کس کو لگام دینے کی ضرورت ہے؟


 دو ہفتہ قبل اس عاجز نے ایک کالم میں خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلی کی ایک قرارداد پر تبصرہ کیا تھا۔ اس قرارداد میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ صوبائی حکومت اس صوبہ میں احمدیوں کو لگام دے۔ گذشتہ کالم میں یہ تجزیہ پیش کیا گیا تھا کہ اس قرارداد سے یہی تاثر ملتا ہے کہ معزز ممبران اسمبلی کے ذہنوں میں بنیادی حقوق کا تصور واضح نہیں ہے۔ اس کالم میں اسی قرارداد کے تجزیہ کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلائی جائے گی۔ اس قرارداد کے ایک اور حصہ میں احمدیوں کے متعلق لکھا ہے :

“ان کی پاکستان میں مسلمان کی حیثیت سے دعوت و تبلیغ اور اس مقصد کے لئے مسلمانوں کی طرز پر مساجد بنانے سمیت خود کو مسلمان کہلانے پر پابندی عائد ہے البتہ قادیانی فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ پاکستان میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی طرح زندگی گذار سکتے ہیں۔ “

ذرا سخاوت ملاحظہ فرمائیں۔ کس طرح بیچارے حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر احمدیوں کو زندگی گذارنے کی اجازت عطا فرمائی جا رہی ہے۔ صاحبان من! پاکستان میں یا دنیا کے کسی اور ملک میں کسی شخص کو زندہ رہنے کے لئے کسی اسمبلی کی اجازت کی ضرورت نہیں۔ یہ ہر شخص کا پیدائشی اور ناقابل تنسیخ حق ہے۔ یہ درست ہے کہ جنرل ضیاالحق صاحب نے ایک آرڈیننس کے ذریعہ احمدیوں پر یہ پابندی لگائی تھی کہ وہ اپنے مسلک کی تبلیغ نہیں کر سکتے۔ اب یہ پابندی تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 سی کا حصہ ہے۔ اسے جرم قرار دیا گیا ہے، جس کی سزا تین سال کی قید ہے۔ اور یہ بھی درست ہے کہ اس وقت پاکستان کے قانون میں احمدیوں کے مخالفین پر کوئی پابندی نہیں۔ وہ احمدیوں کو بھی ان کے عقائد کے خلاف کھل کرتبلیغ کر سکتے ہیں لیکن اس آرڈیننس کی رو سے احمدی اس کا جواب نہیں دے سکتے۔ اس کے باوجود پاکستان کے آئین کی شق 25 ان الفاظ سے شروع ہوتی ہے

“تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور قانونی تحفظ کے مساوی طور پر حق دار ہیں۔ “

کیا یہ برابر کا سلوک ہے؟ اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کرسکتے ہیں۔ اس قرارداد کے جو الفاظ اوپر درج کئے گئے ہیں، ان میں ایک اور بات ناقابل فہم ہے۔ اس میں درج ہے کہ احمدیوں پر اس بات کی پابندی ہے کہ وہ مسلمانوں کی طرز پر کوئی عبادت گاہ نہیں بنا سکتے۔ آئین اور قانون کی رو سےنہ صرف احمدیوں پر بلکہ کسی اور مسلک یا عقیدہ کے احباب پر اس قسم کی کوئی پابندی نہیں کہ وہ کسی خاص طرز کی عبادت گاہ بنائیں۔ نہ معلوم ممبران خیبر پختونخوا اسمبلی آرکیٹیکچر کے شعبہ میں کیوں داخل ہو گئے۔ قانون اور آئین میں کہیں بھی یہ درج نہیں کہ مسلمانوں کی مساجد کس طرز پر بنائی جائیں گی کہ یہ معین ہو گیا ہو کہ مسلمانوں کی مساجد کس طرز کیا ہوتی ہیں؟ جنرل ضیاالحق صاحب نے جو آرڈیننس نافذ کیا تھا اس میں یہ الفاظ ضرور ہیں کہ احمدیوں پر اس بات کی پابندی لگائی جاتی ہے کہ وہ اپنی عبادت گاہ کو مسجد نہیں کہہ سکتے۔ لیکن اس کا کسی عمارت کی طرز تعمیر سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔

یہ بات نا قابل فہم ہے کہ اکثر یہ مطالبہ سامنے آتا ہے کہ احمدی اقلیتوں کی طرح زندگی گذاریں۔ جیسا کہ گذشتہ کالم میں یہ عرض کی گئی تھی کہ آئین کی تمہید میں یہ ضرور درج ہے کہ پاکستان میں مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیوں کو ترتیب دیں لیکن آئین میں یہ کہیں پر درج نہیں کہ احمدیوں کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ اقلیتوں کی طرح زندگی گزاریں۔ پہلے تو سمجھایا جائے یہ “اقلیتوں کی طرح زندگی ” کا مطلب کیا ہے۔ فی الحال اقلیتوں کے ذکر کو چھوڑیں، ایک اور پہلو کا ذکر کرتے ہیں۔ قرارداد مقاصد 1949 میں منظور کی گئی تھی کہ مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیوں کو ترتیب دیں۔ کیا حکومت اس کام کو سرانجام دینے میں کامیاب ہو گئی ہے؟ کیا ریاست پاکستان میں یہ کام مکمل ہو گیا ہے جو احمدیوں کو لگام دینے کی فکر کی جا رہی ہے۔

اسلامی تعلیمات دیانتداری سکھاتی ہیں۔ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے مطابق کرپشن کے حساب سے دنیا کے 180 ممالک میں پاکستان کا نمبر 140 ہے۔ اور گذشتہ سال 28 پوزیشنوں کی تنزلی کے بعد پاکستان نے یہ پوزیشن حاصل کی ہے۔ اسلامی تعلیمات عدل و انصاف سکھاتی ہیں اور 2021 میں ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کے مطابق قانون کی حکمرانی کے حساب سے دنیا کے 139 ممالک میں پاکستان کا نمبر 130 تھا۔ اور جنوبی ایشیا کے چھ ممالک میں پاکستان کا پانچواں نمبر تھا۔ اسلام تعلیم کے حصول کو ہر مرد اور عورت کا فرض قرار دیتا ہے اور جب شرح خواندگی کا موازنہ کیا گیا تو 120 ممالک میں پاکستان کا نمبر 113 تھا۔ اسلام امن کی تعلیم دیتا ہے اور جب اس سال کے دوران عالمی دہشت گردی کا انڈیکس تیار ہوا تو پاکستان دنیا بھر میں دہشت گردی سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں دسویں نمبر پر تھا۔ آئین میں ہدف تو یہ مقرر کیا گیا تھا کہ لوگوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ترتیب دیں اور ہم نے کیا حاصل کیا؟ آج بد قسمتی سے آج ہم ہر بری چیزیں میں آگے اور ہر خوبی میں سب سے پھسڈی ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔

بہرحال اس قرارداد میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ احمدیوں کو لگام دی جائے۔ لیکن جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ وطن عزیز دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثر ہیں۔ لیکن بات صوبہ خیبر پختون خوا کی قرارداد کی ہو رہی ہے۔ یہ جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستان میں کون سا صوبہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے؟ مختلف ادارے اور محققین اس ضمن میں مختلف اعدادو شمار پیش کرتے ہیں۔ ہم  South Asian Terrorism Portalکے اعداد و شمار کا جائزہ لیتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق  2000 سے اب تک خیبر پختون خوا میں  18088 افراد دہشت گردی کا شکار ہوئے اور صوبہ خیبر پختون خوا میں انضمام سے قبل فاٹا میں یہ تعداد 27916 تھی۔ گویا موجودہ صوبہ پختون خوا میں یہ مجموعی تعداد 46004 بن جاتی ہے۔ اس دوران پنجاب میں 2574  افراد دہشت گردی سے ہلاک ہوئے، سندھ میں یہ تعداد 7703 اور بلوچستان میں تعداد  8431 تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سب سے زیادہ صوبہ خیبر پختونخوا میں مظلوم پاکستانیوں کا خون بے دردی سے بہایا گیا۔ اور دہشت گردوں نے دل کھول کر خون کی ہولی کھیلی۔ باقی تمام صوبوں میں ہونے والی مجموعی شہادتیں اس صوبہ میں ہونے والی المناک شہادتوں سے بہت کم تھیں۔ اس صوبہ میں دہشت گردوں کو لگام دینا کس کا کام تھا؟ یہ اس صوبہ کی صوبائی حکومت کا فرض تھا کہ وہ دہشت گردوں کو لگام دے۔ اور اس صوبہ کی صوبائی اسمبلی کا یہ فرض تھا کہ وہ اس عمل کی نگرانی کرے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ فرض کیوں نہیں ادا کیا گیا؟ ان دہشت گردوں کو لگام کیوں نہیں دی گئی؟

کیا اس صوبہ میں چھیالیس ہزار سے زیادہ شہادتیں کیا کم المیہ تھیں کہ صوبائی اسمبلی میں مزید ناخوشگوار واقعات کی نوید سنائی جا رہی ہے [اس قرارداد میں یہ کہا گیا تھا کہ بیشتر اس کے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ ہو حکومت قادیانیوں کو لگام دے]۔ چھیالیس ہزار سے زاید ناخوشگوار واقعات تو ہو چکے ہیں۔ اس قرارداد میں غیور عوام کا ذکر کیا گیا ہے۔ غیرت اور شجاعت کا تقاضا تو یہ تھا کہ ہم پاکستان میں اور خاص طور پر اس صوبہ میں اس منحوس سلسلہ کو ختم کرتے اور یہ اعلان کرتے کہ ہم نے قتل وغارت کے اس سلسلہ کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا ہے۔ غیرت کا تقاضا تو یہ تھا کہ ہم اپنی شرح خواندگی نوے فیصد سےاوپر لے کر جاتے۔ کارنامہ تو تب ہوتا جب ہم یہ اعلان کرتے کہ اب ہمیں کسی ملک یا ادارے کے قرضوں یا بھیک کی ضرورت نہیں۔ بد عنوانی کوختم کرتے اور دنیا کو بتاتے کہ ہمارے ملک میں قانون کی مثالی حکمرانی ہے۔ یہ سب کچھ کس طرح ہو؟ ابھی ہمیں ایک دوسرے کو لگام دینے سے ہی فرصت نہیں ملی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments