مون سون پاکستان میں داخل: معمول سے زیادہ بارشیں کیوں متوقع ہیں؟

محمد زبیر خان - صحافی


بارش

محکمہ موسمیات پاکستان کے مطابق مون سون اپنے معمول سے تقریباً دو دن پہلے یعنی 30 جون کو پاکستان میں داخل ہو چکا ہے۔ اس دوران چار جولائی تک تقریباً پورے پاکستان اور تقریباً تمام بڑے شہروں میں پانچ جولائی تک موسلا دھار بارشوں کی توقع کی جا رہی ہے۔

بڑے شہروں مثلاً کراچی، لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد سمیت دیگر اضلاع میں اربن فلڈنگ کے علاوہ سمندر میں طغیانی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق بحیرہ عرب اور خلیج بنگال سے مرطوب ہوائیں 29 جون سے ملک کے بالائی علاقوں میں داخل ہو چکی ہیں جس کی بناء پر کہا جا رہا ہے کہ مون سون اپنے معمول سے پہلے پاکستان میں داخل ہو چکا ہے۔

مون سون کا یہ سلسلہ جولائی کے شروع کے دونوں اور رواں ہفتے کے آخر میں ملک کے جنوبی علاقوں میں زیادہ شدت اختیار کرنے کے بعد پھیل سکتا ہے۔

ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے علاقے

محکمہ موسمیات کے مطابق دو سے چار جولائی کے دوران اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور فیصل آباد میں جبکہ تین سے پانچ جولائی کے دوران کراچی اور حیدرآباد میں موسلادھار بارش کے باعث نشیبی علاقے زیر آب آنے کا خطرہ موجود ہے۔

اسی طرح پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر، خضدار، لسبیلہ، نصیر آباد، آواران، بارکھان اور کوہلو کے مقامی ندی نالوں میں طغیانی کا خدشہ ہے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق کشمیر، گلیات، مری، گلگت بلتستان، کوہستان اور کچھ بالائی اور پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کا خدشہ بھی موجود ہے۔ تیز ہواؤں کے باعث کمزور انفراسٹرکچر کو نقصان کا بھی اندیشہ ہے۔

بارش

ممحکمہ موسمیات کے مطابق اس دوران مسافر اور سیاح محتاط رہیں۔ سمندری علاقے میں تین سے پانچ جولائی کے دوران تلاطم خیزی کا خدشہ بھی موجود ہے۔

’پہلا سپیل شدید ہو گا‘

محکمہ موسمیات لاہور کے ریجنل ڈائریکٹر محکمہ موسمیات چوہدری محمد اسلم کے مطابق تقریباً تین ماہ کے مون سون کو دو حصوں میں تقسیم کر رہے ہیں جس میں پہلا حصہ جو کہ قبل از وقت شروع ہو چکا ہے 15 اگست تک جائے گا جبکہ دوسرا حصہ 16 اگست سے لے کر 30 ستمبر تک جائے گا۔

چوہدری محمد اسلم کے مطابق پاکستان میں عموماً مون سون تین ماہ ہی پر مشتمل ہوتا ہے۔ اُن کے خیال میں 15 اگست تک بارشوں کا سلسلہ زیادہ رہے گا جس دوران بارشوں کے متعدد سپیل وقفے وقفے سے ہو سکتے ہیں۔

اُنھوں نے بتایا کہ اب جو توقع کی جا رہی ہے اور جو سپیل شروع ہونے جا رہا ہے اس میں توقع ہے کہ بارشیں موسلادھار ہوں گی اور یہ بارشیں لاہور اور پنجاب کے بیشتر علاقوں میں ہو سکتی ہیں۔

چوہدری محمد اسلم کے مطابق لاہور میں پری مون سون کا ایک ہی سپیل ہوا مگر وہ سپیل بھی شدید تھا۔ لاہور میں جون کے ماہ میں اوسطاً 75 ملی میٹر بارش ہوتی ہے جبکہ اس دفعہ یہ 144 ملی میٹر تک پہنچ گئی تھی۔

بارش

ان کا کہنا تھا کہ مون سون کی ان بارشوں کے نتیجے میں اربن فلڈنگ کے خدشات موجود ہیں اور اس دوران تیز ہواؤں چلنے کے امکانات موجود ہیں۔ جس سے درخت اکھڑ سکتے ہیں جبکہ کمزور انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

کراچی محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سردار سرفراز کے مطابق پری مون سون کے دوران کراچی میں بارش کا ایک ہی سپیل ہوا تھا جو کہ معمول سے زائد نہیں تھا۔

اُنھوں نے کہا کہ مون سون کے اس سپیل کے دوران جو دو جولائی سے لے کر پانچ جولائی اور پھر ایک دو دن وقفے کے بعد سات اور آٹھ جولائی سے دوبارہ شروع ہو سکتا ہے، وہ کافی زیادہ بارشوں کی توقع کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر علاقوں میں اربن فلڈنگ کے خدشات موجود ہیں۔ کراچی کے نچلے علاقے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔

ڈاکٹر سردار سرفراز کے مطابق مون سون کے دوران سمندر میں ویسے بھی ہوائیں زیادہ چلتی ہیں اور معمول کے باقی مہینوں سے تھوڑا زیادہ بپھرا ہوا ہوتا ہے۔ اُن کے مطابق اب اس وقت سمندر معمول سے زیادہ بپھرا ہوا محسوس ہو رہا ہے اور اس دوران کچھ دنوں کے لیے طغیانی کا خدشہ بھی موجود ہے۔

بارشوں کے معمول سے زائد ہونے کی وجوہات

ڈاکٹر سردار سرفراز کے مطابق جنوبی ایشیا کی مون سون بارشیں مقامی موسمی صورتحال کے زیر اثر نہیں بلکہ عالمی موسمی صورتحال کے زیر اثر ہوتی ہیں، اس کی متعدد اور بالخصوص دو وجوہات ہو سکتی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اگر بحر الکاہل کا درجہ حرارت معمول سے کم ہو تو جنوبی ایشیا میں بارشیں اوسط سے زیادہ ہوتی ہیں۔ اس وقت بحر الکاہل کا درجہ حرارت معمول سے کم چل رہا ہے۔ اسی طرح بحرِ ہند کا درجہ حرارت بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ وہاں پر اگر درجہ حرارت معمول پر ہو تو بارشیں زیادہ ہوتی ہیں۔ اس وقت وہاں پر درجہ حرارت معمول پر ہے۔

ڈاکٹر سردار سرفراز کہتے ہیں کہ یہ دو عوامل اور دیگر عوامل کو بھی دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ مون سون کے دوران زیادہ بارشوں کی توقع ہے۔

بارش

چوہدری محمد اسلم کہتے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا کا موسم ایک دوسرے سے ملتا جلتا ہے۔ مون سون بارشیں پہلے انڈیا میں ہوتی ہیں اور وہاں سے پاکستان پہنچتی ہیں۔ اس وقت انڈیا میں بارشیں ہو رہی ہیں جبکہ سردیوں میں پہلے بارشیں پاکستان میں ہوتی ہیں اور پھر انڈیا پہنچتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ شہروں میں اربن فلڈنگ اور پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کے خدشات تو موجود ہیں مگر فی الحال اس سپیل اور ان دونوں میں دریاؤں میں کسی سیلاب کا خدشہ موجود نہیں ہے، بلکہ اس سے پانی کی صورتحال میں بہتری کے علاوہ فصلوں پر اچھے اثرات ہو سکتے ہیں۔

پانی کے ذخائر اور چاول کی فصل

انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے ترجمان محمد خالد ادریس رانا کے مطابق پری مون سون بارشوں سے پانی کے ذخائر پر زیادہ بہتری کی صورتحال پیدا نہیں ہوئی ہے تاہم حالیہ دونوں میں درجہ حرارت بڑھنے سے بہتری پیدا ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سکردو میں درجہ حرارت 36 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا ہے۔ اُن کے مطابق اس درجہ حرارت کی وجہ سے گلیشیئر پگھلنے کی وجہ سے پانی زیادہ ملتا ہے، جس سے پانی کے ذخائر جن میں مجموعی طور پر 46 فیصد تک کمی تھی، اس وقت کم ہو کر 20 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

اُنھوں نے توقع ظاہر کی کہ مون سون بارشوں کے دوران مزید بہتری ہو گی۔

چوہدری محمد اسلم کے مطابق حالیہ دن چاول کی فصل کے دن ہیں۔ اس وقت لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد ڈویژن کے علاوہ دیگر علاقوں میں چاول کی کاشت جاری ہے اور ان بارشوں سے اس فصل کو اچھا فائدہ ملنے کی توقع کی جا رہی ہے۔

شہروں میں اربن فلڈنگ کی ممکنہ صورتحال پر بھی آفات سے نمٹنے کا ذمہ دار ادارہ این ڈی ایم اے تیاری کرنے کے دعوے کر رہا ہے اور اس نے ہنگامی حالات سے نمٹنے اور بر وقت و پیشگی اقدامات اٹھانے کے لیے ہدایات جاری کر دی ہیں۔

اربن فلڈنگ سے نمٹنے کے لیے تیاریاں

این ڈی ایم اے کے ترجمان کے مطابق تمام وفاقی، صوبائی وزارتوں، ان کے ماتحت متعلقہ اداروں بشمول صوبائی، گلگت بلتستان، پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور ضلعی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کو کسی بھی قسم کے ہنگامی حالات سے نمٹنے اور بر وقت و پیشگی اقدامات اٹھانے کے لیے ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔

بارش

پی ڈی ایم اے اور ڈی ڈی ایم اے کو تمام متعلقہ اداروں کے ساتھ رابطے میں رہنے، ایمرجنسی مشینری و عملے کو تیار رکھنے کے ساتھ نشیبی علاقوں کے لیے ڈی واٹرنگ پمپس کی پیشگی موجودگی یقینی بنانے کی ہدایات جاری کر دی ہیں تاکہ موسم کی وجہ سے سیلابی پانی سے نمٹنے کے لیے اقدامات کیے جا سکیں۔

سب سے زیادہ خطرے کے شکار شہر کراچی کے ایڈمنسٹریٹر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب صدیقی اور ان کے ترجمان کے علاوہ کمشنر کراچی نے حفاظتی اقدامات کے حوالے سے اٹھانے جانے والے اقدامات پر کوئی جواب نہیں دیا ہے۔

تاہم مختلف میڈیا اطلاعات کے مطابق کراچی میں خطرے کے شکار علاقوں میں گاڑیوں کو بچانے اور شہریوں کی مدد کے لیے پولیس، ٹریفک پولیس اور امدادی اداروں کی گاڑیاں کھڑی کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے جن میں امدادی کارکن 24 گھنٹے موجود رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments