کیا جرمنی، پاکستان اور بھارت میں توازن قائم کر سکتا ہے


جرمن چانسلر اولاف شولز نے بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کو جی 7 کے سربراہی اجلاس میں مدعو کیا جو 26 سے 28 جون تک میونخ کے قریب ایک فائیو سٹار ہوٹل میں منعقد ہوا۔ ہندوستان G 7 کا رکن نہیں ہے۔ دنیا کے امیر ترین ممالک بشمول امریکہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، جاپان، اٹلی اور برطانیہ جی 7 کے رکن ہیں۔ یہ ممالک دنیا کی جی ڈی پی کا تقریبا نصف حصہ پیدا کرتے ہیں۔ چانسلر شولز نے انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدودو کو بھی سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی۔ لیکن انہوں نے پاکستان کو مدعو نہیں کیا۔

تاہم پاکستانی میڈیا میں ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں اور کوئی بھی مودی کو مدعو کرنے پر بات نہیں کر رہا ہے۔ ہر کوئی مقامی سیاست سے پوری طرح مست ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ پہلے سے کہیں زیادہ ڈرامائی ہوتی جا رہی ہے۔

اسی طرح جون کے شروع میں 7 تاریخ کو جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے جنوبی ایشیا کے اپنے پہلے دورے کے لیے اسلام آباد کو منتخب کیا۔ ہندوستان اس کے دورے کے ایجنڈے پر نہیں تھا۔ پاکستانی میڈیا میں یہ بھی ایک کم اہم واقعہ تھا۔ اس دوران ہمارے سوشل میڈیا پر وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو نشانہ بنانے والے میمز معمول کے مطابق بنتے رہے تھے۔

اس کے برعکس ہندوستانی میڈیا میں جرمنی کے نئے وزیر خارجہ کے دورے کے لیے پاکستان کو ایشیا میں پہلی منزل کے طور پر منتخب کرنے پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ یہ غم و غصہ اس وقت شدید ہو گیا جب بیرباک نے بلاول کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ اقوام متحدہ (یو این) کو ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر (IHK) میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

جرمنی خواتین کو با اختیار بنانے کی تاریخ رکھتا ہے۔ چانسلر انجیلا مارکل کا شمار یورپ کی مضبوط ترین خواتین رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ بہر حال، ہندوستانی میڈیا نے بیرباک کی صنف پر تنقید کی۔ اس کی عمر، جو کہ 41 سال ہے، کا ذکر یہ دعویٰ کرنے کے لیے کیا گیا کہ وہ کام کرنے کے لیے بہت چھوٹی ہیں۔

وزیر خارجہ نے بلاول کے ساتھ پریس کانفرنس میں یہ کہتے ہوئے واضح کیا کہ کشمیر سمیت دنیا میں ہر جگہ انسانی حقوق ”ناقابل قبول“ ہیں۔ انہوں نے کہا ایسے مظالم شورش زدہ علاقے میں آزادیوں اور حقوق کے تحفظ کے لیے اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کی توثیق کرتے ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ پاکستان اور بھارت دونوں کو ایک ساتھ لانے کے لیے ”تعمیری نقطہ نظر“ اور ”اعتماد سازی کے اقدامات“ ناگزیر ہیں۔

جرمنی یورپی یونین کے ان ممالک میں شامل ہے جنہوں نے بحر ہند کے لیے خارجہ پالیسی کا الگ مسودہ تیار کیا ہے۔ اس مسودے کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں بھارت کا ذکر کثرت سے ہے اور پاکستان کا ذکر صرف حاشیے پر ہے۔

جرمنی اس خطے کو اہمیت دیتا ہے کیونکہ یہ دنیا کی 60 فیصد سے زیادہ تجارت کا راستہ ہے۔ اسے اب دنیا انڈو پیسیفک ریجن کے نام سے جاننے لگی ہے۔ جی ڈی پی کے تخمینوں کے مطابق، 2030 تک چین دنیا کی پہلی اور ہندوستان تیسری بڑی معیشتوں میں شامل ہو گا۔ اس کا مطلب ہے کہ جرمنی نے انڈو پیسیفک ریجن کے لیے پالیسی کا مسودہ تیار کرنے کی ضرورت کا اندازہ لگانے میں کوئی غلطی نہیں کی۔

نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (NUML) کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر طاہر ملک کہتے ہیں کہ یہ تخمینے سائنس اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری پر مبنی ہیں۔ وہ سوچتے ہی کہ پاکستانی معیشت قیاس آرائیوں اور رئیل اسٹیٹ پر انحصار کرتی ہے۔ پروفیسر ملک کا خیال ہے کہ اس سے پراپرٹی ڈیلرز کی ایک فوج تیار ہو جائے گی اور ہم عالمی دوڑ میں بھی شامل نہیں ہو پائیں گے۔

یورپ بھارت کو اس کے سٹریٹجک محل وقوع اور معاشی وسعت کی وجہ سے راغب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یورپ یہ سمجھتا ہے کہ یہ چین کو گھیرنے میں بھارت ان کے لیے مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم جرمنی کا نقطہ نظر باقی یورپی ممالک سے کچھ جدا ہے۔ جرمنی بھارت اور چین دونوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرتا رہتا ہے۔ چند سال قبل بھارت میں جرمنی کے سفیر نے سری نگر میں آرٹ کی تقریب منعقد کی۔ مختلف ہندو انتہا پسند گروپوں نے انہیں ایسا کرنے پر کھلے عام تنقید کا نشانہ بنایا۔ اسی طرح گزشتہ سال ستمبر میں جرمن سفیر عہدہ سنبھالنے کے بمشکل دو ہفتے بعد بیجنگ میں اپنی رہائش گاہ میں مردہ پائے گئے تھے۔ 54 سالہ جان ہیکر چانسلر میرکل کے قریبی ساتھی تھے۔

چونکہ جرمنی نے انڈو پیسیفک خطے کے لیے ایک پالیسی کا مسودہ تیار کیا ہے، اس لیے ہندوستان کو اس سے غیر حقیقی توقعات ہیں۔ کوئی بھی یورپی ملک، خاص طور پر جرمنی، اس خطے کی عسکریت پسندی کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ نتیجتاً ہندوستانی تھنک ٹینکس خطے میں انسانی حقوق کو برقرار رکھنے میں جرمنی کے تعاون کو کمتر سمجھتے ہیں۔ وہ جرمنی کی بحریہ کے حجم کا مذاق اڑاتے ہیں کیونکہ وہ ایسا کر کے اپنی بحری فوج کے حجم کو بڑا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جرمن وزیر خارجہ کے دورے کے دوران بلاول نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ طالبان کو افغانستان میں خواتین، بچوں اور اقلیتوں پر مظالم بند کرنے چاہئیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ امن قائم ہونا چاہیے اور افغانستان کے لوگوں کو ان کے اپنے ملک میں نمائندگی ملنی چاہیے۔ یہ کابل میں طالبان کی حکومت کے بارے میں پچھلی حکومت کے موقف سے مختلف بات تھی۔ سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم عمران خان خواتین کے استحصال کو پشتون ثقافت اور روایات کے ساتھ ملایا کرتے تھے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی مذہبی انتہا پسندی اور طالبان کے خلاف کھلی پالیسی ہے۔ حال ہی میں، اس نے کے پی سے اپنے رکن کو ایک جرگے میں شرکت کرنے پہ شوکاز نوٹس جاری کیا ہے۔ اس جرگے کا مقصد افغانستان کی سرحد سے متصل علاقوں میں طالبان کے ساتھ معاہدہ کرنا تھا۔

بیرباک کے دورہ پاکستان کے ایجنڈے میں افغانستان تھا۔ لیکن انہیں کرونا ہو گیا اور اپنا دو روزہ دورہ مختصر کرنا پڑا۔ اگر وہ اپنا دورہ مکمل کر لیتیں تو افغانستان اور بھارت پر بات چیت کے مزید دور ہوتے۔ انہوں نے اسلام آباد میں جرمن سفارت خانے کے عملے سے بھی ملاقات کرنا تھی۔ جرمن سفیر نے اپنی مدت ملازمت پوری کر لی ہے۔ اور بیرباک کچھ اشارہ دے سکتی تھیں کہ ان کی جگہ کون نیا سفیر ہو گا۔

سبکدوش ہونے والے جرمن سفیر برن ہارڈ شلاگیک نے اپنے پیشرو مارٹن کوبلر کی پیروی کی کافی کوشش کی۔ کو بلر ایک مشہور پاپولسٹ گرو تھے اور یہاں قیام کے دوران وہ اپنی ذات میں ایک برانڈ بننے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ چونکہ اسلام آباد اس خطے میں ایک اہم دارالحکومت بن گیا ہے جہاں جرمنی اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے، اس لیے جرمنی سے امید کی جاتی ہے کہ وہ شلاگیک کے بعد کسی سنجیدہ شخصیت کو سفیر متعین کرے گا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر حقیقی این جی اوز کے دعووں اور رپورٹوں میں الجھنے کے بجائے لوگوں سے لوگوں کے رابطوں کو بڑھانے کے اسباب پیدا کیے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی عالمی صلاحیتوں کو سامنے لانے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ جی 7 کے اجلاس کی اہمیت کو سمجھ سکیں اور اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اس طرح کے عالمی فورمز پر اپنا مناسب مقام حاصل کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments