھام کی وجہ سے وقت پر پہنچنا نا ممکن نظر آ رہا تھا۔

احمد نے کہا میسج کر دو ہم لیٹ ہو جائیں گے، کیونکہ اس وقت ہائی وے پر بے حد رش ہے۔ ان کا فوراً جواب آ گیا، کوئی بات نہیں آپ آرام سے آئیے میں انتظار کر رہا ہوں۔ میں بے چینی سے پہلو بدل رہی تھی اور احمد مجھے تسلیاں دے رہے تھے کوئی بات نہیں، ڈاکٹر صاحب کو پتہ ہے یہ رش کا وقت ہے، ساتھ ہی ڈاکٹر صاحب کا فون آ گیا، شکر ہے اس وقت نیٹ پر ان کے کلینک تک جانے کا وقت تین منٹ آ رہا تھا، میں نے کہا کہ بس تین منٹ میں ہم آپ کے پاس ہوں گے، انہوں نے کہا بہت اچھا میں کلینک کے باہر کھڑا ہو جاتا ہوں، ہم غلطی سے اگلی سٹریٹ میں مڑ گئے، جونہی اندازہ ہوا کہ آگے نکل آئے ہیں، ہم نے گاڑی واپس موڑی تو ساتھ ہی بائیں ہاتھ ڈاکٹر صاحب کالی پینٹ، کالا سویٹر اور کالا ہیٹ پہنے اپنے کلینک کے سامنے ٹہلتے ہوئے نظر آئے، ہم نے فوراً پہچان لیا اور انہوں نے بھی ہاتھ کے اشارے سے بتایا، گاڑی ادھر پارک کر لیں۔

ہم دھڑکتے دل کے ساتھ گاڑی سے باہر نکلے، احمد بھی نکل آئے اور ڈاکٹر صاحب کی طرف بڑھے، ڈاکٹر صاحب بڑے بے تکلف انداز میں کہا، اوہ عالیہ نذر صاحبہ اور گرمجوشی سے ہاتھ ملایا، میں نے بھی بے ساختہ کہا، آخر کار ملاقات ہو ہی گئی، ڈاکٹر صاحب احمد سے ملے اور پھر ہم لوگ ان کے کلینک کی طرف چل پڑے۔ کچھ لمحے واقعی بے یقینی کے ہوتے ہیں اور میری بھی یہ ہی کیفیت تھی، کلینک کافی بڑا اور خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ ایک کمرے میں ہم بیٹھ گئے، ابتدائی تعارف کے بعد ڈاکٹر صاحب نے احمد کے کاروبار کے بارے میں پوچھا ہم نے کینیڈین امیگریشن کیسے لی، بچوں کے متعلق اور بے شمار موضوعات پر تبادلہ خیال ہوا، پھر ڈاکٹر صاحب نے اپنی تین عدد بیش قیمت کتابیں مجھے بطور گفٹ دیں اور احمد نے جھٹ اس کی فوٹو لے لی۔

میں نے ڈاکٹر صاحب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر صاحب سے باتیں کرتے ہوئے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے وہ ہچکچاہٹ اور اضطراری کیفیت بالکل غائب ہو چکی تھی اور بات چیت بہت نارمل اور خوشگوار ما حول میں ہو رہی تھی۔ جس کمرے میں ہم بیٹھے تھے اس کے وسط۔ میں ایک میز پر بے شمار رنگ برنگے چھوٹے بڑے کچھوے پڑے تھے، میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا، کیا یہ بھی کسی تھراپی کا حصہ ہیں، اس پر وہ مسکرائے اور بولے میرے ساتھ آؤ، وہ ایک کمرے میں لے گئے اور بتایا یہ میرا آفس ہے۔

آفس بھی خوبصورت تھا اور وہاں ان کا ایک عدد پورٹریٹ بھی لگا ہوا تھا جس کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ یہ میرے ایک دوست نے بنایا ہے۔ ان کے آفس کے ٹیبل پر بھی ایک ہلکے بھورے رنگ کا کچھوا پڑا تھا، انہوں نے بتایا کہ یہ میری ایک کلائنٹ کہیں گئی تھی تو وہ میرے لئے گفٹ لائی تھی تو میں نے اپنے ٹیبل پر رکھ دیا اور بطور پیپر ویٹ استعمال کرنے لگا، اب جو کلائنٹ بھی آتا وہ میرے لئے کچھوا لے آتا ان کا خیال تھا کہ کچھوے مجھے پسند ہیں میں بھی چپ رہا اور اب یہ کئی سو اکٹھے ہو چکے ہیں۔

اب جو بچے بھی کلائنٹس کے ساتھ آتے ہیں، وہ ان میں بہت دلچسپی لیتے ہیں، تو میں پھر ان کو اس شرط پر ایک دیتا ہوں کہ اسے توڑنا نہیں، پیار سے رکھنا ہے، اور جب یہ واپس لاؤ گے تو دوسرا دوں گا، اور میں سوچ رہی تھی کہ کتنی خوبصورتی سے وہ بچوں کو چیزوں کی حفاظت کرنا، پیار کرنا سکھا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب وہ بچے ضد کرتے ہیں کہ ہم نے ڈاکٹر ٹرٹل کے کلینک پر جا نا ہے۔

پھر ڈاکٹر صاحب نے کہا، چلیں اب بتائیں آپ لوگ کیا کھانا پسند کریں گے، تو ہم نی کہا جو آپ کھلائیں گے۔ انہوں نے احمد سے کہا اپنی گاڑی ادھر ہی رہنے دیں ہم سب اکٹھے میری گاڑی پر چلتے ہیں، وہ ہمیں ایک افغانی ریسٹورنٹ پر لے گئے جو وہاں سے نزدیک ہی تھا، بقول ڈاکٹر صاحب کے یہ نیا ہی کھلا ہے اور بہت اچھا ہے، اور میں یہاں اکثر آتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے کھانا آرڈر کیا، کھانا واقعی بہت مزیدار تھا۔ کھانے کے دوران بھی ہلکی پلکی گفتگو جاری رہی، وہ بہت پرسکون انداز میں کچھ اپنے بارے میں بتاتے رہے کچھ احمد سے اور مجھ سے پوچھتے رہے، کھانا بہت بے تکلف اور دوستانہ ماحول میں کھایا گیا، ہم تقریباً دو گھنٹے ریسٹورنٹ میں رہے لیکن وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا۔ احمد نے ڈاکٹر صاحب سے درخواست کی کہ کتابوں پر اپنے دستخط کر دیں۔ انہوں نے اپنے دستخط اور دعاؤں کے ساتھ ایک کتب احمد کو دی اور دو مجھے ریں۔

یوں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ خلوص و محبت سے بھر پور اور خوبصورت لمحے گزار کر ، ان کا بے انتہا شکریہ ادا کر کے، ان سے رخصت چاہی اور یوں یہ شام ایک یادگار شام بن گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments