ایک محنت کش لڑکی کا ایڈونچر


دیکھئے آپ کا گلہ تو بجا ہے۔ اس بات میں رتی برابر شک نہیں کہ میں کچھ عرصے سے لکھنے میں سستی کر رہی ہوں۔ آپ جو کہہ رہے ہیں بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ جب سے پاڈکاسٹس کا روگ لگایا ہے تب سے لکھنا لکھانا تو قصہ پارینہ ہی لگتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج کا یہ کالم بار بار لکھ کر مٹایا ہے۔ مشق نہ ہو تو ماہر پہلوان بھی اکھاڑے میں پچھاڑے جاتے ہیں۔ مجھ جیسے اناڑی لکھاری تو کس کھیت کی مولی ہیں؟

تو صاحب، اتوار کی شام ہے۔ صبح سے کافی بھی نہیں پی لہذا ایک عجیب غنودگی سی طاری ہے۔ سوچا تھا ٹویٹر کی طرف تو دیکھنا بھی نہیں۔ لیکن حضرت دور کیا خوب فرماتے ہین کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔ انہیں نیم وا آنکھوں نے ابھی ایک ٹویٹ دیکھی جس کا جواب ٹویٹر پر تو دیا ہی لیکن یہاں بھی لکھنا ضروری سمجھا۔ وہاں حروف کی قید ہے۔ ایک جملے میں دریا کوزے میں سمونا ہوتا ہے۔ یہ بات کچھ لمبی ہے۔ لہذا سوچا آپ سے ملاقات بھی ہو جائے گا اور دل کے پھپھولے بھی پھوڑ لیے جائیں گے۔

کچھ دنوں سے پٹرول پمپ پر کام کرنے والی ایک نقاب پوش لڑکی کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرلیس ہوئی تھی۔ آخر کار ہم حقیقی زندگی میں جتنے بھی تنگ نظر ہوں ٹویٹر پر تو اپنا آپ woke ہی ظاہر کرتے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں نے اس محنت کش لڑکی کے جذبے کو سراہا کہ وہ ایسے شعبے سے وابستہ ہے جو ہمارے ہاں صنف نازک سے منصوب نہیں۔

لیکن پکچر ابھی باقی ہے، دوست!

جس ٹویٹ کی بابت آپ سے ہم کلام ہوں وہ مصر ہے کہ لڑکیوں کو ایسی نوکریاں نہیں کرنی چاہئیں۔ نسیم اکرم صاحبہ کے بقول

’‏پیٹرول پمپس پر نوجوان لڑکیوں کی کیا ضرورت ہے؟ ہم جس قسم کے سماجی سیٹ اپ میں رہتے ہیں وہاں اس ایڈونچر کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ ‘

محترمہ، بجا فرمایا۔ ایک محنت کش عورت کا اس جنسی بھوکے معاشرے میں روزی روٹی کمانا آپ کے نزدیک ایڈونچر ہی ہو گا۔ ہماری ہمالیہ سے بلند اقدار عورتوں کو گھر بیٹھے روزگار فراہم کرتی ہیں۔ یقیناً یہاں ایسے کوئی گھر نہیں جہاں لڑکیاں کسی بھاری مجبوری کے تحت گھر سے نکل کر اپنے خاندانوں کا پیٹ پالتی ہیں۔ یہاں کون سا کوئی گھر غربت کی سطح سے نیچے کی زندگی گزار رہا ہے؟ یہ وہ ملک بالکل نہیں ہے جہاں لوگ غربت کے ہاتھوں اپنے اولاد فروخت کر دیتے ہیں۔ جہاں بازاروں میں جسم فروشی کا کاروبار ختم ہو چکا ہے کیونکہ عورتوں کے لیے ہر شعبے میں روزگار کے مواقع ہیں۔ یہاں تو عورت کی اتنی عزت ہے کہ کہیں بھی جنسی ہراسانی اور استحصال کے واقعات ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے۔

جناب، خدانخواستہ یہ وہ ملک تھوڑی ہے جہاں قبر سے لاشیں نکال کر جنسی ہوس کا نشانہ بنائی جاتی ہیں۔ یہ وہ معاشرہ تو ہرگز نہیں جہاں بقول منٹو عورت کوٹھا تو چلا سکتی ہے لیکن تانگہ نہیں۔

آپ کی بات سولہ آنے درست ہے کہ اس جواں سال لڑکی کو استحصال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جی صاحب، ایسا نہ ہو کہ ہم یہ سوچنے لگیں کہ کیوں نہ ہم ایسا معاشرہ تخلیق کریں جہاں یہ سوال ہی پیدا نہ ہو؟ جہاں عورت کے استحصال کی ذمہ داری عورت پر نہیں بلکہ اس شخص پر عائد ہو جو یا تو عورت کو ماں جانتا ہے یا گوشت کا ایک ٹکڑا جس کی زندگی کا واحد مقصد بھوکی نظروں کی تسکین ہے۔ ہمارے جیتے جی تو ایسا چنداں ممکن نہیں۔

حضور نے تو ملکہ فرانس کی وہ مشہور زمانہ معصومیت یاد دلا دی جس نے روٹی کے لیے احتجاج کرتے لوگوں کے بارے میں استفسار کیا تھا کہ یہ کیک کیوں نہیں کھا لیتے۔ اس محنت کش لڑکی کو بھی یہی نصیحت ہے کہ کیک کھائے۔ ایڈونچر کا زیادہ شوق ہے تو گھر کے صحن میں موٹر سائیکل چلانا سیکھ لے۔ درخت پر چڑھ کر آم توڑ لے۔ لیکن محنت کر کے روزی کمانا؟ چھی چھی چھی۔

ہم ایک عزت دار معاشرہ ہیں۔ ہمارے قومی ناموس کی ساری ذمہ داری اس قوم کی بیٹیوں کے کاندھوں پر ہی ہے۔ لہذا انہیں ان درد مند صاحب کی تلقین ہے کہ وہ محنت سے روزی کمانے کا خواب دل سے نکال دیں۔ بھوکی مر جائیں لیکن پٹرول پمپ پر نوکری نہ کریں۔ اپنے گھر والوں کی ذمہ داری اٹھانے کا خیال ذہن سے نکال دیں۔ آفٹر آل، زمانہ خراب ہے اور ہماری اقدار چاندی سے بھی شفاف۔

اپنا خیال رکھیے۔ ادارہ ایسے کسی ’ایڈونچر‘ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments