سویٹزرلینڈ کے سفیر کی اسلام آباد میں آخری ملاقاتیں


سوئٹزرلینڈ پاکستان میں پنیر اور چاکلیٹ کے لیے مشہور نہیں۔ نہ ہی یہاں اس کی غیر جانبداری کا اعتراف کیا جاتا ہے جس نے بہت سے عالمی تنازعات والے علاقوں میں امن قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بلکہ، اسے یہاں ایک بری جگہ کے طور پر جانا جاتا ہے جہاں سیاست دان اپنی ناجائز کمائی کو چھپاتے ہیں۔ دوسرا، یہاں کے زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ جنیوا ان اقدامات کا مرکز ہے جو مغربی ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہیں اور اس کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں بھی جنیوا میں عالمی معاملات کے حل تلاش کرنے کی کوششوں کو سراہنے سے گریز کیا۔

شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے زیورات بھی جنیوا کی ایک عدالت کے حکم پہ وہاں ضبط ہو گئے تھے اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو صدر آصف علی زرداری کے خلاف خط نہ لکھنے کی پاداش میں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا رہنا پڑا۔

یہاں اپنے قیام کے دوران سبکدوش ہونے والے سوئس سفیر بینیڈکٹ ڈی سرجا، اپنی توانائیاں اپنے ملک کا امیج بنانے میں نہ لگا پائے۔ نہ ہی انہوں نے اپنے ملک کا انسانی حقوق، ماحولیات، عالمی امن اور استحکام کے تحفظ کے لیے کردار اجاگر کرنے میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت کی۔

اس ناکامی کی ایک وجہ پاکستان کو افغانستان کے ساتھ منسلک کرنے کی سوئس پالیسی ہے۔ 1979 سے اسلام آباد میں سوئس سفارت خانہ افغانستان میں سفارتی امور کی نگرانی بھی کرتا ہے۔

یہاں تک کہ سوئس شہریوں کو بھی مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ کابل میں کسی بھی مدد کی ضرورت کی صورت میں اسلام آباد سے رابطہ کریں۔

ان تمام سالوں میں پاکستان اور افغانستان مخالف سمتوں میں چل رہے ہیں۔

تمام غیر طالبان حکومتیں اور دھڑے پاکستان کی شدید مخالفت کرتے رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ طالبان پاکستان کی مدد سے ان پر مسلط کیے گئے ہیں۔

دیگر چیزوں کے علاوہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے کوئی بھی یورپی ملک موجودہ طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کو تیار نہیں۔

سوئٹزرلینڈ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ یہ اب بھی صدر اشرف غنی کی حکومت کو جائز تسلیم کرتا ہے اور سوئس سفارت کار عبداللہ عبداللہ سے ملتے ہیں، عبداللہ عبداللہ زیادہ تر ان سفیروں کو دوحہ کے دفتر میں ہی مصروف رکھتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب بینیڈکٹ ڈی سرجا اسلام آباد میں الوداعی ملاقات کر رہے ہیں، سوئس مشن کے ڈپٹی ہیڈ البرٹو گروف صاحب نے افغانستان میں ”موجودہ صورتحال“ اور انسانی امداد کی ضرورت پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کی۔

افغانستان کو دو وجوہات کی بنا پر ایک مکمل طور پر الگ سوئس سفیر کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلے، افغانستان ان تبدیلیوں کی وجہ سے بین الاقوامی توجہ کا مرکز ہے جو امریکہ اور چین جیسی عالمی طاقتوں کی شمولیت سے وہاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ یہ عالمی سفارتی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔

دوسرا، افغانستان اور پاکستان کو ایک بریکٹ میں نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ دونوں ممالک کے پاس اپنے اپنے راستے ہیں جو کہیں آپس میں ملتے ہیں اور کہیں نہیں۔ اقوام متحدہ اور دنیا کے ممالک میں پہچان حاصل کرنے کے لیے کابل میں طالبان کی حکومت کے اپنے پروگرام ہیں۔ پاکستان سے سفارتی طور پر ان کی نمائندگی یا انتظام نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان میں افغان طالبان کا پہلا فعال سفارت خانہ ہے جبکہ سوئٹزرلینڈ سمیت دنیا کے بیشتر مہذب ممالک ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے۔

سفارتکاری کا دوسرا بڑا ہدف تجارت ہو گا۔ سوئٹزرلینڈ اور پاکستان کے درمیان تجارت 2016 سے زوال کا شکار ہے جب اس کا حجم 20 ملین ڈالر سے زیادہ تھا۔ 2021 میں، یہ تقریباً 16 ملین ڈالر تھا۔

گزشتہ سال صدر عارف علوی نے عامر شوکت برن روانگی سے قبل ملاقات کی۔ برن میں انہوں نے نے پوپ فرانسس کو بحیثیت سفیر اپنی اسناد پیش کیں۔ صدر علوی کی پارٹی بڑے بڑے عوامی اجتماعات میں یہ دعویٰ کرتی رہی کہ وہ اس ”لوٹ“ کو واپس لائیں گے جو ان کے حریفوں نے سوئس بینکوں میں چھپا رکھی ہے، لیکن صدر علوی واضح طور پر شوکت صاحب کو ہدایات دی کہ وہ سوئٹزرلینڈ کے ساتھ تجارت بڑھانے کے راستے تلاش کریں۔

اپنی ٹویٹر پروفائل تصویر پر شوکت صاحب اپنی کالی گاڑی کے اونچے بونٹ کے پیچھے کھڑے ہیں جس سے یہ تاثر لیا جاتا ہے کہ ان کی بڑی گاڑی ان کی پہچان ہے۔ ایک سفیر کو ایسی باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔

سوئٹزرلینڈ کے اسلام آباد میں سبکدوش ہونے والے سفیر اور شوکت صاحب نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (UNSC) میں سوئٹزرلینڈ کی غیر مستقل رکن کے طور پر شمولیت کا جشن منایا۔ سوئٹزرلینڈ نے 190 میں سے 187 ووٹ لے کے یہ رکنیت جیتی ہے۔ بینیڈکٹ ڈی سرجا نے پاکستان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اسلام آباد میں پولنگ سے قبل خارجہ پالیسی کے ماہرین سے ملاقاتیں کیں۔ اگرچہ سوئٹزرلینڈ نے سال 2023۔ 2024 کے لیے یہ نشست حاصل کی ہے، اگرچہ بیرونی دنیا سوئٹزرلینڈ کے ساتھ ہے لیکن اس کے ماہرین تعلیم اور محققین کی طرف سے مخالفانہ آوازیں آ رہی ہیں، ان کا خیال ہے کہ اس طرح کے فورم پر بیٹھنا ان غیرجانبداری کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ یہ غیر جانبداری ان کے ملک امن کے پیامبر کے طور پر ایک پہچان ہے۔ تاہم سوئس وزارت خارجہ کا کہنا ہے

قوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا رکن ہونے کے ناتے ان کا ملک عالمی امن اور انسانی حقوق کے تحفظ کے اپنے آئینی مقاصد پر بہتر انداز میں عمل پیرا ہو سکتا ہے۔

سفارتکاری کا تیسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ پاکستانی سیاست دانوں نے تعلقات استوار کرتے وقت بظاہر اس اہم ملک کو نظر انداز کیا ہے۔ سوئس فیڈرل ڈپارٹمنٹ آف فارن افیئرز ( ایف ڈی ایف اے ) کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق، ریاست کے کسی سولین سربراہ نے کبھی سوئٹزرلینڈ کا دورہ نہیں کیا۔ جنرل ضیاء نے 1986 میں سوئٹزرلینڈ کا دورہ کیا، اس کے بعد جنرل پرویز مشرف کے دو دورے ہوئے۔ مشرف اکثر مغربی دارالحکومتوں کا سفر کرتے تھے۔ ان کے زیادہ تر دورے امریکہ اور سعودی عرب کے تھے۔ لیکن انہوں نے دو بار سوئٹزرلینڈ کا دورہ بھی کیا۔ اس کے برعکس، بھارتی وزرائے اعظم نے اس ملک کا زیادہ سے زیادہ دورہ کیا ہے۔

ان دنوں بینیڈکٹ ڈی سرجا وزیروں کے علاوہ نوجوان ادیبوں اور صحافیوں سے بھی ملاقاتیں کر رہے ہیں کیونکہ ان کے جانے کے دن ہیں۔ روانگی کے بعد وہ اپنے ملک میں ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ ہم انہیں الوداع کہتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ سوئٹزرلینڈ اس کے متبادل کو بھیجتے وقت پاکستان اور افغانستان کو دو الگ ممالک سمجھتے ہوئے الگ الگ سفیر بھیجے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments