جی 20 سربراہی اجلاس انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ہوا تو کیا چین، سعودی عرب اور ترکی اعتراض کر سکتے ہیں؟

رجنیش کمار - نامہ نگار بی بی سی


فائل فوٹو
جی 20 دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کی تنظیم ہے۔ عالمی جی ڈی پی میں ان 20 ممالک کا حصہ 80 فیصد ہے
دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کی تنظیم جی 20 کا سربراہی اجلاس انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں منعقد کرنے پر غور ہو رہا ہے۔

جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد یہ وہاں منعقد ہونے والی پہلی بڑی بین الاقوامی کانفرنس ہو گی۔ پانچ اگست سنہ 2019 کو مودی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے مرکز کے دو زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔

جی 20 دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کی تنظیم ہے۔ عالمی جی ڈی پی میں ان 20 ممالک کا حصہ 80 فیصد ہے۔

گذشتہ سال ستمبر میں انڈیا کی مرکزی حکومت نے وزیر تجارت اور صنعت پیوش گوئل کو جی 20 کے لیے انڈیا کا نمائندہ قرار دیا تھا۔

جموں و کشمیر میں جی 20 سربراہی اجلاس پر اعتراضات

یکم دسمبر 2022 سے 30 نومبر 2023 تک جی 20 کی سربراہی انڈیا کے پاس ہے۔ اس کے لیے انتظامات کی غرض سے جموں و کشمیر حکومت نے 23 جون کو ایک پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی اور ریاست کے ہاؤسنگ اور شہری ترقی کے محکمے کے پرنسپل سیکریٹری کو اس کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا تھا۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق یہ کمیٹی چار جون کو وزارت خارجہ سے موصول ہونے والی ہدایات کی بنیاد پر تشکیل دی گئی تھی۔

فائل فوٹو

جموں و کشمیر میں جی 20 سربراہ اجلاس کے انعقاد کو ایک سٹریٹیجک اقدام قرار دیا گیا ہے

پاکستان کا اعتراض

کچھ لوگوں نے جموں و کشمیر میں جی 20 سربراہ اجلاس کے انعقاد کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے ایک سٹریٹیجک اقدام قرار دیا ہے لیکن سب سے پہلے پاکستان نے اس پر اعتراض کیا۔

26 جون کو پاکستان نے انڈیا کے اس اقدام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر ’بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے۔‘

پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ’یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں گذشتہ سات دہائیوں سے ایک نامکمل ایجنڈا ہے۔ جموں و کشمیر کے متنازع علاقے کے باوجود عالمی برادری اس سربراہی اجلاس کے لیے تیار نہیں ہو سکتی۔‘

یہ بھی پڑھیے

کشمیر میں عرب سرمایہ کاروں کی کانفرنس: ’جگہ اچھی لگی تو سرمائے کی ریل پیل ہوگی‘

کشمیر کو خصوصی حیثیت کیسے ملی اور اسے ختم کس بنیاد پر کیا گیا؟

جی 20: سعودی عرب کے معاملے میں انسانی حقوق کے مسائل کو بھلایا نہیں جا سکتا

عبدالباسط، جو انڈیا میں پاکستان کے ہائی کمشنر تھے، ان کا کہنا تھا کہ انڈیا نے بہت چالاکی سے جی 20 کی منصوبہ بندی کی اور پاکستان کو بہت احتیاط سے اس پر آگے بڑھنا ہو گا۔

عبدالباسط نے ایک ویڈیو بلاگ میں کہا ہے کہ ’پاکستان چین، سعودی عرب، ترکی اور انڈونیشیا سے کہے کہ وہ اس سربراہی اجلاس میں شرکت نہ کریں لیکن ان ممالک کو اب جموں و کشمیر میں ہونے والے ایونٹ پر اعتراض کرنا پڑے گا، ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔‘

’انڈیا اس میں کئی خلیجی ممالک کو بطور مہمان مدعو کرنا چاہتا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ پچھلے مہینے یو اے ای کے صدر خود مودی کے استقبال کے لیے ہوائی اڈے پر کھڑے ہوئے تھے۔ اگر پاکستان جموں و کشمیر میں ایسا ہونے سے نہیں روک سکا تو یہ بڑا دھچکہ ہو گا۔‘

کیا چین اس اجلاس میں شامل نہیں ہو گا؟

پاکستان کے بیان کے بعد چین سے بھی جموں و کشمیر میں جی 20 سربراہی اجلاس کی تنظیم کے حوالے سے سوال پوچھا گیا۔

30 جون کو میکسیکو کے ایم ایس ٹی وی نے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان چاؤ لیجیان کی پریس کانفرنس میں سوال پوچھا کہ ’انڈیا 2023 میں جموں و کشمیر کے متنازع علاقے میں جی 20 سربراہ اجلاس منعقد کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ پاکستان نے انڈیا کے اس منصوبے کی مخالفت کی ہے۔ اس بارے میں چین کی کیا رائے ہے؟‘

اس سوال کے جواب میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ’ہم نے اس حالیہ پیشرفت کو نوٹ کیا ہے۔ جموں و کشمیر پر چین کا مؤقف واضح ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔‘

’کشمیر کا مسئلہ ماضی سے متنازع ہے اور اسے اقوام متحدہ کے چارٹر، سلامتی کونسل کی قرارداد کے ساتھ دوطرفہ معاہدے کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ دونوں فریقوں کو یکطرفہ طور پر ایسا کچھ کرنے سے گریز کرنا چاہیے، جس سے صورتحال مزید پیچیدہ ہو۔ بات چیت کے ذریعے حل تلاش کیا جائے۔ یہ علاقائی امن و استحکام کے لیے ضروری ہے۔‘

چین نے کہا کہ ’جی 20 بین الاقوامی اقتصادی اور مالی تعاون کے لیے ایک اہم فورم ہے۔ ہم تمام بڑی معیشتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ عالمی معیشت کو مشکلات سے نکالنے پر توجہ دیں اور اس سربراہی اجلاس پر سیاست نہ کریں۔ ہمیں عالمی معیشت کی بہتری کے لیے مثبت اقدامات کرنے چاہییں۔‘

چین کے اس جواب پر انڈیا کی خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے سوال کیا کہ ’کیا چین کشمیر میں جی ٹوئنٹی اجلاس میں شرکت کرے گا؟ اگر کشمیر متنازعہ مسئلہ ہے تو چین اس علاقے سے چین پاکستان اکنامک کوریڈور کیوں لے جا رہا ہے؟‘

اس پر چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ’آپ نے یہاں دو مسائل کا ذکر کیا ہے جبکہ دونوں اپنی نوعیت میں بالکل مختلف ہیں۔ چین نے پاکستان میں کچھ منصوبے شروع کیے ہیں تاکہ وہاں کے لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنایا جا سکے۔ یہ منصوبے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں ہیں۔

’منصوبے سے وابستہ چینی کمپنیاں پاکستان کی معیشت اور معاش کے مسائل حل کرنے میں مدد فراہم کر رہی ہیں۔ اس سے کشمیر پر چین کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔‘

فائل فوٹو

کہا جا رہا ہے کہ انڈیا نے جموں و کشمیر میں G-20 کے انعقاد کی پہل تو کر لی ہے لیکن اس کا انعقاد اتنا آسان نہیں

پی ٹی آئی نے پھر سوال کیا کہ کیا چین کشمیر میں جی ٹوئنٹی اجلاس میں شرکت کرے گا؟ اس پر چاؤ لیجیان نے کہا کہ ’میں نے پہلے ہی چین کی پوزیشن واضح کر دی ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ ہم اس اجلاس میں شرکت کریں گے یا نہیں۔‘

جب انڈیا نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی تو چین نے بھی اعتراض میں کہا تھا کہ وہ جموں و کشمیر کی حیثیت سے چھیڑ چھاڑ کو قبول نہیں کرتا۔

کیا دیگر ممالک کو بھی اعتراض ہے؟

کہا جا رہا ہے کہ انڈیا نے جموں و کشمیر میں G-20 کے انعقاد کی پہل تو کر لی ہے لیکن اس کا انعقاد اتنا آسان نہیں۔

پاکستان کا خیال ہے کہ اگر G-20 سربراہ اجلاس جموں و کشمیر میں منعقد ہوتا ہے تو اس سے یہ پیغام جائے گا کہ کشمیر پر انڈیا کا مؤقف بین الاقوامی سطح پر قابل قبول ہے اور یہاں سب کچھ معمول پر ہے۔

سعودی عرب سمیت کئی خلیجی ممالک میں انڈیا کے سفیر تلمیز احمد کا کہنا ہے کہ انڈیا کو اپنے کسی بھی علاقے میں جی 20 سربراہی اجلاس منعقد کرنے کا پورا حق ہے۔

تلمیز احمد نے کہا کہ جموں و کشمیر جو انڈیا کا حصہ ہے اس پر کوئی تنازع نہیں۔ ’یہ ہمارا خود مختار علاقہ ہے۔ تنازع پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ سعودی عرب اور ترکی کو جموں و کشمیر میں G-20 سربراہی اجلاس کے انعقاد سے کوئی مسئلہ ہو گا۔‘

تلمیز احمد کہتے ہیں ’پاکستان جی 20 کا رکن بھی نہیں۔ اس لیے اس کے اعتراض کا کوئی فائدہ نہیں۔ چین نے یہ نہیں کہا کہ وہ اس اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا۔

’اگر ترکی اور سعودی عرب کو جگہ کا مسئلہ ہے تو سفارتی سطح پر بات کریں گے۔ شملہ معاہدے میں پاکستان نے کشمیر کو بھی دو طرفہ معاملہ سمجھا تھا تو اس میں جھگڑا کہاں ہے؟‘

تاہم ترک صدر رجب طیب اردوغان نے کئی مواقع پر کشمیر پر پاکستان کی کُھل کر حمایت کی ہے۔ فروری 2020 میں پاکستانی پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران اردوغان نے کہا تھا کہ ’کشمیر جتنا اہم پاکستان کے لیے ہے اتنا ہی ترکی کے لیے بھی ہے۔‘

ترکی نے بھی کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹانے کی مخالفت کی تھی۔

انڈیا کی وزارت خارجہ نے اردوغان کے ریمارکس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ترکی کو انڈیا کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

ساتھ ہی سعودی عرب نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا لیکن تاریخی طور پر سعودی عرب نے بھی کشمیر کے معاملے میں پاکستان کے ساتھ اتفاق کیا ہے۔

https://twitter.com/Swamy39/status/1543491854628376576

دوسری جانب بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی نے تین جولائی کو ٹویٹ کیا اور کہا کہ مودی حکومت جی 20 سربراہی اجلاس کے انعقاد کے لیے تیار ہے۔

اپنی ٹویٹ میں سوامی نے لکھا کہ ’اس سے قبل اعلان کیا گیا تھا کہ اسے جموں و کشمیر میں کیا جائے گا۔ اس کے بعد چین اور پاکستان نے شور مچایا اور اب یہ اجلاس دلی میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ شاید پرگتی میدان میں۔ 54 انچ کی چھاتی۔‘

بی بی سی نے سبرامنیم سوامی سے پوچھا کہ کیا انھیں حکومت سے کوئی اطلاع ملی ہے کہ جموں و کشمیر میں جی 20 سربراہ اجلاس نہیں ہو گا؟ اس کے جواب میں سوامی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے ایسی بہت سی رپورٹس موصول ہوئی ہیں کہ یہ کانفرنس دلی میں ہی ہوں گی۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ پرگتی میدان میں ہی ہو گی۔‘

اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا یہ انڈیا کے لیے ایک جھٹکا ہے؟ اس پر سوامی نے کہا کہ ’میں اس پر ابھی کچھ نہیں کہوں گا لیکن حکومت کو اس بارے میں پہلے سے سوچنا چاہیے تھا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments