ٹرین والی لڑکی


وہ مجھے میٹرو ٹرین میں پہلی بار ملی اور پھر بار بار ملی۔ ہم ایک ہی اسٹیشن سے سوار ہوتے۔ جو میٹرو کا پہلا اسٹیشن تھا اس لیے صبح کے وقت بھی کافی خالی سیٹیں مل جاتیں۔ اگلے اسٹیشنوں سے رش شروع ہو جاتا اور کچھ کو تو کھڑے کھڑے سفر کرنا پڑتا۔ میں اور وہ اکثر ایک ساتھ اندر جاتے اور کبھی کبھار تو ایک ہی سیٹ پر بیٹھ بھی جاتے۔ اس کا اسٹاپ پہلے آتا تھا وہ اتر جاتی۔

میں ایک اسکول میں پڑھاتی تھی۔ ہفتے کے دو دن منگل اور بدھ میرا پہلا پیریڈ ہوتا تھا۔ ان دو دنوں میں مجھے جلدی نکلنا ہوتا، انہی دو دنوں میں کبھی کبھار اس سے ملنا ہو جاتا۔ ہمارے بیچ پہلے آنکھوں میں شناسائی پھر مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا۔

اس دن بھی ہم دونوں ساتھ ساتھ اندر داخل ہوئے۔ وہ کچھ لڑکھڑائی میں نے سہارا دیا۔ ہم برابر کی سیٹوں پر بیٹھ گئے۔

” شکریہ“
”کوئی بات نہیں“ ۔ میں نے اردو میں جواب۔ مجھے اندازہ تھا کہ وہ پاکستانی ہے۔ وہ مسکرا دی۔
”آپ روز اسی وقت میرو سے جاتی ہیں؟“
” نہیں صرف منگل اور بدھ کو جب میرا پہلا پیریڈ ہوتا ہے۔ میں ٹیچر ہوں“ ۔

اس نے بتایا کہ وہ نگہت ہے، دو سال پہلے شادی ہو کر ناروے آئی ہے۔ کچھ عرصہ زبان سیکھنے میں لگا کر اب ایک اسٹور پر کام کرتی ہے۔ پھر ہم اکثر ساتھ بیٹھنے لگے۔ بات چیت بھی بڑھ گئی۔

ایک دن وہ ملی تو اس کے گال پر ایک بڑا سا نیل نظر آیا۔
” یہ کیا ہوا؟“
” مار پڑی ہے۔ بس باجی قسمت ہی خراب ہے۔“ اس نے آہ بھری۔
”کس نے مارا؟“
” میرے میاں نے۔“ ۔ میٹرو میں رش بڑھ گیا۔ میں نے بھی کریدنا مناسب نہیں سمجھا۔

اس کا اسٹیشن آ گیا۔ میں نے کھڑکی سے اسے جاتے دیکھا وہ ایک ٹشو پیپر سے اپنا منہ صاف کر رہی تھی یوں لگا جیسے آنسو پونچھ رہی تھی۔ منہ صاف کر کے ٹشو ڈسٹ بن میں پھینک کر وہ باہر نکل گئی ٹرین چل پڑی اور میں اسے جاتا دیکھتی رہی۔

ایک بار اس کے ہاتھ پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ ”یہ کیا“ ؟
” وہی جو ہوتا ہے۔ “ اس کی آواز رندھی ہوئی تھی۔
” اف“ میں نے ہمدردی سے کہا۔
”“ کبھی فرصت سے سناؤں گی یہ کہانی۔ آپ میرے ساتھ کافی پی سکتی ہیں؟ ”
” ضرور۔“
” جمعہ کو چار بجے؟“

ہم نے فون نمبرز کا تبادلہ کیا۔ اس کا اسٹاپ آ گیا اور وہ چلی گئی۔ میں نے دیکھا وہ ہاتھ کی پٹی اتارتی لپیٹتی سوچوں میں گم چلی جا رہی تھی۔

ہم ایک کیفے میں ملے۔ کافی کی پیالی پر اس نے اپنی کہانی سنائی۔

فضل حق اس کا شوہر ہے جو عمر میں اس سے پچیس سال بڑا ہے۔ وہ تیس سال پہلے روزگار کی تلاش میں ناروے آیا تھا۔ ایک مقامی عورت کے ساتھ رہنے لگا۔ اس سے علیحدگی ہو گئی۔ کچھ سال بعد فضل نے پاکستان جا کر ایک بیوہ عورت سے شادی کر لی جس کا پہلے شوہر سے ایک بیٹا تھا۔ فضل نے بیوی کو بلا لیا اور اس کے بیٹے ندیم کو بھی اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا اور اسے بھی بلا لیا۔ فضل کی اپنی اولاد کوئی نہیں۔ ندیم نے اچھی تعلیم حاصل کی اور کام کرنے لگا۔ ندیم کی ماں کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد فوت ہو گئی اور فضل پھر اکیلا ہو گیا۔ گاؤں میں نگہت غربت کی زندگی گزار رہی تھی۔ فضل کا رشتہ آیا قبول ہو گیا اور جلد ہی شادی بھی ہو گئی اور وہ یہاں آ گئی۔ فضل کے یہاں کافی رشتے دار ہیں لیکن نگہت کا کوئی نہیں۔

” ایک دن بھی آرام کا نہ ملا باجی۔ فضل بدزبانی کے ساتھ ہاتھ بھی چلاتا ہے۔ روز ہی کسی نہ کسی بات پر پٹتی ہوں“ ۔ اس نے سرد آہ بھری۔

نگہت کی کہانی میرے لیے کوئی نئی نہیں تھی۔ اکثر اس قسم واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے رہے ہیں۔
” یہاں عورتوں کے لیے ہنگامی مراکز ہیں تمہیں وہاں پناہ بھی ملے گی اور قانونی اور مالی مدد بھی۔“

” اگر وہاں گئی تو فضل مجھے طلاق دے دے گا اور واپس پاکستان بھجوا دے گا۔ تین سال بعد میرا مستقل ویزا لگ جائے گا پھر میں یہاں رہ سکوں گی۔ ابھی یہ سب برداشت کرنا ہی ہو گا“ اس نے ایک آہ بھری۔ کہا۔ پھر اپنی کلائی دکھائی جہاں جلنے کا نشان تھا۔ ”یہ تحفہ کل ہی ملا ہے۔ فضل کو قمیض کی استری پسند نہیں آئی“ ۔

”تم ڈاکٹر کے پاس گیں؟ اپنے زخم دکھائے“ ؟
”نہیں۔ میں بات بڑھانا نہیں چاہتی“
” خود پر ظلم مت ہونے دو۔ پولیس کو بتاؤ، شیلٹر میں پناہ لو۔ میں اس کی رپورٹ کر دوں؟“
” نہیں نہیں پلیز ایسا مت کریں۔ بس اب تھوڑے ہی دن رہ گئے ہیں۔ پھر نجات مل جائے گی“
” اپنے ان تمام زخموں اور چوٹوں کی تصویریں تو لے کر رکھ لو۔ کبھی ضرورت پڑ سکتی ہے“

اس پر اس نے اپنے فون پر کئی تصاویر دکھائیں۔ کلائی پر چوٹ، منہ پر زخم۔ گال پر نیل۔ ایک تصویر میں وہ دونوں باہیں پھیلا کر اپنے بازو پر لگے نشان دکھا رہی تھی۔ میں چونکی۔ یہ سیلفی تو نہیں تھی ”یہ تصویر کس نے لی؟“

”ندیم نے۔ اسے سب پتہ ہے۔ مجھ سے ہمدردی بھی ہے۔ اچھا بندا ہے“
” کیا کرتا ہے ندیم؟“
” آرٹسٹ ہے۔ تھیٹر اور ٹی وی پر کام کرتا ہے“ ۔
”مجھے ڈر ہے کسی دن فضل مجھے جان سے ہی نہ مار دے“ اس نے پریشانی سے کیا

میں نے پھر مشورہ دیا کہ اسے پولیس میں یہ سب رپورٹ کرنا چاہیے۔ اس کا وہی جواب کہ ویزا پکا ہو جائے پھر۔

گرمی کی چھٹیاں ہوگئیں۔ ٹرین کا سفر بھی نہ ہوا اور نگہت سے ملنا بھی نہ ہوا۔ ایک شام نگہت کا فون آیا۔ وہ بہت گھبرائی ہوئی تھی

” باجی فضل سیڑھیوں سے گر پڑا بہت زخمی ہے اب اسپتال میں ہے۔ پتہ نہیں کیا ہو گا۔ آپ کو تو سب پتہ ہے نا کہ میرے ساتھ کیا کیا ہوا ہے۔ آپ گواہ ہیں نا؟ آپ کو میں نے سب کچھ بتایا ہے۔ آپ ہی سے دل کی باتیں کی ہیں۔ میرا کیا بنے گا؟ پولیس بھی آئی ہے“ ۔ میں نے تسلی دی لیکن اس کی پریشانی کم نہ ہوئی۔ اگلے دو دن میں نے اسے فون کیے لیکن جواب نہیں ملا۔

ایک روز پولیس کی جانب سے مجھے بلایا گیا۔ ایک کیس میں انہیں میری گواہی درکار ہے۔ میں سوچ میں پڑ گئی کہ کیسا کیس ہے اور میری گواہی کیوں ضروری ہے۔ مقررہ وقت پر میں پہنچ گئی۔ ایک کمرے میں دو پولیس افسر بیٹھے تھے۔ میرا بیان ریکارڈ بھی کیا جا رہا تھا۔ پہلا سوال یہ تھا ”کیا آپ نگہت سلطانہ کو جانتی ہیں؟“

اور پھر اس بعد کئی اور سوال۔ کیسے جانتی ہیں؟ کتنا جانتی ہیں۔ میں جواب دیتی رہی لیکن مجھے لگا پولیس میرے جوابات سے مطمئن نہیں۔

ہمت کر کے پولیس سے پوچھا کہ آخر معاملہ کیا ہے۔ جواب ملا کہ نگہت پر اپنے شوہر فضل حق پر قاتلانہ حملے کا الزام ہے۔ فضل کو اگر بروقت طبی مدد نہ ملتی تو شاید وہ مر جاتا۔ میں حیران پریشان رہ گئی۔

نگہت گرفتار ہو چکی تھی اس سے رابطہ ناممکن تھا۔ اگلے چند ماہ میں کیس عدالت میں لگ گیا۔ اور مجھے وہاں بھی گواہی دینے کے لیے سمن ہوا۔

میں اس کیس کی کارروائی پر جاتی رہی۔ نگہت مجھے دیکھ کر مسکرا دیتی اور میں آنکھوں آنکھوں میں اسے تسلی دیتی۔ نگہت کو وکیل اور مترجم ریاست نے فراہم کیے۔ مترجم کی مدد سے عدالت کی پوری کارروائی نگہت سن رہی تھی۔ کیس میں خود ریاست مدعی تھی۔

استغاثہ نے جتنے گواہ پیش کیے سب نے فضل کے حق میں گواہی دی کہ وہ بہت حلیم الطبح شخص ہے۔ مارپیٹ تو دور وہ تو لڑتا جھگڑتا بھی نہیں۔ گواہوں میں اس کے رشتے دار، دوست، کولیگز اور ہمسائے بھی تھے۔ کسی نے اس کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا۔

اور ایک دن خود فضل حق بھی عدالت میں آیا۔ لاٹھی کے سہارے چلتا ہوا وہ بہت دل گرفتہ سا نظر آیا۔ اس کے بیان کے مطابق وہ اپنے گھر کے بیسمنٹ کی سیڑھیاں اتر رہا تھا اسے لگا کہ کسی نے اسے دھکا دیا۔ وہ گر پڑا اور بے ہوش ہو گیا۔ اس کے بعد جب اسے ہوش آیا تو وہ اسپتال میں تھا۔

استغاثہ نے اپنا کیس پولیس میں دیے گئے بیانات، شواہد اور واقعات کی مدد سے پیش کیا۔ فضل کا بیان نگہت سے مختلف تھا۔ وہ پاکستان گیا وہاں اس کی ملاقات نگہت سے ہوئی۔ نگہت نے اسے کہا کہ وہ اس کی شخصیت سے بہت متاثر ہوئی ہے اسے ایسے ہی مرد کی تمنا ہے جو میچور ہو اور پرخلوص بھی۔ فضل کا شادی کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن نگہت کی چاہت کو دیکھ کر مان گیا اسے بھی اس عمر میں کسی ساتھی اور ہمدرد کی ضرورت تھی اس نے شادی کر لی اور جلد ہی نگہت کو بلوا لیا۔ ندیم الگ گھر میں رہتا تھا لیکن آتا جاتا رہتا اور ان کے کئی کاموں میں مدد بھی کرتا۔ بقول فضل کے زندگی اچھی گزر رہی تھی۔ اسے نگہت سے اور نگہت کو اس سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اس کا کبھی نگہت سے کوئی جھگڑا نہیں ہوا اور مار پیٹ کرنا تو دور کی بات ہے۔
نگہت کی طرف سے واحد گواہ میں تھی۔ مجھ پر جرح شروع ہوئی۔
” نگہت کو کیسے جانتی ہیں؟“
” ٹرین میں ملی تھی، اکثر کچھ دیر تک ساتھ سفر کرتے رہے“ ۔
پھر پوچھا ”کتنا جانتی ہیں؟ اس کے گھریلو مسائل کو کس حد تک سمجھتی ہیں؟ اس کی شخصیت کے بارے میں آپ کا کیا اندازہ ہے؟“ ۔ میں جواب دیتی رہی۔
”آپ نے کبھی نگہت کے بدن پر زخم یا چوٹوں کے نشانات دیکھے؟“
” جی۔ کئی بار“
” ان زخموں کی نوعیت کیا تھی؟ کیا یہ مہلک تھے؟“
”مہلک تو نہیں لیکن پھر بھی زخم تو تھے۔ نیل تھے۔ جلنے کا نشان تھا۔ ہاتھ پر پٹی بندھی تھی“
” آپ کا رد عمل کیا تھا؟“
” میں نے نگہت کو کئی بار کہا کہ پولیس میں رپورٹ کرے لیکن وہ ایسا نہیں چاہتی تھی۔ وہ بالغ تھی میں اسے مجبور نہیں کر سکتی تھی“ میں نے اپنا دفاع کیا لیکن اپنے الفاظ مجھے کھوکھلے لگے۔
”ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے تشدد کی رپورٹ کرنا آپ کا فرض تھا۔“
” میں نے کوئی تشدد ہوتے نہیں دیکھا۔ میں اس کی گواہ نہیں ہوں۔ یہ سب نگہت کے الفاظ ہیں“ ۔ میرا دماغ اپنے دفاع میں ایکٹیو ہو گیا۔
” آپ نگہت کی دوست ہیں نا؟“
”دوست تو نہیں بس تھوڑی سی جان پہچان ہے۔“
”کیا نگہت نے کبھی آپ کو بتایا کہ وہ اپنے شوہر سے چھٹکارا چاہتی ہے؟“ میں سوچ میں پڑ گئی لیکن سچ کا حلف لیا ہوا تھا۔
” وہ خوش نہیں تھی“
سوال سخت ہونے لگے۔ میرے چودہ طبق روشن ہو گئے جب میں نے دیکھا کہ کیس کس سمت جا رہا ہے۔
” کیا وہ اسے قتل کرنا چاہتی تھی؟“
”نہیں نہیں“
اگلا سوال بم بن کر مجھ پر گرا۔
” کیا اس نے آپ کو بتایا تھا کہ وہ اپنے شوہر کو قتل کرنے جا رہی اور آپ اس اسکیم کا حصہ تھیں؟“
میرا دل بند ہونے لگا۔ پسینے چھوٹ گئے۔ کیا مجھ پر فرد جرم عائد کی جا رہی ہے؟ اس ایک لمحے میں میں نے اپنی پوری زندگی کو الٹتے دیکھا۔ میرا گھربار، میرا ٹیچنگ کا جاب، میری عزت میرا مقام سب بکھرتا ہوا لگا۔ میں نے بے چارگی سے نگہت کی طرف دیکھا وہ بے نیازی سے مسکراتی رہی۔ میرے پاس جتنی معلومات تھیں میں نے پوری سچائی اور خوداعتمادی سے بیان کر دیں۔ استغاثہ کا زور اسی بات پر تھا کہ نگہت نے فضل کو جان سے مارنے کی کوشش کی اور یہ مصنوعی چوٹیں اور زخم دکھا کر اپنے لیے ایک گواہ کا انتظام بھی کر لیا کہ وہ گواہی دے سکے کہ جو کچھ اس نے کیا اپنے دفاع میں کیا۔
وکیل صفائی نے نگہت پر تشدد کی زیادہ بات نہیں بس یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ ایک حادثہ تھا۔ اس میں نگہت کا کوئی ہاتھ نہیں۔ فضل نے خود بھی یہی بیان دیا کہ اس ایسا لگا جیسے کسی نے اسے دھکا دیا ہو۔
ندیم نے اپنے بیان میں کہا کہ اس نے کبھی ایسا کچھ نہیں دیکھا جس سے یہ لگے کہ نگہت پر کوئی تشدد ہوا ہو۔ وقوع کے روز وہ کسی کام سے فضل کے گھر گیا۔ نگہت نے اسے دیکھ کر روتے ہوئے کہا کہ فضل سیڑھیوں پر پھسل کر گر گیا ندیم بیسمنٹ کی طرف دوڑا جہاں سیڑھیوں کے آخری زینوں پر فضل زخمی حالت میں پڑا تھا۔ ندیم نے ایمبولنس کو فون کیا اور پیرا میڈیکل فضل کو اسپتال لے گئے۔
ندیم نے اپنے بارے میں بتایا کہ وہ تھیٹر اور ٹی وی پر میک اپ آرٹسٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس نے اعتراف کیا کہ نگہت نے ایک بار اس سے کہا کہ کیا وہ اس کے جسم پر کوئی ایسا نشان میک اپ کے ذریعہ بنا سکتا ہے جو چوٹ یا زخم لگے۔ اس نے بنا دیے اور نگہت نے خود بھی یہ کام سیکھ لیا۔

میں دم بخود سن رہی تھی۔ مجھے اپنے بے وقوف بنائے جانے کا پوری طرح احساس ہو رہا تھا۔ یہ سب ڈرامہ تھا۔ وہ چوٹیں اصلی نہیں تھیں۔ وہ دکھ بھری کہانی جھوٹی تھی۔ وہ آنسو نقلی تھے۔ وہ جو میں نے ٹرین سے اسے جاتے دیکھا تھا وہ ٹشو پیپر سے اپنے آنسو نہیں میک اپ صاف کر رہی تھی۔ اپنی پٹی اتار کر کام پر جا رہی تھی۔ نگہت کو اپنے حق میں ایک گواہ کی ضرورت تھی جو میری صورت میں اسے مل گیا۔ میں نے شاکی نظروں سے نگہت کی طرف دیکھا اس نے نظریں چرا لیں۔
کیس آخری مراحل میں تھا جب نگہت کے وکیل نے اس کی جانب سے درخواست کی کہ نگہت مصنوعی چوٹوں کی کہانی میں اپنے جرم کا اعتراف کرتی ہے اور سزا میں کمی بھی چاہتی ہے۔ اس کے اعتراف نے میری پوزیشن صاف تو کر دی لیکن اپنے بے وقوف بنائے جانے کی شرمندگی اور دکھ ضرور تھا۔

فیصلہ آ گیا۔ عدالت نے نگہت پر ہاتھ ہلکا رکھا۔ قاتلانہ حملہ کے الزام پر نگہت کو بری کر دیا۔ اسے گھریلو تشدد کا واقعہ جانا۔ اس پر اسے تین سال کی سزا ہوئی نقلی چوٹیں بنانے اور مجھے دھوکہ دینے کے الزامات پر بھی معمولی سی اضافی سزا ہوئی۔ اپنے وکیل کے ذریعہ نگہت نے مجھ سے معافی بھی مانگی۔ وکیل کا کہنا تھا یہ نگہت کی ایک معصوم شرارت تھی۔ توجہ اور ہمدردی کی خواہش تھی اور بس۔ عدالت نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں نگہت کے خلاف دھوکا دہی کا الگ سے کیس کرنا چاہوں گی۔ میں نے انکار کر دیا۔ میں اس سارے معاملے سے اب الگ ہونا چاہتی تھی۔

نگہت کو جیل ہو گئی۔ شاید سزا پوری کرنے کے بعد وہ ڈی پورٹ بھی کر دی جائے۔ سوچتی ہوں کسی دن جیل جا کر اس سے ملاقات کروں۔ پوچھوں کہ حقیقت کیا تھی۔ فیصلہ نہیں کر پا رہی کہ جاؤں یا نہ جاؤں؟ برا یہ ہوا کہ اب کسی کی دکھ بھری کہانی سن کر دل میں شکوک آ جاتے ہیں۔ اور ٹرین میں تو کسی سے بات کرتے بھی کتراتی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments