سازشوں میں بُنی سیاست!

عاصمہ شیرازی - صحافی


تخیل کو یقین بنانے کے لیے تصور پہلی اور حقیقت آخری منزل ہے۔ خیالات اور تصورات میں ہی یقین تک پہنچ جانا بے وقوفی اور چالاکی تو ہے مگر کسی حد تک بیماری بھی ہے۔

’ہو سکتا ہے‘ کی سازشی تھیوری، بلند خیالی اور پیش بندی وہاں لا کھڑا کرتی ہے جہاں سوائے خود فریبی کے اور کچھ نہیں۔

گذشتہ برسوں پاکستان میں ایک تُرک ڈرامے کا بے حد تذکرہ رہا اور اُسے مقبولیت کی سند تب زیادہ ملی جب سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی اس ڈرامے میں خاصی دلچسپی ظاہر کی۔

ڈرامہ کہانی اور فلمنگ کے اعتبار سے انتہائی جاندار تھا مگر جس طرح سیاست میں سازش کا عنصر دکھایا گیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔

اس ڈرامے کی جُزیات نے عوام کی بڑی تعداد کو سکرین سے ہٹنے نہیں دیا اور مختلف کردار ہمارے معاشرے میں یوں رچ بس گئے کہ جیسے ان کی پیدائش یہیں ہوئی، نہ صرف یہ بلکہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس ’مسلمان ہیرو‘ کے عشق میں گرفتار نظر آئی۔

ہم چونکہ جذباتی قوم ہیں لہٰذا اس ڈرامے نے تُرکوں پر اثر چھوڑا یا نہیں ہم پر اس کا گہرا اثر ضرور ہوا اور کچھ ہوتا یا نہ ہوتا مگر قومی سطح پر یہ خیال پختہ ہو گیا کہ قوم کو حقیقت سے دور اور کسی نہ کسی ڈرامے میں الجھائے رکھنا، ہی سب سے زیادہ اہم ہے۔

یوں قومی سطح پر اس پالیسی کو اپنا لیا گیا اور قوم کو مصروف رکھنے کے اسباب مہیا کیے گئے۔ نہایت کامیابی سے سیاست کو ڈرامہ بنا کر پیش کیا گیا اور کردار فریب کی بنیاد پر اخذ کیے گئے۔

ذرا خود کو دو برس پیچھے لے جائیے اور صرف مشاہدہ کیجیے کہ کس طرح پاکستان کے قومی منظر نامے پر ایسے کردار دکھائی دینا شروع ہوئے کہ جن کا کام صرف عوام کو کھڑکی توڑ ڈرامے دینا تھا۔

ان گذشتہ ساڑھے تین برسوں میں ترقی کا سفر طے ہوا یا نہیں مگر سیاست کے تھیٹر میں ڈرامے کے رنگ پھیکے نہیں پڑنے دیے گئے۔

پہلے پہل یہ کام جن کے سپرد تھا اُنھوں نے اپنے ہاتھوں کردار تشکیل دیے، بظاہر کامیاب کہانی کا پلاٹ تیار کیا، اندرون ملک اور بیرون ملک پروفیسر اور ڈاکٹر مارکہ لوگ بھرتی کیے۔ سٹیج سجایا گیا، کرداروں کو ٹارگٹ آڈینس مہیا کی گئی، بوقت ضرورت ’اسلامی ٹچ‘ سمیت کئی طرح کے ’ٹچ‘ دیے گئے اور پھر کہانی انہی کرداروں کے سُپرد کر دی گئی۔

پہلے پہل یہ کردار غداری اور پھر کردار کُشی کے ’مکالمے‘ لکھتے رہے اور چُن چُن کر سکرپٹ میں تنقید نگاروں کو آڑے ہاتھ لیا جاتا رہا۔ ڈرامے کے خلاف زبان کھولنے والوں کی زبانیں کھینچ لی گئیں اور ڈرامہ مقبول بنانے کے لیے ہر روز نئے کرداروں کا اضافہ کیا جاتا رہا۔

دیکھتے ہی دیکھتے سیاست سازشی، صحافت سفارشی، سفارتکاری کاغذی بنتی چلی گئی۔ الزام اور بہتان کو عروج ملا، چند عزت دار چُپ ہو گئے اور چند جو بولتے رہے اُن کی کردار کُشی کی جاتی رہی۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ اس ڈرامے میں بوقت سیاسی ضرورت آڈیو اور وڈیو لیکس کے سیکوئیل متعارف کروائے گئے۔ کبھی چیئرمین نیب کی وڈیو تو کبھی جج ارشد ملک نشانہ بنے اور اب آڈیو لیکس کی بُہتات ہے۔

سماج اور سیاست کو بداخلاقی اور بدزُبانی کی جس بھینٹ چڑھا دیا گیا اب اُس غلاظت سے باہر نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ کہانی نے حیران کُن طور پر اُس موڑ پر یوٹرن لیا جہاں سکرپٹ کے مطابق یوٹرن تھا ہی نہیں۔

اپوزیشن کی عدم اعتماد کی دو سالہ منصوبہ بندی بلآخر کچھ واضح اور کچھ غیر واضح وجوہات کی بنیاد پر کامیاب ہوئی تو ایک اور سازشی ڈرامہ ’خود داری‘ منظر عام پر آ گیا جو خود فریبی سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ خود داری کے سارے مکالمے غداری سے جوڑ دیے گئے اور غداری کا بیانیہ کہاں سے نکلا اب اس پر کہنا لکھنا نہیں بہرحال ’صوتی حوالہ‘ اہم ہے۔

ایک ایک کر کے تمام سازشیں اور سازش میں اُلجھی سیاست منظر عام پر آ رہی ہے۔ یوٹرن پالیسی کے نتیجے میں تخلیق شُدہ صحافی نُما سیاسی کارکن اور سوشل میڈیا جنگجو ہر ناکام پالیسی کی طرح ایک بار پھر سماجی رابطے کے خود کُش بن چکے ہیں۔

کہانی کے کردار نہیں جانتے کہ ڈرامے کو ایک دن ختم ہونا ہوتا ہے، کہانی کو انجام کی جانب بڑھنا پڑتا ہے البتہ کون سا کردار ہیرو ہو گا اور کون ولن اس کا فیصلہ پردے کے سامنے بیٹھے ناظرین نے کرنا ہے۔ انتظار فرمایے کا بینر آویزاں ہے۔۔۔ کیا کبھی پردہ گرے گا اور تماشہ ختم ہو گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments