مذہب زندگی گزارنے کا مکمل ضابطہ حیات ہے۔ مغالطہ یا حقیقت


سب سے پہلے ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ضابطہ حیات کا مطلب کیا ہے؟ اس سوال کا جواب جناب مجاہد خٹک صاحب نے کچھ اس طرح دیا ہے :

”مکمل ضابطہ حیات کا مفہوم عموماً اس طرح لیا جاتا ہے کہ انسان کے تمام معاشی، سیاسی، عمرانی، تہذیبی اور نفسیاتی مسائل کا حل ایک مذہب یا کتاب میں موجود ہوں“

مجاہد صاحب مزید لکھتے ہیں کہ یہ ایک غلط تصور ہے۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ ہمیشہ کے لئے انسانی زندگی کے ہر شعبے کو جزئیات سمیت متعین کیا جا سکے۔

یہ ضابطہ حیات والا خیال سید جمال الدین افغانی سے ہوتا ہوا مولانا مودودی صاحب تک پہنچا۔ جن کا خیال یہ تھا کہ مذہب انسان کے تمام مسائل کا حل ہے۔ اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ ان کے بدترین مخالف ملا بھی اپنے ذاتی مفادات کے لیے اور مذہب کو زندگی پر لاگو کرنے کے لیے ان کی بات کا سہارا لے رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح اسلام کو مذہب کی بجائے دین قرار دینے کا کام بھی انہوں نے اپنے مضمون ’مذہب کا اسلامی تصور‘ میں انجام دیا۔

مولانا مودودی صاحب نے مذہب کا سہارا لے کر مذہب سے ایک ماورائی عمارت بنانے کی کوشش کی جو آج کل کے انسان کے سماجی اور دوسرے مسائل حل کر سکے۔ مولانا صاحب کے نزدیک اسلام دیگر مذاہب کی طرح محض ایک مذہب نہیں، جو صرف پوجا پاٹ کے چند طریقوں اور چند رسوم و روایات کے مجموعے کا نام ہو بلکہ وہ ایک دین ہے، جو زندگی کے تمام پہلوؤں میں انسانوں کو رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ ان کی انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی، خاندانی و معاشرتی زندگی ہو یا سماجی، معاشی زندگی ہو یا سیاسی، چونکہ اسلام ایک دین ہے اس لیے اس سے زندگی کے ہر میدان میں رہنمائی ملتی ہے۔

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ”اسلام کا جامع تصور خود مسلم عوام کے ذہنوں سے اوجھل تھا۔ وہ بس نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کو مکمل دین سمجھ بیٹھے تھے“

چھوٹا سا سوال ہے کہ آخر حضرت ابوبکر صدیق سے لے کر آج تک کسی بھی مسلمان حکمران نے یہ جامع تصور نافذ کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ ان سب کے ذہنوں سے یہ کیسے مخفی رہا؟ کسی نے کیوں نہیں اس جامع تصور کو عام مسلمان تک پہنچانے کی جدوجہد کی؟

اسی سلسلے میں جناب عثمان قاضی صاحب کا بھی اسی قسم کا سوال ہے کہ ”مکمل ضابطہ حیات“ والی رمز جبریل امین سے لے کر بیسویں صدی کے وسط تک کسی عالم، محدث، قاضی، خلیفہ، مرشد پر کیوں نہیں کھلی؟ الماوردی سے طوسی تک کسی مفکر نے یہ اصطلاح نہیں برتی، تو مسلمانوں میں یہ خیال اچانک کہاں سے آ گیا؟

مولانا صاحب کے ان افکار کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج کے جدید دور کا پاکستانی مسلم نوجوان شدید قسم کی کنفیوژن کا شکار ہے کہ یہ زندگی گزارنے کا خاکہ اس کے مسائل حل کرنے میں کیوں ناکام ہے۔

مذہب ایک متحجر (جامد) چیز ہے جبکہ دنیا کے مسائل متحرک ہوتے ہیں۔ جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ کیا ہزاروں سال پرانی فقہ کی مذہبی کتابیں آج کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتی ہیں؟

پاکستانی مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ وہ نہ صرف دنیا کے تمام مذاہب کے ماننے والوں سے افضل ہیں بلکہ ان کے مذہب میں ایک مکمل ضابطہ حیات اور زندگی گزارنے کا مکمل نظام موجود ہے اور زندگی کے تمام مسائل کا حل ان کے مذہب میں ہے۔

پاکستانی مسلمان کی حالت اس وقت، پندرہ سو سال پرانے شخص کی طرح ہے جو ٹائم مشین سے دور حاضر میں آ چکا ہے اور اب کمرے میں روشن بلب کو پھونکیں مار مار کر بجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

دنیا کا کوئی بھی مذہب، کسی بھی معاشرے، علاقہ اور زماں و مکاں کے لیے کبھی بھی ضابطہ حیات نہیں رہا۔ ہر مذہب اللہ کی وحدانیت بتانے کے لیے آیا۔ ہر مذہب ایک اللہ اور شرک سے بچانے کی ہدایت دیتا ہے۔ اسی طرح ہمارا مذہب بھی ایک سادہ سا مذہب ہے جس کا بنیادی مقصد ایک اللہ کی وحدانیت کا بتانا ہے اور ایک اللہ کی عبادت کرنی ہے۔ اسے مکمل ضابطہ حیات بنا کر پیش کرنا اور ہر مسئلہ کے حل کے لیے مذہبی کتابیں کھول کر بیٹھ جانے کا مطلب ہے کہ پوری دنیا اور خاص کر ہماری آج کی نوجوان مسلم نسل کے لیے مذہب ایک مذاق بن جاتا ہے۔

یہ بات سمجھنے کی ہے خاص کر ہندی (برصغیر) مسلمانوں کو کہ دنیا کے کسی مذہب میں اتنی مطابقت (compatibility) ہی نہیں کہ وہ آج، کل یا پھر آئندہ کے انسانی مسائل کا حل پیش کر سکے۔

اگر مسلم تاریخ پڑھی جائے تو پچھلے پندرہ سو سال میں رسول پاک ﷺ کی وفات کے بعد ایک ملک بھی ایسا نہیں جہاں پر مذہب اور مکمل ضابطہ حیات کی بنیاد پر کوئی حکومت بنی اور چلی ہو۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذہب کے آنے کا مقصد کیا ہے؟

اس سوال کا جواب مولانا ابوالکلام آزاد صاحب اور مولانا وحید الدین صاحب نے بہت بہترین انداز میں دینے کی کوشش کی ہے :

مولانا ابوالکلام آزاد صاحب کا کہنا ہے کہ

”یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ انبیاء کی بعثت کا مقصد سیاسی و معاشرتی مقاصد ہیں۔ انبیاء کی بعثت کا مقصد روحانی زندگی کی پاکیزگی اور معنوی نجات کا حاصل کرنا ہے۔ روحانی پاکیزگی کا اثر ہماری زندگی کے تمام اعمال پر پڑتا ہے لیکن وہ اثر بالذات نہیں بالغیر ہے۔ مذہب کی تعلیم کا اصل مقصود روحانی نجات ہے۔ اس چیز کو سامنے رکھ کر معاملے پر غور کرنا چاہیے ورنہ سخت الجھاوٴ پیدا ہوں گے“ (نومبر 1956، ایک خط کے جواب میں )

(افادت آزاد، صفحہ 196، سن تحریر نومبر 1956 )

مولانا ابوالکلام آزاد صاحب ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ ”حدیث انسانی سوسائٹی کے لیے قانون کا سوتا نہیں ہو سکتی۔ عالمگیر ہدایت کا ضامن قرآن ہے اور قرآن (نظام حیات نہیں دیتا) بلکہ معدودے چند قوانین کا حامل ہے۔ اس لیے کہ کوئی قانون بھی اختلاف ازمنہ و حالات کی وجہ سے ساری دنیا پر نہ نافذ ہو سکتا ہے نہ مفید ہو سکتا ہے۔“

اسی قسم کا موقوف مولانا وحید الدین صاحب کا بھی ہے :

مولانا وحید الدین خان نے اپنی مشہور کتاب ”تعبیر کی غلطی“ (جو غالباً 1963 میں شائع ہوئی) میں ٹھیک یہی موقف اختیار کیا ہے کہ مذہب کا مقصد سیاسی، معاشی یا معاشرتی نظام قائم کرنا نہیں ہے۔ بلکہ اس کا اصل مقصد تزکیہ نفس و روحانی پاکیزگی و روحانی نجات ہے۔

ہاں جن صوفیاء کو کچھ لوگ اپنا سب کچھ مانتے ہیں ان سب کا بھی یہ ہی کہنا ہے کہ ”خدا کا مذہب کے لانے کا مقصد ایک ہی ہے کہ اس سے انسان کے اندر روحانی پاکیزگی اتی ہے جس کی وجہ سے تزکیہ نفس و روحانی نجات ہوتی ہے“

جناب گل رحمان صاحب اپنی ایک تحریر میں خضر یاسین صاحب کا فرمان کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ”اگر رسول پاک ﷺ نے قرآن کی آیات سے فلسفہ و کلام، فقہ حنفی و حنبلی، قانون مغربی و مشرقی، سیاسیات و عمرانیات قدیم و جدید، سائنس و آرٹس اور لسانیات و تصوف کے افکار برآمد کیے ہیں تو آپ بھی ضرور کریں۔ اور اگر ان کے لیے یہ کتاب جن معنوں میں صرف ہدایت کے لیے تھی تو اپ بھی قرآن کو انہی معنوں میں کتاب ہدایت ہی رہنے دیں۔“

محترم ارشد محمود صاحب نے اپنے ایک مضمون میں اسلام کے بارے میں کچھ اس قسم کی تشریح کی ہے، ”اسلام ہدایت، نصیحت اور خیر خواہی ہے۔ اسلام نے کوئی ضابطہ دیا ہے نہ ہی کوئی نظام“

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ”اسلام نہ کسی کی تہذیب کو ختم کرنے کے درپے ہے نہ کسی نظام کو۔ نہ اس کا مقصود یہ ہے کہ عرب کلچر ساری دنیا میں رائج ہو جائے نہ وہ کسی خاص رہن سہن اور تہذیب کا علمبردار ہے جو باقیوں کو مٹا کر غلبہ چاہتا ہے۔ وہ حریف نہیں ایک خیر خواہ ہے۔ ساری دنیا کا خیر خواہ۔ تمام تہذیبوں کا خیر خواہ۔ وہ کسی کو مٹانے نہیں آیا۔ وہ تزکیہ کرنے آیا ہے“

ایک سوال اور بھی ہے کہ جو فرقے اسلام کی بنیادی چیز کلمہ، نماز، اذان، زکوٰۃ، روزہ پر متفق نہیں ہیں، ایک دوسرے کو اپنی مسجدوں میں برداشت نہیں کر سکتے، وہ کیسے ایک اسلامی نظام کے ذریعے پوری دنیا اسلام کے نام پر چلائیں گے؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ جو ملا ہر نئی آنے والی ایجاد پر پہلے کفر کا فتوی لگاتے ہیں (پرنٹنگ پریس، ریڈیو، ٹی وی، ڈش، انٹرنیٹ، کیبل ٹی وی، موسیقی، کیمرہ، تصویر، فلم وغیرہ) اور کچھ عرصے بعد اسے حلال قرار دے کر خود بھی استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں تو ان کا بنایا ہوا خود ساختہ صدیوں پرانا سسٹم کیسے نئی نئی ایجادات اور سسٹمز کا سامنا کر سکے گا؟

مذہب کو ضابطہ حیات بنانے کا مطلب ہے کہ اب انسان نے اپنے ہر مسئلہ کے حل کے لیے یا تو خود کوئی مذہبی کتاب کھولنی ہو گی یا پھر کسی ملا سے پوچھنا ہو گا

پہلا سوال یہ ہے کہ بیماری کے دوران خون کی ضرورت پڑتی ہے تو کیا ملا سے پوچھیں کہ ڈاکٹر سے یا کوئی مذہبی کتاب کھول کر دیکھیں کہ خون چڑھا سکتے ہیں یا نہیں؟ انسان کے کتنے بلڈ گروپ ہیں، کیا یہ ملا بتائے گا یا کوئی سائنٹسٹ یا کوئی روایتیں؟ دل یا کسی اور عضو کا ٹرانسپلانٹ کرنا ہے تو ڈاکٹر سے پوچھیں یا ملا سے یا کسی روایات سے مدد لیں؟

دوسرا سوال ہے کہ اگر ہماری گاڑی خراب ہو گئی ہے یہ ملا ہمیں بتائے گا کہ کیسے ٹھیک کرنی ہے یا ایک انجینئر؟ گھر کا نقشہ ملا بنائے گا یا کسی آرکیٹیکٹ سے مشورہ کریں؟

تیسرا سوال ہے کہ کیا آج سے دو ہزار سال پہلے بینکس یا کرنسی یا فائنانس کے ادارے موجود تھے کہ مذہب بتاتا کہ اس کو کیسے ہینڈل کرنا ہے؟

مختصراً یہ ہی کہنا ہے کہ دنیا کے کسی بھی مذہب کے پاس زندگی گزارنے کا مکمل ضابطہ حیات نہیں ہے۔ کیونکہ ہزاروں سال پرانے مذہب کو آج کل کی زندگی کے مسائل کا کوئی ادراک ہی نہیں ہے۔

اس مضمون کے مدعا کو ان لوگوں کو سمجھانا بہت مشکل ہے جن کی انکھوں پر عقیدت کا پردہ چڑھا ہوا ہے اور عقیدت کی چھڑی اتنی تیز ہوتی ہے جو انسان کی عقل کی شہ رگ کو کاٹ ڈالتی ہے۔

حرف آخر :

ہمارا مذہب اسلام ایک سادہ سا مذہب ہے جس کا بنیادی مقصد اللہ کی وحدانیت کا بتانا ہے اور ایک اللہ کی عبادت کرنی ہے۔ اور اگر ایک انسان اس کو اپنی اصل روح (اللہ کی وحدانیت ) کے ساتھ اپنا لے تو اس کی زندگی میں سے شر ختم ہو کر اس میں طمانیت اور آسودگی آ جائے گی۔

یہ مضمون ہمایوں تارڑ صاحب اور گل رحمان ہمدرد صاحب کی ایک ایک تحریر سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہے۔ ارشد محمود صاحب، مجاہد خٹک صاحب اور گل رحمان صاحب کا شکریہ کہ ان کی تحریروں کی وجہ سے یہ مضمون مکمل ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments