غازی شاہ ٹیلہ: وادیء سندھ کی تہذیب کا قدیم ورثہ


غازی شاہ المعروف گاجی شاہ ٹیلہ سندھ کے موجودہ ضلع دادو کی تحصیل جوہی کے علاقے ٹوڑی کی وادیٔ دھونک میں برساتی ندی یا نالے نئیگ کے

کنارے پر واقع ہے۔ اس ٹیلے کے ہر سو میں قدیم زمانے سے دیوار کی طرح خندق کھودی ہوئے ہے۔ اس خندق کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک وجہ یہ ہو سکتی کہ اس قدیم بستی کو بارانی ندی نالوں کی تغیانی سے سیلاب کا خطرہ ہو گا اس کے دفاع کے لیے خندق ہو سکتی ہے اور دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کسی حملے سے بچنے یا رکاوٹ پیدا کرنے کے لیے خندق کھودی گئی ہوگی۔ بہر صورت یہ ٹیلہ سندھ کے معروف بزرگ پیر گاجی شاہ کے مزار سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر مشرق میں ہے۔ جب کہ غازی شاہ ٹیلہ جوہی شہر سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر جنوب مغرب میں ہے۔ منچھر جھیل بھی اس ٹیلے کے نزدیک ہے۔

مقامی طور پر یہ قدیم بستی یا ٹیلہ ماڑیکڑ دڑو اور پیارو جی ماڑی کے نام سے مشہور ہے۔ مگر 1926 ء سے 1930 ء کے درمیاں سندھ میں قدیم آثار کی کھوج کی مہم کے دوران برطانوی دور کے مشہور ماہر آثار قدیمہ نونی گوپال مجمدار المعروف این جی مجمدار (NG Majumdar) نے یہ مقام دریافت کیا تھا اور رکارڈ میں غازی شاہ ٹیلہ کے نام سے درج کیا۔

اس مقام کا دور این جی مجمدار نے کئلکولیتھک (Chalcholithic) یعنی تقریباً 7000 سال قدیم بتایا ہے جب کہ ڈاکٹر لوئس فلیم اور آثار قدیمہ کے مقامی ماہر تاج صحرائی نے اس کی قدامت 6000 سال بتائی ہے۔ مطلب کہ یہ مقام چانہوں جو دڑو اور آمری ثقافت اور موہنجو دڑو سے بھی قدیم ہے۔ اس مقام سے کاپر کے سوراخ دار مثلث منکے (دانے ) ، کاپر کی مندریاں (Rings) اور کنگن ملے تھے۔ مجھے اس مقام سے پتھر کے رگڑے ہوئے سوراخ دار گول منکے ملے تھے۔ یہاں سے مٹی کے برتنوں پر بیلوں کی نقش نگاری ایسی ملی ہے جیسی موہنجو دڑو کی مہروں پر بیلوں کی تصویریں نقش ہیں۔ یہاں مٹی کے برتنوں پر سندھ آئیبیکس (Sindh Ibex) کی تصویریں بھی نقش ہیں۔

مٹی کے برتنوں پر پپل اور کھجور کے درختوں کے پتے، مختلف پھولوں اور پودوں کی تصاویر نقش ہیں۔ گاڑھے رنگ کے برتنوں پر کالے رنگ سے نقش نگاری کی گئی ہے۔

این جی مجمدار کے مطابق یہاں مٹی کے ایسے برتن بھی ملے ہیں جو ایران اور میسوپوٹیمیا کی تہذیب کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہاں چانہوں جو دڑو، آمری اور بلوچستان کی نال تہذیب کے آثار بھی ملے ہیں۔

بہرحال غازی شاہ کا ٹیلہ وادیٔ سندھ کی تہذیب کا قدیم ترین ورثہ ہے۔ اس مقام پر تحقیق یا کھدائی کا کام این جی مجمدار کے بعد کسی نے نہیں کیا۔ تقریباً 95 سال سے یہ مقام بے دھیانی کا شکار ہے۔ آج تک وہ ہی کھدائی کے نشان یا کھڈے (Trenches) موجود ہیں جو این جی مجمدار نے کھدائی کے دوران کھودے تھے۔

اس ٹیلے سے ملنے والی نوادرات کہاں اور کس میوزیم میں ہیں یہ آج تک پتہ چل نہیں سکا۔ پاکستان یا سندھ کی صوبائی سرکار نے این جی مجمدار کی تحقیقی کام کے بعد پلٹ کر بھی اس مقام کی طرف نہیں دیکھا۔ اب تو ٹیلہ مٹنے لگا ہے۔ لگتا تو خواب ہے پر لکھنا پڑتا ہے کہ حکومت سندھ بالخصوص سندھ کے ثقافت، سیاحت اور نوادرات کے کھاتے کو چاہیے کہ اس ٹیلے یا قدیم بستی کو دیوار دلوا کر محفوظ کرے اور وادیٔ سندھ کی تہذیب کے قدیم ورثہ پر مزید تحقیق کا کام شروع کروائے اور این جی مجمدار کے تحقیقی کام کو آگے بڑھائے تاکہ وادیٔ سندھ تہذیب کا یہ قدیم ورثہ گمشدگی سے بچ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments