جمہوریت اور طبقاتی فرق


جہاں سے انسانی معاشرے کی تاریخ کی شروعات ہوتی ہیں تو ساتھ میں طبقاتی فرق کی تاریخ بھی ملتی ہے۔ انسان چونکہ سماجی حیوان ہے اس لیے ہمیشہ سے گروہ کی شکل میں رہتا آیا ہے۔ ایک خاندان سے شروعات لے کر یہ گروپ مفادات کی خاطر آہستہ آہستہ بڑھتا جا تا ہے۔ اور اخر میں ایک معاشرے کی تشکیل دیتے ہیں۔ دنیا کے تمام معاشروں میں طبقاتی فرق موجود ہوتا ہے۔ جس کی درجہ بندیاں ہوتی ہیں۔ یہ طبقاتی فرق بھی انسانی تاریخ چتنا پرانا ہے۔

طبقاتی فرق معاشروں میں خواص، عوام، دولت، شجرہ، اور حاکموں کی شکل میں نظر اتا ہے۔ انسانوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ اس طبقاتی پوزیشن میں اچھے سے اچھے درجے میں خود کو فائز کریں۔ شروع میں انسانی معاشرے میں دو طبقے تھے۔ یعنی خواص اور عوام۔ خواص میں حاکم تھے جو نسب بہ نسب اقتدار پر قابض ہوتے۔ ان کے علاوہ خواص میں مذہبی رہنما یعنی کاہن بھی ہوتے تھے۔ یہ بھی خاندانی سلسلہ نسب سے چلتے۔ اور اس کے بعد عام لوگ ہوتے تھے۔ جو ہر لحاظ سے حاکموں اور مذہبی رہنماؤں سے کمتر جانے جاتے۔ چانکیہ کے مطابق خواص کم ہوتے ہیں اور عوام زیادہ اس لیے جنگوں اور وباؤں میں عوام کو زیادہ مرنا چاہیے۔ اس کے خیال میں فراست اور دانشمندی میں ایک اشراف ہزار عوام کے برابر ہوتا ہے۔ اس لیے عوام کے زیادہ تعداد میں مرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

سرمایہ دارانہ نظام کے ارتقاء نے معاشرے کے بنائے ہوئے طبقاتی نظام میں تھوڑ پھوڑ کی۔ اور اشرافیہ اور عوام کے بعد ایک اور طبقہ بھی وجود میں آیا۔ جو مڈل کلاس یعنی عوام سے مالی لحاظ سے مضبوط اور اشرافیہ سے مالی طور پر کمزور طبقہ مڈل کلاس کہلانے لگا۔ چونکہ اس سے پہلے حکومتی امور امرا اور اور مذہبی طبقات کے ہاتھوں میں ہوتے۔ اس لیے قانون سازی بھی ان کی منشاء اور فائدے کے لئے ہوتی تھی۔ لیکن صنعتی انقلاب کے بعد مڈل کلاس نے بہت ترقی کی۔

جس کے ساتھ فرد کی آزادی اور حقوق کی بات ہونے لگی۔ شروع میں جن افراد نے عوام کی حقوق یا آزادی کی بات کی ان سے بہت سختی سے نمٹا گیا۔ جن لوگوں نے افراد کی آزادی کی بات کی ان کو Rabbles کہا گیا۔ اور ان کو معاشرے یا حکومت کے باغیوں سے تشبیہ دی گئی۔ چونکہ معاملہ حقوق کا تھا اس لیے عوام کی زیادہ سے زیادہ تعداد نے اس کا ساتھ دیا۔ اور حکومتوں کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے عوامی طاقت کا استعارہ بن گئے۔ اس لیے یورپ کے صنعتی ممالک ان کو حقوق دینے پر مجبور ہو گئے۔

آمریتوں کی جگہ جمہوری حکومتوں نے لیں۔ مذہبی پیشواؤں کو ریاستی معاملات سے الگ کیا گیا۔ مزدورں کو ٹریڈ یونینز بنانے اور ان کے کام کرنے کے اوقات اور معاوضوں کے بارے میں قانون سازیاں ہوئیں۔ جس سے ان ممالک میں معاشی نمو اور لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں آ گئیں۔ لیکن طبقاتی فرق اپنی جگہ برقرار رہا۔ جتنی بھی مادی ترقی ہوئی لیکن طبقاتی فرق موجود رہا۔ موجودہ سرمایہ دار معاشرے میں انسانوں کو پیسوں کے لحاظ سے تقسیم کیا گیا ہے۔

سرمایہ دار اور مزدور آج بھی ہیں۔ جس کے پاس زیادہ دولت اس کا طبقہ مختلف۔ انسان کی شروع دن سے یہ کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے یہ طبقاتی فرق ختم کرے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ انسانوں نے اس فرق کو خود بنایا اور انسان ہی اس ترقی دینے میں لگے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک غریب آدمی امیر ہوجاتا ہے تو وہ فوراً اپنی کلاس تبدیل کر کے اوپر والوں کے ساتھ مل جاتا ہے۔ اس کا مطلب کہ طبقات مختلف گروپ ہوتے ہیں۔ اب یہ گروپ مذاہب کی شکل میں بھی ہیں، قومیتوں کی شکل میں بھی ہیں، قانونی شکل میں بھی ہیں اور یقیناً غیر قانونی گروپوں کی شکل میں بھی ہیں۔ آج بھی آمریت کو پسند کرنے والے اور ان کو مدد کرنے والے موجود ہیں۔ آج بھی دنیا میں مذہبی پیشواؤں اور مذہبی جماعتوں اور گروپوں کو سپورٹ کرنے والے دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں۔ جن میں غالب تعداد عوام کی ہے۔ اور یہی عوام ہوتے ہیں جو کسی بھی معاشرے کو نمو دینے اور اس کو نئے سانچے میں ڈالنے کا کام کرتے ہیں۔ ان کی طاقت ان کا آپس میں جمع ہونا ہوتا ہے۔ جب عوام کسی مطالبے کے لئے نکلتے ہیں تو ان کی تعداد بڑھتی رہتی ہے۔ اگر ان کو صحیح راہنما نہ ملے تو یہ مجمع بہت زیادہ نقصان کا سبب بنتا ہے۔ یہ ناراض لوگوں کی مجمع میں تبدیل ہو کر کسی بھی ملک کو انارکی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ ایل ایس کانیتی نے اپنی کتاب ”طاقت اور مجمع“ میں عوام کو اگ سے تشبیہ دی۔

یہ لوگوں کا جمگھٹا ہوتا ہے۔ جو کسی بھی نظام سے مطمئن نہیں ہوتے۔ نئے نظریات سے جلد متاثر ہوتے ہیں۔ جہاں سیاسی جماعتوں کی کمی ہو اور جمہوریت نہ ہو تو یہ لوگ آمروں کے ہاتھ مضبوط کرنے کا کام کرتے ہیں۔ آمر ان سے فائدہ اٹھاتا ہے اور ان لوگوں کو اقتدار پر قبضہ کر نے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ آمر ایک تخیلاتی دشمن پیدا کرتا ہے اور مجمع کے جذبات ان کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ آمر کی تقریر مجمع کو اشتعال دلاتا ہے۔ ان کے جذبات کو بھڑکاتا ہے۔ جرمنی میں ہٹلر نے یہودیوں کے خلاف ہجوم کو استعمال کیا۔

یہی کام پاکستان بننے کے بعد ہمارے عوام سے مسلسل لیا جا رہا ہے مسائل کے مارے عوام میں جب بے چینی بڑھتی ہے تو ایک خاص گروہ ان کے جذبات کو اپنے حق میں استعمال کر کے اقتدار پر قبضہ جما لیتا ہے۔ اور پھر وہی خیالی دشمن، ڈر اور خوف کو عوام کے خلاف استعمال کر کے ان پر حکمرانی کی جاتی ہے۔ اس معاملے میں کچھ سیاسی پارٹیاں بھی شامل ہیں جو عوامی غیض و غضب کو اپنے فائدے کیے استعمال کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے لوگ اس عوامی ہجوم اپنے فائدے اور مفادات کے حصول کا ذریعہ بناتے ہیں۔

عوامی مجمع کو وقتی طور پر مفادات کے حصول کا ذریعہ بنا کر اقتدار تک پہنچنا یہاں عام ہو گیا ہے۔ لیکن اس کے جو نقصانات ہو رہے ہیں وہ سب واضح طور پر نظر آرہے ہیں۔ آزادی سے لے کر آج تک ہم نے صرف اشرافیہ کو مزید طاقتور بنانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ ملکی مسائل اب اتنے بڑھ چکے ہیں کہ کسی کے پاس بھی اس کا حل نہیں ہے۔ اور یہ سب نتیجہ ہے جمہوریت کو پنپنے نہ دینے کا۔ ہم نے جمہوریت بار بار ڈی ریل کر کے طبقاتی فرق کر مزید گہرا کر دیا۔ جب تک جمہوریت کو اصل معنوں میں رائج نہیں کیا جاتا عوام اور ملک کے مسائل بڑھتے رہیں گے۔ اور ساتھ میں طبقاتی فرق بھی بڑھتا جائے گا جو معاشرے میں گہرے شگاف ڈال کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار کردے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments