علامہ اقبال کے افکار پرمولانا جلال الدین رومی کے اثرات


اردو اور فارسی شاعری دونوں زبانوں پر تنوع افکار اور ثروت تصورات میں کوئی اقبال کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ فلسفہ جدید اور قدیم، اسلامی اور غیر اسلامی تصورات، معاشرتی سیاسی، اور اخلاقی مسائل جیسے تمام موضوعات کو اقبال نے اپنی شاعری میں برتا۔ مولانا روم کی مثنوی معنوی اور اقبال کی شاعری میں یہ بات مشترک ہے کہ دونوں اپنے اصل کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ اقبال کی شاعری میں بعض میلانات بہت واضح ہیں۔ خودی اقبال کا خاص مضمون ہے۔ خودی کے مفہوم کو گہرا اور وسیع کر کے اقبال نے مومن کا مفہوم، تقدیر کا مفہوم، خدا کا مفہوم، انسان کا مفہوم، صدیوں کے قائم روایتی مفہوم سے الگ کر دیا۔ مشرق میں اقبال نے مولانا جلال الدین رومی کو اپنا مرشد بنایا۔

اقبال رومی سے کہاں تک متاثر تھے یہ بات جاننے کے لیے مولانا جلال الدین رومی سے واقفیت ضروری ہے۔ مولانا رومی کی ولادت سات سو سال قبل بلخ میں ہوئی۔ رومی کے سامنے ایک جانب اسلامی علم تھا اور دوسری طرف یونانی فلسفہ، اور وہ دونوں رخ اپنی شاعری میں پیش کرتے ہیں۔ مولانا رومی اور اقبال میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں اعلی درجے کے شاعر ہیں۔ دونوں نے اپنی شاعری کی بنیاد اسلام اور قرآن کی تعلیمات پر رکھی۔ دونوں خودی کی نفی کے بجائے خودی کی تقویت چاہتے ہیں۔ دونوں کا تخیل، تقدیر کے حوالے سے عام انسانی تخیل سے الگ ہے۔ دونوں عمل پیہم کو زندگی سمجھتے ہیں۔ دونوں شعراء کے یہاں بقا موجود ہے۔ اس ازلی اور طبعی مناسبت کی وجہ سے اقبال خود کو رومی کا مرید سمجھتے تھے۔ اقبال کمال عقیدت میں پیر کے رنگ میں رنگے ہوئے مرید تھے۔

یہ حقیقت ہے کہ رومی کا صحیح خلیفہ سات سو سال بعد پیدا ہوا۔ جب تک دنیا میں مثنوی معنوی پڑھنے والے اور اس سے روحوں میں گداز پیدا کرنے والے باقی رہیں گے۔ تب تک اقبال کا کلام اس کے ساتھ پڑھا جائے گا اور روحانی لذت اور زندگی پیدا کرتا رہے گا۔ مولانا روم کے کلام میں عشق تمام کائنات کی روح ہے۔ عشق ہی وہ جذبہ ہے جس کے سبب ہر چیز اپنے اصل کو جاننے کے لیے بے تاب ہے۔ عشق سوز بھی ہے اور ساز بھی، زہر بھی ہے اور تریاق بھی، عشق ہی اخلاق فاضلہ کا سر چشمہ ہے۔ عشق ہی افلاطون ہے عشق ہی جالینوس ہے۔ اقبال کی بہترین نظموں میں عشق اور عقل کا تقابل پایا جاتا ہے۔ اقبال، جوش، قوت، وجدان، جذبہ، اور تخلیق کا شاعر ہے۔ ان تمام چیزوں کے لیے اس کے پاس ایک ہی لفظ ہے عشق

نظم ”پیر و مرید“ میں اقبال کہتے ہیں کہ

عشق کی گرمی سے ہے معرکہ کائنات
علم مقام صفات، عشق تماشائے ذات
عشق سکون و ثبات، عشق حیات و ممات
علم ہے پیدا سوال، عشق ہے پنہاں جواب
عشق کے ہیں معجزات، سلطنت فقر و دیں
عشق کے ادنی غلام، صاحب تاج و نگیں
عشق مکان و مکیں، عشق زمان و زمیں
عشق سراپا یقیں، اور یقیں فتح یاب

رومی کا ایک فارسی شعر
نہ من بیہودہ گرد کوچہ و بازار می گردم
مذاق عاشقی دارم، پئے دیدار می گردم
شراب شوق می نوشم، بہ گرد یار می گردم
سخن مستانی می گویم، ولے ہشیار می گردم

رومی اور اقبال کے یہاں خدا موجود ہے۔ اقبال خدا کے ساتھ بے تکلفی برتتے ہیں۔ ان کی مشہور اردو نظم ”شکوہ“ اسی بے شوخی اور بے تکلفی کا نتیجہ ہے۔

اے خدا شکوہ ارباب وفا بھی سن لے
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے
تھی تو موجود ازل سے ہی تیری ذات قدیم
پھول تھا زیب چمن نہ پریشاں تھی شمیم
شرط انصاف ہے اے صاحب الطاف عمیم
بوئے گل پھیلتی کس طرح جو ہوتی نہ نسیم

جلال الدین رومی کے یہاں بھی اس طرح کے اشعار ملتے ہیں۔ رومی اور اقبال دونوں نے تقدیر کے مفہوم کو نئی تعبیر دی۔ مومن خود تقدیر الہی ہے۔ جب وہ بدل جاتا ہے تو اس کی تقدیر بھی بدل جاتی ہے۔ اقبال ایک نئے آدم تعبیر ممکن سمجھتے تھے۔ جو اپنے لیے نیا جہان اور نئی تقدیر پیدا کر لے۔ مولانا جلال الدین رومی کو اقبال اپنا مرشد سمجھتے تھے۔ جاوید نامہ میں افلاک اور ماورائے افلاک کی سیر میں اقبال کے مرشد رومی ہیں۔ تمام حقائق اور واردات کی اصلیت اقبال پر اسی مرشد کے سمجھانے سے کھلتی ہے۔

”بال جبریل“ میں پیرو مرشد کا مکالمہ بھی اسی پر دلالت کرتا ہے۔ اقبال کو حضور ﷺ کے بعد رومی سے ہی گہرا روحانی واسطہ ہے۔ رومی کا تصوف اسلامی تصوف کی مختلف قسموں میں ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ عقل اور عشق کا باہمی تعلق جس پر اقبال نے اپنی شاعری کا بہت سا حصہ وقف کیا ہے پیر رومی کا خاص مضمون ہے۔ رومی کے کچھ بہترین تصورات اقبال کی شاعری میں جدید رنگ میں ملتے ہیں۔ بعض امور میں اقبال رومی سے آگے نکل گئے ہیں

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں
علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں
اسی کے فیض سے میری نگاہ ہے روشن
اسی کے فیض سے میرے سبو میں ہے جیحوں
اقبال کی مختصر نظم ”عقل و دل“
ہر خاکی و نوری پہ حکومت ہے خرد کی
باہر نہیں کچھ عقل خداداد کی رو سے
عالم ہے غلام اس کے جلال ازلی کا
ایک دل ہے کہ ہر لحظہ الجھتا ہے خرد سے
میں اپنا مضمون رومی کے ایک مشہور شعر پر ختم کرتی ہوں۔
بیا جاناں عنایت کن تو مولانائے رومی را
غلام شمس تبریزم، قلندر دار می گردم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments