لاہوری کھابے


لاہور کا نام جب بھی دماغ کے دریچوں میں ہلچل مچاتا ہے تو علم و ادب، سیاست، تاریخ اور دیسی کھابے بھی اس کی شہرت کو چار چاند لگاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ لاہور کے لوگوں کو زندہ دلان کہنے کے ساتھ ساتھ خوش خوراک بھی کہا جاتا ہے اور انہیں پہلوان کا لقب دیا جاتا ہے۔ لاہور کے مختلف علاقوں میں سینکڑوں جگہیں ایسی ہیں جہاں آپ کو منفرد، لذیذ اور شہرت یافتہ کھانے ملتے ہیں جن میں مچھلی، نہاری، حلیم، سری پائے، کوفتے، کباب، حلوہ پوری، لسہ، ہریسہ، مرغ چنے، مرغ و مٹن کڑاہی، پٹھورے اور دال چاول سمیت کئی دوسرے کھانے شامل ہیں۔

لاہور کی زندہ دلی تاریخی عمارات، ثقافتی ورثے اور لاہوری کھابوں کی وجہ سے ہے۔ وطن عزیز اور دنیا کے دیگر ممالک سے لاکھوں افراد یہاں خصوصاً تاریخی عمارات دیکھنے اور کھابے کھانے کے لیے تشریف لے آتے ہیں۔ لاہور میں گزشتہ دو دہائیوں میں ہوٹلوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق لاہور اپنی آمدن کا چالیس فیصد ( 40 ٪) کھانوں پر خرچ کر دیتے ہیں۔ لاہوریوں کے متعلق مشہور ہے کہ اگر یہ لوگ کام کرتے ہوئے، خریداری کے دوران تھکنے پر یا جب ان کو کچھ سمجھ نہ آ رہی ہوں تو یہ سب کام دھندا چھوڑ کر ہوٹل کا رخ کرتے ہیں کہ کچھ بھی کھا پی لینے سے ان کا دماغ تازہ دم ہو جاتا ہے۔

لاہور شہر میں موجود فوڈ اسٹریٹس کی رونق ویک اینڈ پر قابل دید ہوتی ہے۔ پورے لاہور اور دیگر شہروں سے لوگ بمعہ فیملی کے لاہوری کھابوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے یہاں رخ کرتے ہیں۔ پرانی انارکلی میں موجود فوڈ اسٹریٹ پر ان دنوں اتنا رش ہوتا ہے کہ پاؤں رکھنے کی جگہ ملنا بھی محال ہو جاتا ہے۔ یہاں ملنے والا ہر کھانا ذائقے میں بے مثال ہوتا ہے جس سے کھانے والا داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔ لاہور میں ہر سوسائٹی کے افراد کے لیے الگ الگ جگہوں پر فوڈ اسٹریٹس موجود ہیں جہاں ہر خاصیت کے کھانے دستیاب ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی ایک ریڑھی والے کی بریانی کے سامنے فائیو اسٹار ہوٹل میں بنی زعفرانی بریانی بھی دم توڑتی دکھائی دیتی ہے۔ شاید اس لیے کہا گیا تھا کہ ”جن نے لاہور نہیں تکیا او جمیا ای نئی،“ اور ”لاہور، لاہور اے،“ ۔ (جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا، لاہور لاہور ہے)۔

لاہور میں کھانے کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جس میں کلیدی اہمیت صبح کے ناشتے کی ہے۔ دوپہر اور شام کا کھانا بھی اسی دلجمعی اور رغبت سے تناول کیا جاتا ہے جس طرح ناشتہ سے انصاف ہوتا ہے مگر ایک لاہوری کی زندگی میں ناشتے کو جو اہمیت حاصل ہے وہ کسی اور شے کو نہیں ہے۔ لاہوری کسی بھی بات پر سمجھوتہ کر سکتے ہیں مگر جس چیز پر لاہوری کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے وہ ناشتہ ہے۔ چاہے سارا دن لاہوریوں نے فارغ کیوں نہ رہنا ہو، صبح سویرے یہ اپنی پسندیدہ ناشتے کی جگہ پر پہنچ کر پیٹ بھر کے ناشتہ کرتے ہیں اور پھر لسی کا ایک گلاس پی کر پروردگار کا شکر ادا بجا لاتے ہیں۔

زندہ دلان لاہور ناشتے میں مرغ چنے، پائے، لسی، حلوہ پوری، بونگ پائے، پائے کا شوربہ، چائے اور مکھن جیسے لوازمات سے بھرپور انصاف کرتے ہیں۔ شب تین بجے جب ساری دنیا اپنے پروردگار کی عبادت میں مصروف ہوتی ہے اہل لاہور سری پائے اور حلوہ پوری سے جنگ کر رہے ہوتے ہیں۔ ناشتوں کی تمام مشہور دکانیں رات بارہ بجے کے بعد سے کھل جاتی ہیں اور دکاندار اسٹال سجا کر گاہکوں کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ جیسے ہی کوئی جانی پہچانی شکل نظر آتی ہے، دکاندار اس کے بولنے سے پہلے ہی اس کا من پسند ناشتہ اس کے آنے تک پلیٹ میں سجا لیتا ہے جو اس کے بیٹھتے ہی اسے پیش کر دیا جاتا ہے۔ اس وقت اگر وہاں کوئی سیاح گھوم رہا ہو تو ناشتوں کی دکانوں پر موجود رش کو دیکھ کر اسے کسی جنگ کا گماں ہو سکتا ہے۔ یہ۔ اور بات ہے کہ نزدیک جانے پر یہ جنگ سری پائے اور لاہوریوں کے درمیان ہوتی ملے گی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لاہوری کتنے خوش خوراک ہو سکتے ہیں۔

لاہور میں مخصوص ناشتے کی بات کی جائے تو اس میں حلوہ پوری، شاہی پٹھورے، حلیم، مرغ چنے اور نان، بونگ پائے، سری پائے اور نان، نہاری اور لسی کا ایک گلاس شامل ہوتا ہے۔ یہ ناشتہ بالعموم لاہوریوں اور بالخصوص سیاحوں کو بھی اپنی طرف کھینچتا ہے اور سب شوق سے کھاتے ہیں۔ یہ لاہوریوں کا ہی نہیں بلکہ لاہوری سیاحوں کا بھی دلعزیز ناشتہ ہے۔ سردی ہو یا گرمی، بارش ہو یا دھند، طوفان ہو یا آندھی، لاہوری کھانوں کے معاملے میں کسی قسم کی رعایت نہیں برتتے اور بھر پور زندگی جیتے ہیں۔

لاہور واسیوں کا ناشتہ کرنا جوکھم بھرا کام ہوتا ہے۔ پاکستان کے دیگر علاقوں میں والدین خصوصاً والدہ یہ طے کرتی ہے کہ آج ناشتے میں کیا کھایا جائے گا جبکہ لاہوریوں میں یہ وصف جدا ہے۔ گھر کا ہر فرد اپنی رائے دینے اور منوانے کا حق رکھتا کہ آج صبح ناشتے میں وہ کیا کھانا چاہتا ہے۔ کسی کو مرغ چنے کھانے ہیں تو کوئی حلیم سے سیر ہونا چاہتا ہے۔ کوئی حلوہ پوری کی صدائیں لگاتا ہے تو کوئی سری پائے کھانے کی فریاد کرتا ہے۔

گھر کے بوڑھے افراد بھی اس دوڑ میں برابر کے شریک ہوتے ہیں اور ان کا ناشتہ نان کے ساتھ دہی کی بالائی پر مشتمل ہوتا ہے جو زود اثر اور زود ہضم ہوتا ہے۔ ناشتے کے انتخاب کے بعد یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہوتا ہے کہ ناشتہ اب لایا کہاں سے جائے؟ ہفتے کے عام دنوں میں لاہوری اپنے متعلقہ علاقے سے ہی ناشتہ کرتے ہیں جبکہ چھٹی کے دنوں میں لاہور کے مشہور ناشتے کیے جاتے ہیں۔ یوں تو لاہور میں بکنے والی ہر کھانے کی چیز مشہور اور لذیذ ہوتی ہے مگر چند خاص جگہوں پر ملنے والا کھانا منفرد اور ذائقے میں لاجواب ہوتا ہے۔ اس لیے کوشش کی جاتی ہے کہ ایسی جگہوں سے ناشتہ کیا جائے۔ ان جگہوں میں پرانی انار کلی کی فوڈ اسٹریٹ اور گوالمنڈی کی فوڈ اسٹریٹ بہت مشہور ہیں جہاں آپ کو ہمہ قسمی ناشتے اور دوپہر و شام کے کھانے کا سامان مل جاتا ہے۔

لاہوریوں کا دوپہر کا کھانا اتنی زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ بعض اوقات صرف لسی کا ایک گلاس یا آدھ لیٹر دودھ ہی دوپہر کا کھانا سمجھا جاتا ہے۔ مزدور طبقہ دال اور چاول کھا کر شکر ادا کرتا ہے جبکہ ہائی کلاس لوگ مختلف ریستورانوں میں جا کر لنچ تناول فرماتے ہیں۔ شام کو جب لاہوریے کاروبار اور دیگر معاملات سے فارغ ہوتے ہیں تو شام کے کھانے کا سوچا جاتا ہے۔ لاہور شہر میں مغرب سے ہی جگہ جگہ پر کباب اور تکوں کی اشتہا انگیز خوشبو پھیل جاتی ہے۔

کہیں سجی تیار کی جا رہی ہے تو کہیں پر مرغ مسلم بھونا جا رہا ہے۔ کالج اور یونیورسٹیوں کے طلباء شام کا کھانا کھانے ٹولیوں کی شکل میں جاتے ہیں اور کباب، تکوں سے پیٹ بھرنے کے بعد واپس اپنے ہاسٹل چلے جاتے ہیں۔ نان لاہوریوں کی زندگی کا لازمی عنصر ہے۔ جیسے آکسیجن کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا ویسے ہی نان کھائے بغیر لاہوریوں کا زندہ رہنا محال ہے۔ شام کے کھانے میں لاہوریے نان، تکے، کباب جن میں ریشمی کباب سر فہرست ہیں کھانے کے لیے لاہور کے دور دراز علاقوں کا رخ کرتے ہیں اور پھر اکثر صبح ناشتہ کر کے واپس آتے ہیں

تجدید لاہور کے پروگرام میں کھانے پینے کی تہذیبی روایات کو زندہ رکھنے اور اجاگر کرنے کے لیے انتظامیہ کی طرف سے گوالمنڈی کا انتخاب کیا گیا اور 15 مارچ 2000 کو فوڈ اسٹریٹ کے منصوبے کا آغاز کیا گیا۔ گورنر پنجاب کی ہدایت پر یہ فوڈ اسٹریٹ صرف سات ماہ میں مکمل ہوئی اور 20 اکتوبر 2000 کو اس کا افتتاح کیا گیا۔ یہاں موجود پرانے مکانوں کی مرمت کر کے انہیں خوبصورت رنگوں اور پھول بوٹوں سے منقش کیا گیا۔ بالکونیوں کے نیچے مختلف رنگوں کی لائٹیں لگائی گئیں جن کی روشنی میں بالکونیاں اور جھروکے بے مثال منظر پیش کرتے ہیں۔

ہر روز شام کے وقت دفتروں سے لوٹتے ہوئے افسران لاہوریے اور دیگر شہری یہاں کا رخ کرتے ہیں جن میں بیرون ممالک سے آئے سیاح بھی شامل ہوتے ہیں۔ سرکاری غیر ملکی مہمانوں کو بھی یہاں لایا جاتا ہے جن کا استقبال بینڈ باجے کی ایک ٹیم کرتی ہے جو قومی لباس میں ملبوس ہوتی ہے اور پھر انہیں لاہور کے لذیذ کھانے کھلائے جاتے ہیں۔ ماہ صیام میں لاہوریوں کی ایک بڑی تعداد یہاں سحری اور افطاری کرتی ہے اور ثواب اور چٹخاروں کا ساتھ بولی دامن کی طرح چلتا رہتا ہے۔

گوالمنڈی فوڈ اسٹریٹ میں امیر اور غریب ہمہ قسمی افراد آ کر کھانا کھا سکتے ہیں کیونکہ یہاں موجود ہوٹلوں پر کھانوں کی قیمتیں لاہور کے دیگر علاقوں کی نسبت کم ہوتی ہیں۔ یہاں پر روایتی کھانوں کے علاوہ خوبصورت چنگیر میں ڈیزائن دار رومال میں لپیٹی گئی روٹیاں، مٹی سے بنی ٹھوٹھیوں میں چاول اور دودھ کی بنی کھیر، مکئی کی روٹی اور سرسوں کا ساگ بھوک کو دوبالا کر دیتا ہے اور آپ چٹخارے لے لے کر کھاتے ہیں

لاہور کے کھابے لاہوریوں کی پہچان اور روایت ہیں مگر اس پہلو کو نظر انداز کرنا بھی ناممکن ہے کہ یہ روایت اب دم توڑ رہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ فوڈ اسٹریٹس کی جگہوں پر شاپنگ مالز کا بن جانا ہے جس سے اندرون لاہور اور لاہور کے دیگر علاقوں میں رہائشی افراد کی تعداد کم ہو گئی ہے۔ یہ علاقے اب کمرشلائز ہو چکے ہیں اور یہاں بسنے والے یا تو روایات سے نابلد ہوتے ہیں اور لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں یا پھر وہ ان روایات کے عادی ہو جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments