عید قرباں اور بچوں کی محبت، جذبہ، ہمدردی


اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے قربانی جان، مال، جذبات کی ہو یا جانور کی، بلاشبہ انسان کی دنیاوی و اخروی تسکین کا باعث بنتی ہے اور مسلمانوں کے پاس اس تسکین کے حصول کا بہت بڑا موقع عیدالاضحی ہے، جب ہر مسلمان اپنی استعداد کے مطابق بڑے شوق اور جذبے سے قربانی کے لئے جانور خریدتا ہے۔ عیدالاضحیٰ کی آمد آمد ہے چونکہ اسے عید قربان، بڑی عید، قربانی کی عید بھی کہا جاتا ہے اس عید پر تقریباً ہر گھر میں بکرے، چھترے، اونٹ یا گائے کی قربانی دی جاتی ہے۔

بچوں کو یہ شوق ہوتا ہے کہ وہ ان قربانی کے جانوروں کی خدمت کریں انہیں کھلائیں پلائیں، سیر کروائیں لیکن بچوں کو اپنا ذوق پورا کرنے کے ساتھ ساتھ ان جانوروں سے احتیاط بھی کرنی چاہیے کیونکہ بکروں اور چھتروں کی ٹکر خطرناک ثابت ہو سکتی ہے اور گائے، بیل، اونٹ بڑا جانور ہے بس ہاتھ میں رسی تھامنی چاہیے اور جب تک آپ کے پاس کوئی بڑا موجود نہ ہو ان جانوروں کے قریب نہیں جانا چاہیے۔ آج کل زیادہ تر لوگ قربانی کے جانور اس وقت خریدتے ہیں جب عید قربان میں چند روز باقی رہ جاتے ہیں ماضی میں بڑے بزرگ لوگ ایسا نہیں کرتے تھے بلکہ وہ پورا سال جانوروں کو پالتے تھے بچے قربانی کے جانوروں کو پالنے میں زیادہ دلچسپی لیتے تھے جوں جوں عید قریب آتی تو ان پر خاص توجہ دی جاتی تھی۔

عید سے قبل رات کو بکروں کو مہندی لگائی جاتی تھا، انہیں مختلف زیورات سے سجایا جاتا تھا پورا سال خدمت کرنے کے بعد جب وہ اچھے خاصے موٹے تازے ہو جاتے تھے انہیں اس خوشی کے موقع پر قربان کر دیتے تھے۔ کیونکہ یہ عید ہمیں ہر قسم کی قربانی کا درس دیتی ہے۔ آج کل کے جدید دور میں ہم سنت ابراہیمی تو پوری کر لیتے ہیں، لیکن اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ قربانی کس طرح کرنی چاہیے۔ اور قربانی کرنا کتنا بڑا ثواب ہے۔

روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت فاطمہؓ سے فرمایا کہ قربانی کے جانور کے پاس کھڑی رہو، اس لیے کہ قربانی کے جانور کی گردن سے جب خون کا پہلا قطرہ گرے گا تو اس کے بدلے تمہارے گناہ معاف کر دیے جائیں گئے اور اس وقت یہ پڑھو۔ میری نماز، ہر عبادت زندگی اور موت سب اللہ ہی کے لیے ہے، جو ساری مخلوق کا پالنے والا ہے۔ حضور اقدس ﷺ فرماتے ہیں کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے بارگاہ الٰہی میں عرض کی، امت محمدیہ میں سے قربانی کرنے والوں کو کیا ثواب ملے گا؟

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کا ثواب قربانی کے جانور کے ہر بال کے عوض دس نیکیاں عطا کی جائیں گی اور دس گناہ مٹا دیے جائیں گے اور اس کے دس درجے بلند کیے جائیں گے۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے عرض کی کہ جب وہ قربانی کے پیٹ کو چاک کرے گا تو اس کا کیا ثواب ہو گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب اس بندے کی قبر شق ہوگی تو اللہ تعالیٰ اس کو بھوک پیاس اور قیامت کے ہول سے محفوظ رکھے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اچھے جانور کی قربانی کیا کرو، قیامت کے دن یہ تمہاری سواریاں ہوں گے۔

قربانی سنت ہے، جو شخص قربانی کر سکتا ہے اس کے لیے اس کا چھوڑنا اچھا نہیں۔ عید الاضحی کو صرف کھیل کود اور لطف و تفریح ہی تک محدود نہیں رکھنا چاہیے، بلکہ اس کے ذریعے اعلیٰ اخلاق، معروف کی دعوت اور دین اسلام کی نصرت جیسے اعلیٰ مقاصد کے حصول کی بھی کوشش کی جائے۔ نیز دین اسلام کی انہی ہدایات کے پیش نظر اس مذہبی تہوار کی حقیقت اور اس کو منانے کے صحیح طریقوں سے بچوں کو بھی آگاہ کیا جائے۔ اگر یہ احادیث مبارکہ اور قربانی کے فضائل بچوں کو سنائیں جائیں تو بچے تو ویسے ہی قربانی کے جانوروں سے بہت محبت کرتے ہیں۔ فضائل، ثواب اور انعامات سننے کے بعد نیکی کی جستجو میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔

بچوں کا حال تو کچھ یوں ہے کہ عید الاضحی کا موقع آتے ہی پوری مسلم دنیا میں بچے بڑے ہی ذوق کے ساتھ بکروں کو گھمانے گلی، محلوں، شہروں میں نکلتے ہیں، تو بکروں کو بھی موقع مل جاتا اپنے نخرے اٹھوانے کا۔ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے! جی ہاں نہ بیٹھا جاتا ہے نہ اٹھا جاتا ہے۔ اتنا وزن ہے کہ چلنا بھی محال۔ لیکن بچوں کا تو یہ حال ہے کہ ان پہلوان بکروں کے نخرے اٹھانے میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ کئی گلیوں میں بیل زبردست نخریلے انداز میں شوں شوں کر کے نکل جاتے ہیں اور بچے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔

اگر بچوں کی ٹولی کو پتہ چل جائے کہ اگلے محلے میں کوئی سفید اونٹ لے کر آیا ہے تو سب اونٹ دیکھنے چلے جاتے ہیں، یقیناً یہ بڑوں کے علاوہ بچوں کا خصوصی کمال ہے کہ کئی دفعہ قربانی کے جانوروں کے لیے دودھ، میوہ ڈال کر جانوروں کو اتنا مانوس کر لیتے ہیں کہ پھر وہ ان سے الگ ہونا ہی نہیں چاہتے۔ ہمارے معاشرے کے یہ بچے ہر ہر طرح اپنے شوق پورے کرتے ہیں اور پھر عید والے دن جب جانور کی قربانی کی جاتی ہے تو اکثر بچے ناراض ہو جاتے ہیں کیوں کہ متعلقہ جانور سے اتنا زیادہ پیار کرتے ہیں کہ وہ اسے ذبح ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔

ایسے میں بچوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو وہ قربانی بہت پسند ہے جو ہمیں بہت زیادہ محبوب ہو اور اسے ہم اللہ کے راستے میں قربان کر دیں حدیث پاک میں آتا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا کہ عید کے دن قربانی کا جانور (خریدنے ) کے لئے رقم خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کے یہاں اور چیزوں میں خرچ کرنے سے زیادہ افضل ہے۔

قربانی کی اس یاد کو منانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کے اندر قربانی کی وہی حقیقی روح، ایمان کی کیفیت اور اپنے رب کے ساتھ محبت و وفا داری کا جذبہ پیدا ہو، جس کا عملی مظاہرہ حضرت ابراہیمؑ کی پوری زندگی میں دیکھنے میں آتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان اس شعور کے بغیر جانور قربان کرتا ہے، تو وہ اس جانور کا ناحق خون بہاتا ہے، جس کی اللہ کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ قربانی کا مقصد گوشت کھانا، دکھاوا یا ریا کاری نہیں بلکہ ایک شرعی حکم کی تعمیل اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے، تاکہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنی تمام نفسانی خواہشات کو قربان کر دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments