رزق حلال عین عبادت نوٹ پر چھپا ہی اچھا ہے!


یہ دفتر کے بادشاہ باؤ اویس کا بڑا لڑکا احمد اویس ہے۔ اس کا دوست نعمان تفریح کے وقت کینٹین سے ستر روپے کی کولڈ ڈرنک کے ساتھ سو روپے کا کلب سینڈوچ کھاتا ہے۔ احمد کی جیب اکثر خالی رہتی ہے پیسے ہوں بھی تو تیس روپے سے زیادہ نہیں ہوتے۔ وہ احساس کمتری کا شکار ہو چکا ہے۔ استانی ماں کو چھوٹی چھوٹی چوریوں کی بارہا شکایت لگا کر متنبہ کرچکی ہے اگر بچے کی اس عادت پر فوری قابو نہ پایا گیا تو مستقبل میں بڑا چور بن جائے گا۔

باؤ صاحب کے ذاتی مکان کی تعمیر نے بہت سوں کو بھونچکا رکھا ہے۔ انہیں کیا علم کہ صاحب کا بال بال قرض میں ڈوبا ہے۔ گریڈ سولہ کے کلرک کی 70 ہزار روپیہ لگی بندھی تنخواہ سے تیس ہزار ماہوار گھر آنے سے قبل ہی ”نیا پاکستان ہاؤسنگ“ قرض اور ٹیکس کی نظر ہوجاتا ہے۔ شیر خوار مناہل کے پیمپر، دوائیوں، دودھ اور گھر کے سودا سلف پر لگ بھگ بیس ہزار روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ احمد کو مکتب چھوڑنے واپس لانے اور منڈی سے سستی سبزی خریدنے کے لیے گھر سے بائک پر دفتر جانا مجبوری ہے۔

ہر ماہ نو ہزار کا پٹرول یہاں جل جاتا ہے۔ چار بھائیوں نے مل کر بوڑھی ماں اور بہنوں کی کفالت کرنا ہے۔ اویس طعنوں کی زد میں رہتے ہیں لاکھوں کا گھر بنا لیا بوڑھی ماں اور بہنوں کے لئے صرف تین ہزار؟ بچوں کو ہفتہ میں دو دن دال اور چنوں کا سالن گوشت جیسا ذائقہ بتلا کر کھلانے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔ باؤ صاحب کے ہاں عید قرباں پر کپڑے نہیں سلتے عید الفطر پر ایک سوٹ اپنے اور دو جوڑی کپڑے بیوی بچوں کے لئے لیتے ہیں۔

احمد کی وردی بھی خریدنا ہوتی ہے۔ سال کا یہ تیس ہزار بھی تنخواہ سے علیحدہ کرنا مجبوری ہے۔ بخل کر کے بھی شادی، فوتگی، سسرال آمد، مہمانداری کا خرچ سالانہ پندرہ ہزار ہے۔ تنخواہ ان تمام ناگزیر خرچوں پر تمام ہوجاتی ہے۔ احمد کی سکول فیس واجب الادا رہتی ہے۔ وزیر موصوف کی مان کر چائے کا ایک کپ پینا اب معمول ہے۔ اس کے باوجود ہر ماہ قرض لینا مجبوری بن چکا ہے۔ باؤ صاحب کی واحد عیاشی تمباکو نوشی بھی بچت مہم کی زد میں ہے۔ چھ ہزار کے نصف سگریٹ جلتے ہیں۔ نیکوٹین کی کمی روز بروز بڑھتی مہنگائی بچوں کی شادیوں اور اعلیٰ تعلیم کی فکر انہیں ستائے رکھتی ہے۔ کسی سے سیدھے منھ بات نہیں کرتے ہمہ وقت منھ پھیلائے چڑچڑے رہتے ہیں۔

نبیل صاحب عہدہ میں ماتحت ہونے کے باوجود اپنے باس اور دوست باؤ اویس کے مقابلے بہت عمدہ اخلاق کے مالک ہیں۔ دفتر کے باہر ہر کسی سے مسکرا کر ملتے ہیں۔ نرم گفتار ہیں۔ کاٹن کی کلف لگی قمیض زیب تن کرتے ہیں۔ بچوں کو بڑے انگریزی میڈیم سکول چھوڑنے نئے ماڈل کی کار پر جاتے ہیں۔ جگر گوشوں کے فرمائشی سامان اور پھل سے بھری تھیلیاں گاڑی کی عقبی نشست پر سجائے دفتر سے گھر پلٹتے ہیں۔ گھر بھی معیاری بنا ہے۔ پچھلے دنوں لوہے کا بھاری بھرکم گیٹ اکھاڑ کے پانچ لاکھ روپے کی لاگت سے لکڑی کا اعلیٰ ڈیزائن کا باب لگوایا ہے۔ مسز نبیل کے اپنے ٹھاٹھ باٹھ ہیں۔ زیورات سے لدی پھدی رہتی ہیں۔ نت نیا ”برانڈڈ لباس“ اور اعلیٰ معیار کا میک اپ ان کی قبول صورت شخصیت کو خوبصورت بنا دیتا ہے۔

باؤ اویس کو ان کی مستعدی، حسن کارکردگی اور ایمانداری کے صلہ میں منجانب حکومت پاکستان 13 ہزار روپیہ سکہ رائج الوقت بجلی کا بل موصول ہو چکا ہے۔ بیس ہزار قرض چڑھا ہے۔ باؤ صاحب اس حساب سے ترقی کرتے رہے تو بچتو‍ں کے باوجود سال کے اختتام پر پانچ لاکھ روپے سے زائد کے مقروض قرار پائیں گے۔ جس میں تنزلی نہیں بلکہ ترقی کے آثار واضح ہیں۔ اجتماعی قربانی کے لئے کم از کم پچیس ہزار روپے درکار ہیں وہ کہاں سے آئیں؟

ہمسایوں کے قربانی کے جانور بچے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ کے ماں کا پلو پکڑے پوچھتے ہیں ہمارا بکرا کب آئے گا۔ کیا اس سال ہمیں گوشت کھانے کو ملے گا؟ باؤ اویس سنجیدگی سے اپنے دوست نبیل کے نقش قدم پر چلنے کا سوچ رہے ہیں۔ زیادہ نہیں بس قرض اتارنے جوگا ہی سہی۔ بیوی کہتی ہے ناداں گر گیا سجدے میں جب وقت قیام آیا۔ گھر میں بھوک ناچ رہی ہے اور آپ کو عبادت کی پڑی ہے؟ رزق حلال عین عبادت نوٹ پر چھپا ہی اچھا ہے۔ مجبوری میں تو خنزیر بھی جائز ہوجاتا ہے تو پھر رشوت کیوں نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments