خدا کی قسم درد ہوتا ہے!


آج کل یہ جملہ بہت ہٹ اور اس کو بونے والا ہٹ لسٹ پر ہے۔ یہ کون سا درد ہے؟ اور کیوں ہو رہا ہے؟ جب آپ اندھا دھند طریقے سے کسی کی تقلید کرتے ہیں اس کے پیروکار بن جاتے ہیں اور اس تقلید کی بنیاد کسی اور کے کندھے کے سہارے بنائی جاتی ہے تو اس وقت اس جانثاری کا میٹھا میٹھا درد ہوتا ہے جو انسان کو مسحور و مخمور رکھتا ہے۔

ہمارے یہ درد والے صاحب بھی کچھ ایسے ہی حال سے گزرے ہیں اور اب اصل درد کی کیفیت سے دوچار ہوئے ہیں تو چیخ چیخ کر لگاتار کہے جا رہے ہیں کہ ”خدا کی قسم درد ہوتا ہے“ ۔

فرمایا، آپ ہمیں اس وقت فائلیں دکھایا کرتے تھے کہ دیکھو یہ ثبوت ہیں ان لٹیروں کے خلاف اور ہم انہیں اپنے پروگرامز میں لہرا لہرا کر دکھایا کرتے تھے تا کہ لوگ ان چوروں ڈاکوؤں سے خبردار رہیں اور اب آپ نے انہی کو تخت پر لا بٹھایا ہے، وہ پلندے کیا ہوئے، ”خدا کی قسم درد ہوتا ہے“ ۔

کہا، آپ کے کہنے پر ہم نے اک نئے دیوتا کو سپورٹ کیا، ان کے دست و بازو بنے، میڈیا میں ان کو پروان چڑھایا تا کہ عوام کو نیا نجات دہندہ مل سکے، عالیہ و عظمیٰ سے آپ نے ان کو صادق و امین کا سرٹیفیکیٹ دلوایا جس کا پرچار ہم نے کیا۔ لیکن پھر آپ نے اس کا خود ہی دھڑن تختہ کر دیا ”خدا کی قسم درد ہوتا ہے“ ۔

جتلایا، دن رات ہم آپ کے سایہ عاطفت میں رہے، ہمیں اس انقلاب کی راہ آپ نے دکھلائی اور ہم اس کے راہ رو بنے، اس انقلابی قافلے کی میڈیائی تشہیر ہم نے کی، عوام کو اک نئی صبح روشن کی امید و آس دلائی، ہم نے اپنا سب کچھ آپ کی آس میں داؤ پر لگا دیا، لیکن آپ نے اس قافلے کو دربدر کر دیا ”خدا کی قسم درد ہوتا ہے“ ۔

ان اصحاب انقلاب کا درد ان کی نظر میں صریحاً حق پر مبنی ہے کیونکہ جب آپ خود کو ایک اعلی درجے پر فائز کر لیتے ہیں کہ آپ کے ”ان“ سے تعلقات ہیں، بانی انقلاب آپ کا طرفدار ہے اور انقلاب کا سرخیل آپ کی تعریف میں رطب السان ہے تو پھر خود کو اشرف المخلوقات میں اعلی و عرفیٰ سمجھنا بظاہر حق لگتا ہے۔ ایسے عارضی انقلابی دیکھتے دیکھتے عمر گزر گئی۔ اور صد افسوس کہ یہ سب انقلابی ”ان“ کی گود میں بیٹھ کر انقلاب کی پلاننگ کرتے ہیں جنہیں خود ایسے کسی انقلاب کی کبھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اور پھر جب گود سے اتار دیا جاتا ہے تو ”خدا کی قسم درد ہوتا ہے“ ۔

میڈیائی ٹرائل اب ایک روایت بن چکا ہے، وسعت اللہ خان صاحب نے کیا خوب جملہ لکھا تھا:

”جس نوجوان کے ہاتھ میں موبائل ہے وہ چاہتا ہے کہ جنرل اس کی مرضی کا ہونا چاہیے، جج کا ہر فیصلہ اس کی خواہش پر مبنی ہو“ ۔

ایسی میڈیائی انارکی معاشرے میں سراسیمگی تو پھیلا سکتی ہے اصلاح اور انقلاب نہیں۔ اور جو اس انارکی کو شعور کا نام دیتے ہیں ان کے لاشعور میں فتور ہے۔ ان کی ہیجان انگیزی دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وعدوں کا ٹوکرا سربازار الٹا دیا گیا ہے۔ خلائی مخلوق سے نیوٹرل کا سفر بہت خوب رہا، مدح سرا اب طعنہ زن ہیں، جس نے بھی اس کوچہ عاشقاں میں قدم رکھا اپنا سب کچھ لٹا کر ہی نکلا اور وہ ہیں کہ نئے عشاق نہ سہی پرانے ہی سہی، ہجوم عاشقاں کون سا کم ہونا ہے۔

سید تصور عباس، باکو - آذربائیجان
Latest posts by سید تصور عباس، باکو - آذربائیجان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments