حق آزادی رائے توہین مذہب کا استناد نہیں، فساد ہے


انسانی تہذیب و تمدن کی اساسات میں دو طرح کی باطییات کار فرما ہوتی ہیں۔ جن میں سے پہلی انسان کی منطق یا عقلیت سے اجاگر ہوتی ہے

اور دوسری اس کے ایمان یا عقیدے سے جلا ء پاتی ہے۔ انسانی منطق یا عقلیت سے علمی معلومات کا حصول طے ہوتا ہے۔ جسے سائنس، فلسفہ، حکمت یا تھیوری وغیرہ سے موسوم کیا جاتا ہے ، جبکہ ایمان یا عقیدت سے مذہبی مبادیات اور ان کا لائحہ عمل طے ہوتا ہے، جسے اوتار، محیر العقول منزلت یا نبوت کی دی ہوئی دینیات ( ضوابط حیات ) کا نام دیا جا تا ہے۔ منطق یا عقلیت پر مبنی آزادی اظہار رائے بھی انسان کا بنیادی حق ہے، تو اسی طرح ایمان یا عقیدت پر مبنی آزادی اختیار بھی انسان کا بنیادی حق ہے۔

منطق یا عقلیت پر مبنی آزادی اظہار اور ایمان یا عقیدت پر مبنی آزادی اظہار کا دو طرفہ حق وہاں آ کر متنازع اور متصادم ہو جاتا ہے، جب اول الذکر کی طرف سے کوئی ایسا بیان جاری ہو جا تا ہے جو ثانی الذکر کے حق کی سنگین تحقیر و توہین کا موجب بن اٹھتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس سے آگے عالمی سطح پر ایسے تنازعے یا تصادم کے قابل قبول حل کے لیے بہت ہی خطر ناک حساسیت کا مسئلہ دشواری بھی آ لیتا ہے کہ کسی ایک پر اظہار کی کوئی قدغن عائد کی جا سکتی ہے اور نہ کسی دوسرے پر اظہار کی بابت نظر ثانی یا مراجعت کا فیصلہ عائد کیا جاسکتا ہے۔

دونوں طرف معاملہ اگر صرف منطق یا عقلیت پر مبنی اظہار کا ہی ہو، پھر تو منطق یا عقلیت کے کسی دوسرے اور فائق ترو برتر پیمانے کی روسے مسئلہ سلجھانے کا فیصلہ مانا اور منوایا جاسکتا ہے، لیکن جب معاملہ منطق یا عقلیت اور ایمان یا عقیدت کے مابین کا ہو تو اس صورت میں منطق یا عقلیت اور ایمان یا عقیدت کے مابین کا ہوا تو اس صورت میں منطق یا عقلیت پر مبنی رائے کو غلط اور گمراہ کن قرار دینے کا آپشن آ پڑتا ہے او یا پھر ایمان یا عقیدت کے اس مذہبی قول و فعل کو نبٹانے کا سوال آ پڑتا ہے جس پر گرفت آزمائی کا عندیہ منطق یا عقلیت کی طرف سے گرمایا گیا ہوتا ہے۔ دوسرے معنوں میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا منطق یا عقلیت پر مبنی آزادی اظہار کا مطلب یہ قرار دینا درست ہے کہ جس سے توہین مذہب کی کھلی چھوٹ منائی اور منوائی جا سکے؟

اس مسئلے کی مزید وضاحت اور خاطر خواہ ادراک کسی مذہبی حلقے کو بیچ میں لائے بغیر یہاں جناب حامد میر صاحب اور جناب و جاہت مسعود صاحب جیسے پاکستانی قلم کاروں کے نقاط نظر سے پیش کیا جانا اس لیے درکار ہے کہ دونوں کی بات عالمی واقعات اور ان کے تاریخی و علمی تاثرات کے حوالوں سے قابل اعتبار بھی ہوتی ہے اور اس لحاظ سے غیر جانبداری کی غماز بھی ہوتی ہے اس ضمن میں روز نامہ جنگ راولپنڈی مورخہ 23۔ 06۔ 2022 کی اشاعت میں حامد میر کا مضمون بعنوان۔

”دنیا توہین مذہب کے مسئلے کو کیسے حل کر سکتی ہے؟“ بر وقت اور بر عمل توجہ کا حامل ہے، جس میں چیدہ چیدہ نقاط کی نشاندہی کی گئی کہ ایک طرف مغربی ممالک اس وقت توہین مذہب کے قانون کو ختم کر رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف مسلم ممالک اقوام متحدہ سے توہین مذہب پر کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ توہین مذہب کے خلاف مرتب کیے جانے والے ضابطہ اخلاق کو اظہار کی آزادی کے خلاف بھی استعمال نہیں کرنا چاہے۔ 18 جون کو اقوام متحدہ کا منظور کردہ نفرت انگیز کلام کے خلاف عالمی دن منایا گیا، جس کے ایکشن پلان کے تحت اظہار کی آزادی کو نقصان پہنچائے بغیر نفرت انگیز کلام کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

لیکن پھر بھی دنیا کو مزید کچھ کرنا ہو گا کہ توہین مذہب ( جسے خصوصاً اسلامو فوبیا جیسے وسیع تر مسئلے کا زہرآلود اظہار سمجھا جاتا ہے ) انتہائی حساس معاملہ ہے۔

صاحب مذکور نے اپنی طرف سے مسئلے کی نوعیت، اس کی حساسیت اور محرکات کی نشاندہی میں تو کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی سوائے اس کے کہ جو دنیا نے مزید کچھ کرنا ہے۔ وہ دنیا پر چھوڑ دیا ہے، جبکہ یہ کسر پوری کرنے کے لئے 8 اپریل 2017 ؁ء کے جنگ اخبار میں جناب وجاہت مسعود صاحب نے ایک جگہ پہلے ہی دنیا کے سامنے عقلیت اور عقیدت کے مابین حائل پردہ داری کی نشاندہی از بر کرا دی تھی :۔

”کہ عقیدے کی آزادی ایک محترم انسانی حق ہے۔ عقیدے پر دلیل ( منطق یا عقلیت کی ) دی جاتی ہی اور نہ طلب کی جا سکتی ہے۔ تاریخی حقائق سے انکار عقیدے کی بجائے سیاسی اور قانونی ذیل میں آتا ہے۔ تاریخ اور عقیدے ( یا ایمان) کو گڈ مڈ کرنا سیاست اور معاشرت کو غبار آلود کرنے کے مترادف ہے۔ تھامس جیفر سن نے اٹھارہویں صدی میں لکھا تھا کہ عقیدے کی حقانیت طے کرنا عدالت کا کام نہیں۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ عدالت واقعات اور حقائق پر فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں۔ مفہوم صرف یہ تھا کہ مصنوعی رائے اور معروضی حقائق کے درمیان واضح لکیر کھینچنی چاہیے ”۔

وجاہت صاحب کا شکریہ کہ ان کی دی گئی اس علمی گواہی سے راقم کو اس لکیر کی واضح نوعیت ثابت کرنی مل گئی ہے جو عقلیت اور عقیدت کے مابین کھینچنی مقصود تھی۔ اب یہ طے کرنے میں کوئی دشواری حائل نہیں رہتی کہ انسانی منطق یا عقلیت کی رسائی ایک حد پر جا کر ختم ہو جاتی ہے، جس سے آگے صرف انسانی ایمان یا عقیدت کا اختیار شروع ہونا باقی رہ جاتا ہے کیوں کہ ایمان یا عقیدت کی مذہبی مبادیات کا اظہار بیان الوہیت، یوم آخرت، ملائکیت، کتابیات اور نبوت و رسالت کے ان مضامین پر جا کے استوار ہوتا ہے جن کا احاطہ عقلی یا منطقی اظہار رائے سے قطعی ماورا ء اور سینسرڈ ہے۔ اس جانب حق آزادی رائے کے استناد پر توہین مذہب کی چھوٹ طے کیا جانا سراسر جرم اور فساد کا ارتکاب ہے۔ کیونکہ ایمان یا عقیدت کی اساسات انسانی منطق یا عقلیت کی طے کردہ نہیں رہتیں، تو ان کے بارے میں مصنوعی اظہار رائے کسی طور بھی حق بجانب قرار نہیں پاتا۔

محمد فاروق
مصنف: ”انسانی تہذیب اور خلافت کا نظام“ ،
”پاک۔ بھارت ونڈت میں ہند جڑت کی بولی“ ،
اور ”سیاسی نظری مغالطوں میں ہندو مسلم ایکا“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments