اپنوں کی نسل پرستی کا شکار برطانوی مسلمان بچے


میرا نام داؤد ہے۔ میں برطانیہ کے دارالحکومت لندن کے مشرقی علاقہ والتھم سٹو میں رہتا ہوں۔ میری ماں ایک پاکستانی نژاد برطانوی خاتون ہیں جبکہ میرا باپ نائجیرین مسلمان ہے۔ میرا والد نائجیریا سے تعلیم حاصل کرنے اپنے چچا کے پاس برطانیہ آیا تھا۔ میری ماں اور باپ دونوں یونیورسٹی میں ہم جماعت تھے۔ یہیں ان کی دوستی ہوئی جو کچھ عرصہ بعد شادی کے بندھن میں بدل گئی۔ مجھ سے بڑی میری ایک بہن ہے۔ میں نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے آپ کو دو مختلف تہذیبوں میں بٹا ہوا پایا۔

اگرچہ ماں برطانوی شہری تھی لیکن ان میں پاکستانی ثقافت کا رنگ بہت نمایاں تھا۔ میرے باپ کا تعلق ایک انتہائی قدامت پسند معاشرے سے تھا جہاں عورتوں پر انتہائی سخت پابندیاں عائد تھیں۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی میرے والدین میں جھگڑے شروع ہو گئے تھے۔ میں بچپن سے ہی بہت حساس طبیعت کا مالک ہوں۔ والدین کے آپس کے جھگڑوں کا ہم بھائی بہن کی شخصیت پر بہت برا اثر پڑا، ہم بچپن میں ہی عدم تحفظ کا شکار ہو گئے۔ جب کبھی ماں ہمیں اپنے ساتھ اپنے رشتہ داروں کی شادی یا کسی دوسری خاندانی محفل میں لے کر جاتیں تو وہاں ہمیں لوگوں کی عجیب سی نظروں کا سامنا کرنا پڑتا۔

ہمارے رنگ اور شکل کی وجہ سے وہ ہمیں قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ برطانیہ جیسے آزاد ملک میں ہمیں نسل پرستی کا سامنا تھا۔ ایسی محفلوں میں میری بہن اور میں ہمیشہ الگ تھلگ بیٹھے رہتے۔ ماں کے خاندان والے ہمارا تعارف اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے نہیں کراتے تھے۔ ایسے میں ایک ہستی ایسی تھیں جو ہم بھائی بہن سے بہت پیار کرتیں، خیال کرتیں وہ تھیں ہماری نانی جو ہمارا ہر ممکن خیال رکھتیں تھیں۔ جب ہمارے والدین میں علیحدگی ہوئی تو ہم والدہ کے پاس رہ گئے۔

تین سال بعد والدہ کی دوسری شادی کے بعد ہم ان کے ساتھ ان کے نئے گھر میں منتقل ہوئے۔ ہماری نانی اماں ہمیں اپنے پاس رکھنے کو تیار تھیں لیکن وہاں بھی ہمیں اپنے ماموں اور خالہ کی باتوں کا سامنا تھا اس لئے والدہ ہمیں وہاں چھوڑنے پر تیار نہیں ہوئیں۔ سوتیلے باپ کا رویہ ہمارے ساتھ بہت خراب تھا۔ جب ہمیں ان سے ڈانٹ پڑتی تو والدہ ایسے میں خاموش ہو جاتیں جس سے ہم اور سہم جاتے۔ اپنے باپ نے تو پلٹ کر کبھی نہیں دیکھا کہ ہم کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ انہی رویوں کا سامنا کرتے کرتے میں جوان ہوا ہوں۔ میں اب یونیورسٹی میں پڑھتا ہوں اور ساتھ کام بھی کرتا ہوں۔ بہن کا بہت خیال رکھتا ہوں۔ میں پڑھائی میں بہت محنت کر رہا ہوں کیونکہ میں چاہتا ہوں کچھ بن کر اپنے جیسے بچوں کے لئے کچھ کر سکوں۔ یہی میرا ایک خواب ہے۔

داؤد سے میری ملاقات لندن کی ایک یونیورسٹی میں ہوئی تھی جہاں میں اپنے بھانجے سے ملنے گیا تھا۔ میرا بھانجا داؤد کا بہت اچھا دوست ہے۔ ہم نے ایک دن ساتھ گزارہ۔ ہمدردی اور پیار کے چند بول سن کر داؤد نے میرے سامنے اپنا سینہ کھول کر رکھ دیا تھا۔ برطانیہ میں آباد پاکستانی معاشرت پر کچھ لکھنے سے پہلے میں آپ کو عائشہ کی کہانی سنانا چاہتا ہوں۔ عائشہ داؤد کی والدہ ہیں۔

عائشہ مشرقی لندن میں آباد پاکستانی گھرانے میں پیدا ہوئی۔ اس کا باپ پاکستانی نژاد برطانوی تھا جب کہ اس کی ماں جو اس کے والد کی قریبی رشتہ دار تھیں، شادی کے بعد برطانیہ منتقل ہوئی تھی۔ عائشہ کے بچپن میں ہی اس کے ماں باپ میں اکثر لڑائی جھگڑا ہونے لگا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ گھر میں بہت ڈری ا ور سہمی رہتی تھی۔ بھائیوں کے مقابلے میں اس پر کم توجہ دی جاتی تھی، چھوٹی چھوٹی باتوں پر اکثر اس کی پٹائی ہو جاتی تھی۔

وہ پڑھائی میں کافی تیز تھی لیکن اس کے والدین میں سے کسی کو بھی اس کی پڑھائی میں دلچسپی نہیں تھی۔ جب دوسرے بچوں کے والدین بچوں کی کسی ورکشاپ میں سکول آتے تھے تو عائشہ کو بھی اشتیاق ہوتا کہ اس کے والدین بھی سکول میں اس کی ورکشاپ میں شریک ہوں۔ کالج میں داخلہ سے دو ماہ قبل اس کے والدین میں علیحدگی ہو گئی۔ اس کا باپ ان کو چھوڑ کر آسٹریلیا شفٹ ہو گیا۔ ماں باپ کی علیحدگی کا اس پر بہت برا اثر ہوا۔ اس کا دل بجھ سا گیا، وہ ڈپریشن کا شکار ہو گئی۔

خراب گھریلو حالات کے باوجود وہ سکول میں اچھے گریڈ میں پاس ہوتی رہی تھی لیکن والدین میں علیحدگی کے بعد اسے پڑھائی میں زیادہ دلچسپی نہیں رہی تھی۔ والدہ کے زور دینے پر اس نے کالج میں داخلہ لے لیا جس سے وہ کافی حد تک سنبھل گئی۔ حالات بھی معمول پر آنا شروع ہو گئے۔ والدہ نے کم تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے خاوند کے آسٹریلیا چلے جانے پر گھر چلانے کے لیے ایک فیکٹری میں کام شروع کر دیا تھا۔ کونسل کی امداد اور ماں کے کام کی وجہ سے گزر اوقات اچھی ہونے لگی تھی۔ گریجویشن میں عائشہ نے اچھے گریڈ لیے تو اسے نوٹنگھم یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ یونیورسٹی کے اخراجات پورے کرنے کے لئے عائشہ نے پارٹ ٹائم کام شروع کر دیا تھا۔

یونیورسٹی میں عائشہ کی ملاقات ایک نائجیرین سے ہوئی جو اس کا ہم جماعت تھا۔ وہ نائجیریا سے پڑھنے کے لئے برطانیہ آیا تھا۔ ان کی ملاقاتیں بڑھیں تو انہوں نے شادی کا ارادہ کر لیا۔ جب عائشہ نے گھر میں اس بات کا ذکر کیا تو ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ ذات برادری اور پھر پاکستانی کمیونٹی سے باہر شادی اور وہ بھی ایک سیاہ فام سے۔ سب رشتہ دار عائشہ کو سمجھانے کے لئے اکٹھے ہو گئے۔ اس کا والد بھی یہ خبر پا کر آسٹریلیا سے واپس آ گیا۔

وہ بڑی حیران تھی کہ جب اس کا والد انھیں چھوڑ کر آسٹریلیا چلا گیا تھا تب کسی کو بھی ان کا خیال نہیں آیا تھا لیکن جب وہ ایک سیاہ فام مسلمان سے شادی کر رہی تھی تو سب کی ناک کٹنے جا رہی تھی۔ سب کی مخالفت کے باوجود عائشہ ثابت قدم رہی اور اس کی شادی حبیب سے ہو گئی۔ وہ حبیب کے ساتھ اس کے چچا کے گھر منتقل ہو گئی۔ عائشہ کی والدہ کے سوا باقی سب نے اس سے تعلق ختم کر لیا۔

دور کے ڈھول ہمیشہ سہانے ہوتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد جب شادی کے چاؤ ختم ہوئے اور حقیقت سامنے آئی تو پتہ چلا کہ حبیب نے اس سے شادی سوچی سمجھی سکیم کے تحت برطانیہ میں سیٹل ہونے کے لیے کی تھی۔ کیونکہ بیرونی دنیا سے برطانیہ آنے والوں کے لیے برطانوی شہری لڑکی سے شادی کر کے برطانیہ سیٹل ہونے کا آ سان حل تھا۔ شادی کے ایک سال بعد بیٹی پیدا ہوئی جو عائشہ کی امیدوں کے برعکس بالکل حبیب کی کاپی تھی۔ بیٹی کی پیدائش کے بعد عائشہ کو یونیورسٹی کی پڑھائی عارضی طور پر ختم کرنا پڑی۔

حبیب کے چچا کے گھر رہ کر اس نے دیکھ لیا تھا کہ اس کا خاندان انتہائی تنگ نظر، بنیاد پرست اور پردے کا انتہائی سختی سے پابند تھا۔ عائشہ کے باہر نکلنے اور نامحرموں سے ملنے پر پابندی لگ گئی۔ بیٹی کی پیدائش کے دو سال بعد بیٹا داؤد پیدا ہوا تو حبیب کے خاندان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ لیکن اب عائشہ کے سر سے حبیب کی محبت کا نشہ اترنے لگا تھا۔ کہاں وہ یونیورسٹی میں پڑھنے والی لڑکی اور کہاں سات پردوں میں بند پابندیوں میں جکڑی ہوئی۔

عائشہ نے جب پابندیوں پر شور ڈالا تو لڑائی جھگڑا شروع ہو گیا جو زیادہ بڑھا تو عائشہ کو محسوس ہوا کہ اس کا حبیب سے نبھا مشکل ہے جس پر اس نے حبیب سے طلاق کا مطالبہ کر دیا۔ حبیب نے چند ماہ بعد اسے طلاق دے دی تو عائشہ دونوں بچوں کو لے کر کونسل کے گھر میں منتقل ہو گئی۔ ان حالات میں اس کی ماں نے اس کا ساتھ دیا اور اس کے بچوں کو سنبھالنے میں اس کی مدد کی لیکن عائشہ ماں کے اصرار کے باوجود اپنی ماں کے گھر واپس نہیں آئی۔ تین سال بعد عائشہ کی ملاقات ایک انڈین نژاد مسلمان لڑکے امین سے ہوئی جس کے کچھ عرصے بعد وہ دونوں اپنی مرضی سے رشتہ ازواج میں منسلک ہو گئے۔ امین اور عائشہ کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ حبیب کے دونوں بچے بھی عائشہ کے پاس ہی ہیں۔

یہ داؤد اور عائشہ کی ہی کہانی نہیں بلکہ برطانیہ میں بسنے والے ہر تیسرے تارکین وطن کی کہانی ہے جن کو ان جیسے حالات کا سامنا ہے۔ جس سے بھی بات کر کے دیکھیں وہ بندہ آپ کو دکھی ملے گا۔ برطانیہ ایک کثیر الثقافتی معاشرہ ہے جس میں دنیا کی مختلف تہذیبوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بستے ہیں۔ 1950 ء کے بعد پاکستان سے روزگار کی تلاش میں ہزاروں افراد برطانیہ آئے اور یہاں آباد ہو گئے۔ 1965 ء کے بعد ان تارکین وطن نے اپنے خاندان کو بھی اپنے پاس برطانیہ بلانا شروع کیا۔

ستر کی دہائی کے وسط میں پاکستانی تارکین وطن کی جو نسل جوان ہوئی، ان سب کی شادیاں والدین نے اپنی پسند سے پاکستان میں اپنے قریبی رشتہ داروں میں کیں۔ پاکستان میں شادیاں اکثر اپنے قبیلے اور ذات برادری میں ہی کی جاتی ہیں۔ ایسے میں برطانوی بچوں کی شادیاں ان کے چچا اور پھوپھی زاد، ماموں اور خالہ زاد یا دیگر قریبی رشتہ داروں سے کی گئیں۔ ان رشتوں کے کیا نتائج نکلے یہ موضوع نہیں ہے۔ جب ان تارکین وطن کی تیسری نسل جوان ہوئی تو برطانوی معاشرے میں رہنے والے بچوں میں تھوڑا بہت شعور آ گیا تھا۔

ان بچوں کی شادیاں بھی جب پاکستان میں ان کے قریبی رشتہ داروں میں طے کی گئیں تو بچوں کی ایک بڑی تعداد نے اس پر احتجاج کیا کیونکہ ان میں بہت سی شادیاں پاکستانی بچوں کو برطانیہ میں آباد کرنے کی غرض سے طے کی گئیں تھیں۔ مزاج ناآشنائی اور ایک مختلف معاشرے میں پروان چڑھنے والے بچوں کی آپس میں ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے رشتوں میں دراڑیں پڑنے لگیں۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی والدین کی کوشش تھی کہ بچوں کے رشتے پاکستان میں ان کے بہن بھائیوں کے بچوں سے ہوں۔

پاکستان میں مقیم بچوں خصوصاً لڑکوں کو جب یہ پتہ چلتا کہ ان کا رشتہ ماموں، چچا یا خالہ کی بیٹی سے طے ہو رہا ہے تو وہ پڑھائی چھوڑ کر انگلینڈ جانے کی تیاری میں لگ جاتے۔ ان شادیوں کے نتیجے میں پاکستان سے آنے والی لڑکیاں تو برطانیہ کے لڑکوں کے ساتھ کسی نہ کسی طرح گزارہ کر لیتیں لیکن پاکستان جیسے مرد غالب معاشرے میں پروان چڑھنے والے لڑکوں کی تنگ نظری کی وجہ برطانیہ میں پلی بڑھی لڑکیوں سے ہم آہنگی نہ ہو سکی۔

ایسے میں تشدد کے کچھ واقعات ہوئے۔ لڑکیوں کے شادی سے انکار کی وجہ سے زبردستی شادیوں کی کوششیں ہوئیں۔ کچھ زبردستی کی شادیاں بھی ہوئیں۔ اس پر میں برطانیہ میں سکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر آگاہی مہم چلائی گئی۔ اب برطانیہ میں آباد پاکستانی تارکین وطن کے بچے برطانیہ میں ہی شادی کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ بچے ذات، برادری سے بالاتر ہو کر اپنی پسند سے اپنا جیون ساتھی چنتے ہیں۔ اب والدین دعا کرتے ہیں کہ ان کے بچے جس کو اپنا زندگی کا ساتھی بنائیں وہ کسی بھی قبیلے، ذات برادری کا ہو لیکن مسلمان ضرور ہو۔

برطانیہ جیسے معاشرے میں جہاں تیس فیصد سے زیادہ افراد بغیر شادی کے اکٹھے رہ رہے ہیں وہاں اپنے بچوں کو شادی کے لئے راضی کرنا ایک مشکل کام ہے۔ پھر بھی زیادہ تر پاکستانی بچے اب بھی اسلامی معاشرت کو اپنائے ہوئے ہیں۔ اپنے بچوں سے دوستی کی حد تک تعلقات اور ایک مضبوط رشتہ بنانے کی ضرورت ہے۔ داؤد جیسے بچوں پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے تا کہ وہ معاشرے کا ایک اچھا فرد بن کر برطانیہ میں ایک مسلمان معاشرے کی بنیادوں کو مضبوط کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments