میں دودھ پلاتی ہوں تم گولی چلاتے ہو


میں صحرائے تھر کی ماں ہوں۔ اپنے بچے کا دودھ ہرن کے بچوں کو روز پلاتی ہوں۔ ہرن کے بچے کو اپنا بچا سمجھتی ہوں۔ اپنے بچے کی طرح اسے اولاد سمجھ کر میں پال پوس کر بڑا کرتی ہوں۔ اسے صحرائے تھر کا ہی بچا سمجھتی ہوں۔ اسے انسان سمجھ کر میں حفظ میں رکھتی ہوں! تجھے انسان نہیں اک درندہ سمجھی ہوں جو چند پیسوں کی لالچ میں یا شوق شکار کے ہوس میں یا اپنے آقاؤں کو خوش رکھتے ہوئے ان کی جان لیتے ہو۔ ماں سے اس کے تم بچے چھینتے ہو۔

یہ معلوم ہے مجھے کہ دنیا بھر میں شکار یا اس طرح کسی کی جان لینا ممنوع ہے مگر تم اپنے ہاتھ میں سر عام بندوق اٹھاتے ہو میرے ہرن بچوں پر بندوق چلاتے ہو۔ تم بھیڑیے ہو اور میرے بچوں کا گوشت نوچتے ہو! دنیا اور اس ملک کے قانون کو تم پیروں تلے روندتے ہو؟! کوئی پوچھنے ولا نہیں تم سے۔ کوئی کہتا نہیں تم کو؟! تم آخر کیا ہستی ہو جو خوف خدا نہیں رکھتے!

ہاں گر کوئی نہیں کہتا اور کوئی نہیں روکتا تو میں تو چیخوں گی۔ میں صحرائے تھر میں ”کارونجھر“ کی ماں ہوں، ”بھارو جو تڑ“ کی ماں ہوں، ”رنگیلو“ ، ”گودھیار“ اور ”ہریار“ کی بھی ماں ہوں۔ اپنا دودھ پلا پلا کر ہرن کے بچوں کو پروان چڑھاتی ہوں۔ تم ہر سال کیوں بندوق اٹھا کر آتے ہو اور میرے ہرن بچوں کی جان لیتے ہو۔ خون بہاتے ہو۔ میرے بچوں کی جان لینے کے بجائے تم میری جان لے لو مگر میرے بچے نہ مارو۔

میری چیخ اور آہ زاری سات آسمانوں سے پار ہوجاتی ہے پر کسے سنائی نہیں دیتی کیوں؟! تجھے کون روکے گا؟ تم کس کے بل بوتے پر ہو؟ کون سے گھمنڈ میں ہو تم جو روکنے سے نہیں رکتے۔ احساس نہیں رکھتے! تم تھر کی ماں کے بچے مارتے اور چراتے ہو۔ تم رئیس وڈیرے ہو یا منشی میلے ہو جو ماں کی چیخ نہیں سنتے! گر رئیس وڈیرے ہو تو پک سے سندھ کی سرکار کے سائے میں رہتے ہو۔ گر ایسا نہیں ہے تو تجھے سندھ حکومت کیوں نہیں روکتی؟ کیا اس سے بھی طاقتور ہو؟ کیا ریاست کے اندر تیری ریاست ہے جو اندھے، گونگے بہرے بن گئے ہو؟ تجھے تھر کی ماں کی پکار بھی نہیں سنائی دیتی؟

پورے صوبہ سندھ کا ہر بیٹا میرے بچوں کے لیے سراپا احتجاج ہے مگر تیرے کانوں میں کپاس ٹھوسی گئی ہے جو سنتا نہیں کسی کی۔ کیا سندھ میں حکومت نہیں؟ جو تمھارے جیسے بے لگام گھوڑوں کو لگام دے سکے اور بچے ماں کے بچا لے۔ آسمان کو چھوتی پکار میری کا داد و فریاد نہیں؟ گر تجھے حکومت لگام نہیں دے سکتی پھر سمجھ لوں گی کہ کوئی حکومت نہیں۔ میرے ہرن بچوں کے اس قتل و غارت سے یہ صحرائے تھر پورا لہولہاں ہو گیا ہے۔ شوق شکار کے بہانے تم مامتا پر دھاوا بول کر شب خون مارتے ہو ممتا کو تڑپاتے ہو۔ لخت جگر چھینتے ہو؟

میرے ہرن بچوں کے خون میں لت پت لاشیں بکھری پڑی ہیں ہر سو۔ میری آنکھوں میں خون کے آنسو۔ میری روح زخمی ہے اور دل ٹکڑے ٹکڑے ہے۔ میرے جگر کے ٹکڑوں کا کسے احساس نہیں ہوتا اور کوئی نہیں سنتا۔ ہاں میں بے بس تھر کی ماں ہوں پر ہوش کے ناخن لو۔ سندھ سرکار ہو نہ ہو پر اللہ کی سرکار بڑی ہے۔ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ تو پکڑا جائے گا۔ عذاب الہی میں جکڑا جائے گا۔ تو ظالم جابر ہے۔ سب کے آگے یہ بات ظاہر ہے کہ میں تھر کی ماں ہوں۔ اپنے بچوں کے لیے تڑپ اور ترس رہی ہوں۔ ہر سو صحرائے تھر میں کربلا کا منظر ہے۔ مرثیوں اور نوحوں کی آوازیں گونج رہی ہیں۔ ماؑں کا بچوں کے لیے ماتم برپا ہے۔ تم وقت کے یزید ہو۔ میں بے قصور ماں ہوں۔ میں دودھ پلاتی ہوں تم گولی چلاتے ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments