اسلم قریشی کو ہم نے سرحد پار چھوڑا


الم نگار نے مولانا اسلم قریشی پر دو اقساط میں کالم لکھ کر یادوں کے دریچے کھول دیے۔ وہ کیا ہی ہنگامہ خیز دور تھا۔ مولانا اسلم قریشی صاحب کے متعلق روزانہ نئی نئی خبریں آتی تھیں۔ پورے پاکستان میں اور خاص طور پر سیالکوٹ میں ایسے معلوم ہوتا تھا کہ زندگی کا سب سے اہم مسئلہ مولانا صاحب کی گمشدگی کے متعلق بات کرنا ہے۔ کسی چائے خانے، تھڑے، دکان، کھوکھے پر کھڑے ہو جائیں کوئی نہ کوئی اس موضوع پر بات کرتا مل جاتا۔

پاکستان بھر میں اور خاص طور پر سیالکوٹ میں احمدیوں کو اپنی زندگی اجیرن بنتی دکھائی دے رہی تھی۔ ہر احمدی کو ایسے ہی محسوس کروایا جانے لگا تھا کہ گویا مولانا کے اغوا میں سب سے بڑا کردار وہی ہے۔ ہر ختم نبوت کانفرنس اس موضوع سے سجتی تھی۔ گاؤں اور شہر کا ہر چھوٹا بڑا مولوی اور خطیب اس اہم موضوع پر درس اور خطبات میں بات کرنا نہیں بھولتا تھا۔

”معراج کے“ گاؤں جو انڈین بارڈر کے بالکل قریب ہے میں ہی مولانا صاحب فروری 1983 میں آخری بار دیکھے گئے تھے۔ معراج کے میں احمدیہ جماعت کے صدر اغوا کے نامزد ملزموں میں سے تھے۔ معراج کے گاؤں میں آئے روز تفتیشی افسران کا آنا اور تفتیش کرنا ایک معمول ہو چلا تھا۔ ایسی ہی فلمی انداز میں ہوئی ایک تفتیش کا کچھ احوال بیان کرنا مقصود ہے۔ تفتیش کے لئے کسی بڑے افسر کی گاؤں میں آمد کی خبر تھی۔ علاقے بھر میں اعلان ہو چکا تھا کہ فلاں دن اور فلاں وقت انکوائری آئے گی۔

اعلیٰ افسران سے تمغہ حسن کارکردگی لینے کے خواہش مند چھوٹے تفتیشی افسروں نے ایک اسٹیج سجا لیا تھا۔ ایک پرانے عادی مجرم کو کسی لالچ یا اپنے منجھے ہوئے ”طریقہ کار“ کو اپناتے ہوئے اعتراف کروا لیا تھا کہ وہ معراج کے کے احمدی ڈاکٹر مشتاق صاحب کے ساتھ اغوا میں شامل تھا اور دونوں نے مل کر مولانا اسلم قریشی کو اغوا کیا اور بارڈر کراس کروا دیا۔ چنانچہ وہ شخص اس بات پر راضی ہو گیا کہ انکوائری کے وقت وہ ایسی ہی گواہی افسران بالا کے سامنے دے گا۔ اس گواہی کے بعد اس کو ریلیف دیے جانے کا وعدہ پورا کیا جانا تھا۔ انکوائری کا وقت آ گیا۔ گاؤں میں لوگ جمع ہو گئے۔ بڑے افسران بھی آ گئے۔ آج ہمیشہ کے لئے یہ معاملہ حل ہونے والا تھا کہ ملزمان اعتراف جرم کرنے والے تھے۔ چھوٹے تفتیشی نے ”اغوا کار“ پیش کر دیا۔

افسر نے پوچھا کہ سنا بھئی تم نے اسلم قریشی کو کیسے اغوا کیا۔ تو اس نے مجمع کے سامنے اونچی آواز میں کہا کہ

صاحب! اسلم قریشی کا دایاں بازو ڈاکٹر مشتاق نے پکڑا تھا اور بایاں میں نے پکڑا تھا اور ہم دونوں نے مل کر انہیں باڈر کراس کروا دیا۔

تو پھر کیا ہوا؟ افسر نے رعب سے پوچھا
”صاحب! اس سے آ گئے تو تفتیشی نے مجھے کچھ بتایا ہی نہیں۔ “
اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

آہ! اس زمانے میں پھر بھی کچھ شرافت ابھی باقی تھی۔ اس عادی مجرم نے تختہ مشق بننا پسند کر لیا لیکن بے گناہ کے خلاف جھوٹی گواہی نہ دی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments