حُسینی پُل عبور کرنے کی کوشش میں طالب علم ہلاک: ’نہیں معلوم تھا وہ اپنی موت کی طرف جا رہا ہے‘

محمد زبیر خان - صحافی


’تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے بچے کے ساتھ حادثہ ہوا ہے۔ مگر حادثے کی تحقیقات تو ہونی چاہئییں کہ پتا چلے کہ کیسے اور کیوں حادثہ ہوا اور آئندہ ایسے حادثے سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔‘

یہ کہنا تھا گلگت بلتستان کے شہر ہنزہ میں ایڈونچر پُل سمجھے جانے والے ‘حسینی پُل’ سے دریا میں گر کر ہلاک ہونے والے سید غلام مرتضی شاہ کے قریبی عزیز رحیم شاہ کا۔

رحیم اسلام آباد میں ملازمت کرتے ہیں اور ان کے مطابق سید غلام مرتضی صوبہ سندھ کے ضلع نوشہرو فیروز کے رہائشی اور کراچی میں اقرا یونیورسٹی میں الیکڑانک انجینیئرنگ کے آخری سال کے طالبعلم تھے۔ انھوں نے سوگواروں میں دو بھائی، تین بہنیں اور بیوہ والدہ چھوڑی ہیں۔

رحیم شاہ کے مطابق منگل کی دوپہر کو ہنزہ سے ان کی میت اسلام آباد پہنچائی گئی ہے۔ اہل خانہ کے مطابق نوشہرو فیروز پہنچتے ہی نماز جنازہ ادا کر کے تدفین کر دی جائے گی۔

واضح رہے کہ یہ حادثہ سوموار کے روز پیش آیا تھا۔

حادثہ کیسے پیش آیا؟

رحیم شاہ بتاتے ہیں کہ انھیں سید غلام مرتضی شاہ کے ساتھ موجود ان کے ایک کزن اور تین دوستوں نے بتایا کہ ان لوگوں نے اپنے تفریحی دورے کے موقع پر فیصلہ کیا کہ وہ حسینی پُل سے گزر کر اپنے دورے کو یادگار بنائیں گے۔ ‘اس شوق کی خاطر وہ حُسینی پل پہنچے۔’

غلام مرتضی کے ساتھ موجود ان کے کزن اور دوستوں نے اہل خانہ کو بتایا کہ جیسے ہی غلام مرتضی پُل کے درمیان میں پہنچے تو اچانک انھوں نے اپنی عینک اُتار دی۔

رحیم کے مطابق ’ہمیں بتایا گیا کہ غلام مرتضی نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پُل کے اطراف موجود پتلی تاروں کو پکڑا ہوا تھا جس کی مدد سے وہ آگے بڑھ رہے تھے۔ اس موقع پر انھوں نے کچھ اس طرح ہاتھ اوپر اٹھائے جیسے انھیں کوئی تکلیف محسوس ہوئی ہو یا چکر وغیرہ آیا ہو۔ چند ہی لمحوں میں وہ پُل پر گِر گئے۔‘

رحیم بتاتے ہیں کہ ’جب غلام مرتضی گرے تو اس وقت ایک اور فیملی قریب سے گزر رہی تھی۔ اس میں موجود ایک شخص نے انھیں پکڑا اور سہارا دینا چاہا۔‘

رحیم شاہ کہتے ہیں غلام مرتضی کے کزن اور دوستوں کے مطابق ’اُس شخص نے کچھ دیر غلام مرتضی کو تھامے رکھا مگر پھر وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پا رہا تھا۔ توازن برقرار رکھنے کی کوشش کے دوران اس شخص کا ہاتھ غلام مرتضی کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور غلام مرتضی دریا میں گر گئے۔ اُس شخص نے بعد ازاں کزن اور دوستوں سے افسوس کا اظہار کیا کہ وہ انھیں بچا نہیں سکا۔‘

رحیم شاہ کے مطابق ’غلام مرتضی کے دریا میں گرنے کے بعد اُن کے دوستوں اور دیکھنے والوں نے شور شرابہ کیا تو موقع پر موجود ریسیکو اہلکار پہنچ گئے جنھیں پہلے تو یقین نہ آیا کہ کوئی سیاح دریا میں گرا ہے مگر جلد ہی انھوں نے تلاش شروع کر دی۔‘

’دریا تیز رفتار تھا مگر پھر بھی ریسیکو اہلکاروں نے تین گھنٹے کی کوشش کے بعد اُن کی لاش کو دریا سے نکال لیا۔‘

حسینی بریج کا ایڈونچر کیا ہے؟

حسینی پُل

حسینی پُل

ہنزہ کے علاقے میں حُسینی برج یا حُسینی سسپینشن برج درحقیقت ہوا میں معلق ایک پُل ہے یعنی عام پلوں کے برعکس اس طویل پُل کے کوئی ستون نہیں ہیں جو اسے سہارا دیتے ہوں۔

یہ پُل مقامی لوگ عرصہ دراز سے اپنے آپسی رابطوں اور دریا کو عبور کرنے کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں۔

اس پُل کے تختے اس طرح لگائے گئے ہیں کہ ان میں فاصلہ ہے، یعنی ایک کے بعد دوسرا قدم رکھنے کے لیے لمبا قدم اٹھانا پڑتا ہے کیونکہ تختوں کے درمیان فاصلہ ہے۔

مقامی افراد کے مطابق تختوں کے درمیاں فاصلہ اس لیے رکھا گیا ہے کیونکہ یہ ایک معلق پُل ہے اور جب ہوا تیز چلتی ہے تو تختوں کے درمیان فاصلہ پُل کو گرنے سے بچاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

‘چین میں شیشے کے خطرناک پل بند‘

دنیا کی نظروں سے اوجھل وہ شہر جو دیکھنے والوں کو مایوس نہیں کرتا

برطانیہ کی وہ پرخطر سڑک جس پر کی گئی ایک غلطی بھی جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے

مقامی افراد کے مطابق ایک مرتبہ تختوں کے درمیاں فاصلہ ختم کیا گیا تھا مگر تیز ہوا چلنے سے پورا پُل ہی الٹ گیا اور کچھ عرصے کے لیے ناقابل استعمال رہا، جس کے بعد دوبارہ تختوں میں فاصلہ رکھ دیا گیا تاکہ تیز ہوا پُل کو نقصان نہ پہنچائے۔

سردیوں میں جب دریا میں پانی کم ہو جاتا ہے تو اس وقت اس پُل کی ضرورت باقی نہیں رہتی ہے کیونکہ مقامی لوگ دریا میں سے گزرگاہ بنا لیتے ہیں۔

ریسکیو اہکاروں کے مطابق 635 فٹ طویل اس پُل کو بنانے کے لیے چھ بڑی تاریں استعمال کی گئی ہیں۔ ان چھ تاروں کی مدد سے اس پورے پُل کو جوڑا گیا ہے۔ سنہ 2015 تک زیادہ تر اس پُل کو مقامی لوگ ہی استعمال کرتے تھے اور اکا دکا سیاحوں کو ہی اس کا پتہ تھا۔

مگر بعد میں اس پل سے گزرنا ایک ایڈونچر میں بدلا اور اب اس علاقے میں جانے والے سیاح اس پُل تک لازمی آتے ہیں، بھلے وہ اس کو عبور کریں یا نہ کریں۔

کئی اہم شخصیات نے اس پُل کو عبور کرتے ہوئے اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کیں جس کے نتیجے میں یہ سیاحوں میں مشہور ہوتا چلا گیا۔

سوموار کو غلام مرتضی کے دریا میں گرنے کے واقعے کے بعد سے مقامی انتظامیہ نے اس پُل کو تاحکم ثانی بند کر دیا ہے۔

’بہن کا سامنا نہیں کر پا رہا‘

غلام مرتضی کے ماموں مہتاب شاہ کہتے ہیں کہ ان کے بھانجے کے والد پہلے ہی وفات پا چکے ہیں جس کے بعد ان بچوں کی نگرانی کی ذمہ داری اُن پر آن پڑی تھی۔ ’ہمارا ایک ہی مشترکہ گھر ہے۔ غلام مرتضی انجینیئرنگ کے آخری سال میں تھا۔ وہ بہت لائق تھا اور چاہتا تھا کہ بیچلرز کے بعد مزید تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس ٹور کا؛پروگرام غلام مرتضی اور میرے بیٹے نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر بنایا تھا۔ اس کی اجازت بھی غلام مرتضی نے مجھ سے حاصل کی تھی کیونکہ سب جانتے ہیں کہ میں اپنے بھانجوں کی بات کو کم ہی ٹالتا ہوں۔ ویسے بھی بچے اور طالب علم تھے کچھ تفریح ان کا حق ہے۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ میرا بھانجا تفریحی دورے پر نہیں اپنی موت کی طرف جا رہا تھا۔‘

مزید پڑھیے

’صحرائی پتنگ‘: تین ملکوں میں پھیلا ایک قدیم اور پراسرار معمہ

’موت کی شاہراہ‘: دنیا کی خطرناک ترین سڑک جہاں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں

غلام مرتضی کے ماموں کے مطابق ان لوگوں نے حیدر آباد سے اپنے ٹور کا آغاز کیا تھا۔ ’اس دوران میرے ساتھ بات تو نہیں ہوئی مگر ان دونون لڑکوں کی اپنے بہن بھائیوں سے بات ہوتی رہی تھی۔ وہ بتا رہے تھے کہ وہ بہت تفریح اور مزہ کر رہے ہیں۔ بتا رہے تھے کہ بس اب چند دونوں میں واپسی ہے۔‘

’اُس کی والدہ اکثر میرے ساتھ اُس کے رشتے کے متعلق بات کرتی تھیں۔ کچھ رشتوں کے بارے میں مشورہ بھی کرتیں تو میں اُن کو کہتا کہ پہلے اس کو ڈگری پوری کر کے مستقبل بنانے دو پھر شادی کرنا، مگر وہ نہیں مانتی تھی کہتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ ڈگری کا انتظار کروں گئیں اور شادی کروا دوں گی۔‘

’جب سے حادثہ کی اطلاع پہنچی ہے اس وقت سے اپنی بہن کا سامنا نہیں کر پا رہا ہوں۔ کروں بھی تو کیسے سمجھ ہی نہیں آتا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments