جبری گمشدگی کے شکار حفیظ بلوچ تمام الزامات سے بری، ’تعلیم کا سلسلہ وہیں سے شروع کرنا ہے جہاں سے منقطع ہوا تھا‘

محمد کاظم - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ


’لوگوں کی زندگی میں سب زیادہ خوشی کا دن ان کی شادی کا یا خاندان میں کسی خوشی کا ہے اور میری زندگی میں سب سے زیادہ خوشی کا دن آج جیل سے رہائی کا ہے۔‘

یہ کہنا تھا قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طالب علم عبدالحفیظ بلو چ کا، جنھیں جمعرات کو بلوچستان کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے دہشت گردی کے مقدمے سے بری کیا ہے۔

رواں سال 15مارچ کو گرفتاری ظاہر کیے جانے کے بعد حفیظ بلوچ ضلع نصیر آباد کے سینٹرل جیل میں تھے۔

عدالت سے بریت کے بعد ان کو جیل سے رہا کر دیا گیا۔

رہائی کے فوراً بعد بی بی سی بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کی پہلی ترجیح تعلیم کا سلسلہ وہیں سے شروع کرنا ہے جہاں سے منقطع ہو گیا تھا۔

حفیظ بلوچ کا کہنا تھا کہ وہ گھر والوں سے ملنے اور چند روز آرام کے بعد قائد اعظم یونیورسٹی میں اپنی تعلیم کا دوبارہ آغاز کریں گے۔ اگرچہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے اپنی پرانی زندگی میں جانا مشکل ہو گا۔

’اس میں کوئی شک نہیں کہ اس واقعے نے مجھے بدل دیا ہے۔ مجھے اپنی پڑھائی تو کیا اپنے بہت سے دوستوں کے چہرے یاد نہیں رہے۔ میرے ذہن میں ہر وقت بس یہی سوال ہوتا تھا کہ آخر میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟‘

’آج میں بہت خوش ہوں‘

انسداد دہشت گردی کی عدالت سے بریت کے بعد جب ان کے وکیل عمران بلوچ کے موبائل فون پر حفیظ بلوچ سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ آج میں بہت خوش ہوں ۔

’میں ایک طالب علم تھا ۔پہلے مجھے لاپتہ کیا گیا۔ اس کے بعد دہشت گردی کا مقدمہ قائم کر کے مجھے سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا۔ یہ میرے لیے ایک اذیت ناک صورتحال تھی جس سے مجھے آج نجات مل گئی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ گرفتاری ظاہر کرنے کے بعد جب میرے خلاف بے بنیاد مقدمہ قائم کیا گیا تو مجھے امید تھی کہ میرے ساتھ اچھا ہوگا کیونکہ میں بے گناہ تھا۔

حفیظ بلوچ قائد اعظم یونیورسٹی میں ایم فل کے طالب علم ہیں اور جب انھیں جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تو وہ اس وقت ایم فل کے فائنل سمسٹر میں تھے۔

انھوں نے بتایا کہ جہاں مجھے ایک اذیت ناک صورتحال سے دوچار کیا گیا اور میری تعلیم بھی بری طرح سے متائثر ہوئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ جیل کے جس بیرک میں ان کو رکھا گیا تھا وہاں ان کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اپنے کورس کی کتابوں کا مطالعہ جاری رکھ سکیں، ’اس لیے 8 فروری کے بعد سے رہائی تک میرا قیمتی وقت ضائع ہو گیا۔‘

یہ بھی پڑھیے

قائداعظم یونیورسٹی کے ’لاپتہ‘ طالبعلم کے خلاف انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت مقدمہ

جبری گمشدگی بغاوت ہے اور اس پر بغاوت کا مقدمہ بنتا ہے: جسٹس اطہر من اللہ

بلوچ طلبا کا احتجاج: ’ماں باپ منتیں کر رہے ہیں کہ گھر مت آؤ، تم بھی لاپتہ یا مار دیے جاؤ گے‘

انھوں نے کہا کہ رہائی کے بعد ان کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ یونیورسٹی جائیں اور اپنی تعلیم مکمل کریں۔

عدم ثبوت کی بنیاد پر رہا کیا گیا

کاﺅنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) بلوچستان نے 15مارچ کو حفیظ بلوچ کی بلوچستان کے علاقے جھل مگسی سے گرفتاری ظاہر کرتے ہوئے ان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

سی ٹی ڈی بلوچستان نے دعویٰ کیا تھا کہ عبدالحفیظ بلوچ سے 15 مارچ کو دھماکہ خیز مواد برآمد کیا گیا، جس کی بنیاد پر ان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ان کے خلاف سی ٹی ڈی کی ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ ’مخبر خاص نے اطلاع دی کی ایک نوجوان جو کالعدم تنظیم بی ایل اے اسلم گروپ کا کارکن ہے ایک سیاہ بیگ اٹھائے مشکوک حالت میں جھل مگسی کے راستے سے جعفر آباد کی جانب پیدل آ رہا ہے۔‘

ایف آئی آر کے مطابق اس اطلاع پر سیف آباد شاخ کے علاقے جعفرآباد گوٹھ محمد مٹھل مگسی میں ناکہ بندی کی گئی۔ اس دوران دن دو بجکر 30 منٹ پر ایک نوجوان بیگ اٹھائے پیدل آیا جسے گرفتار کر لیا گیا۔

ایف آئی آر کے مطابق ’بیگ کی تلاشی لینے پر اندر دھماکہ خیز مواد اور نٹ بولٹ پائے گئے۔ ڈیجیٹل ترازو میں وزن کرنے پر دھماکہ خیز مواد کا وزن 200 گرام جبکہ لوہے کے نٹ بلٹ کا وزن 400 گرام تھا۔ اس کے علاوہ ان سے تار وغیرہ بھی برآمد ہوئی۔‘

دھماکہ خیز مواد کی برآمدگی کے الزام میں ان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا اور مقدمے کا چالان انسداد دہشت گردی کی عدالت اوستہ محمد میں جمع کرایا گیا۔

حفیظ بلوچ کے وکیل عمران بلوچ ایڈووکیٹ نے فون پربتایا کہ بدھ کو عدالت نے مقدمے کی سماعت مکمل کرکے اس پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ جمعرات کو اس پر فیصلہ سناتے ہوئے عدالت کےجج محمد علی مبین نے حفیظ بلوچ کو تمام مقدمات سے بری کرتے ہوئے ان کو رہا کرنے کا حکم دیا۔

عمران بلوچ کے مطابق استغاثہ نے حفیظ بلوچ پر جو بھی الزامات لگائے تھے عدالت میں وہ ان کو ثابت نہیں کر سکے جس پر عدالت نے ان کو تمام الزامات سے بری کردیا۔

حفیظ بلوچ کی مبینہ جبری گمشدگی کیسے ہوئی؟

حفیظ بلوچ کا تعلق ضلع خضدار کے علاقے باغبانہ سے ہے۔

گرفتاری ظاہر کیے جانے سے پہلے حفیظ بلوچ رواں سال 8 فروری کو خضدار شہر سے لاپتہ ہوئے تھے اور اس حوالے سے سٹی تھانہ خضدار میں ان کے والد حاجی محمد حسن کی جانب سے ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی۔

ان کے والد نے ان کی جبری گمشدگی کے بعد بی بی سی کو بتایا تھا کہ حفیظ چھٹیوں پر جنوری کے آخری ہفتے میں اسلام آباد سے خضدار آئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ عبدالحفیظ کو تعلیم سے بہت لگاؤ تھا اس لیے چھٹیوں کے دوران بھی انھوں نے درس و تدریس سے اپنا ناطہ نہیں توڑا اور وہ شام کو ایک مقامی ادارے میں بچوں کو مفت پڑھانے جاتے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ آٹھ فروری کے روز بھی وہ بچوں کو پڑھانے کے لیے اکیڈمی میں تھے کہ وہاں سیاہ رنگ کی ایک گاڑی میں تین نقاب پوش مسلح افراد آئے۔

’ان میں سے دو افراد کلاس روم میں آئے اور عبدالحفیظ کو طلبا کے سامنے زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔‘

حفیط بلوچ کی بازیابی کے لیے نہ صرف بلوچستان بلکہ اسلام آباد سمیت پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی احتجاج کیا گیا تھا۔

اسلام آباد میں ان کی بازیابی کے لیے ایک احتجاجی کیمپ بھی قائم کیا گیا تھا جس میں حفیظ بلوچ کے والد نے بھی شرکت کی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments